خوف وامید (حصہ دوم)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
العلم
کارکن
کارکن
Posts: 32
Joined: Sat Dec 21, 2013 12:34 pm
جنس:: مرد

خوف وامید (حصہ دوم)

Post by العلم »

إن الحمد للہ، نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسیئات أعمالنا، من یھدہ اللہ فلامضل لہ،ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لہ شریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ:
أما بعد! قال اللہ سبحانہ وتعالی:
(إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّـهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَّرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ) (فاطر:29)
وقال:
(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّـهِ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ) (البقرۃ:218)
ان دونوں آیتوں کے معانی بالترتیب یوں ہیں:
"جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیده اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وه ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خساره میں نہ ہوگی۔"
"البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الہٰی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والااور بہت مہربانی کرنے والاہے۔"
رجا یا امید کا مطلب یہ ہے کہ نیک کام پر اللہ تعالیٰسے اجر وثواب پانے کی آرزو یا چاہت رکھی جائے۔ لیکن اس کے لیے پہلے اللہ کی راہ میں خلوصِ نیت کے ساتھ ایسا اچھا عمل پیش کرنا ضروری ہے، جو شرعی طور پر بھی اچھا ہو، نیز محرمات سے دور رہے۔ اور اگر کبھی غلطی سے کوئی حرام کام سرزد ہو جائے تو اس پر نادم ہو اور توبہ وعہد کرے کہ وہ پھر کبھی کسی حرام کام کا ارتکاب نہیں کرےگااور اس عہد پر ثابت قدم رہے۔ ایسے لوگوں کے کارخیر یا دعا پر اللہ سے اجر وثواب یا اپنی مراد پانے کی امید رکھنا، ایک عبادت ہے، اور توحید کی علامت ہے۔ ایسی امید یار جا کا اللہ کے سوا کسی مخلوق سے وابستہ رکھنا، توحید کے منافیامرہے، اور شرک ہے،اس سے ماقبل وفات خلوص نیت کے ساتھ توبہ کیے بغیر اللہ معاف نہیں کرتا۔
اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَايُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا) (الکھف:110)
"آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔"
دل کی گہرائیسے اللہ کی رحمت ومہر بانی کی امید رکھنا بھی تقرب اِلی اللہ یا وسیلہ اِلی اللہ ہے۔ اس تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث قدسی بھی مروی ہے کہ:
(أنا عند ظن عبدی بی، و أنا معہ حیث ذکرنی) (متفق علیہ)
" اللہ عز وجل فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں یعنی اس کے ساتھ وہی معاملہ کروں گا جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھےگا اور میں اس کےساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرےگا۔"
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:
(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَاتُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ) (قٓ: 16)
"ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں۔"
اس سلسلے میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ خوف ورجا دونوں کو اپنائے رکھیں، اور ایک مؤمن بندہ کی بہترین حالت یہ ہے کہ وہ مطلوبہ معتدل خوف وامید کے ساتھ اللہ سے محبت رکھے، انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا بھی یہی حا ل تھا، اور تمام مؤ من بھی اسی روش پر چلتے ہیں۔
جیسا کہ اللہتعالی ٰنے فرمایا:
(تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ) (السجدۃ:16)
"ان کے پہلو اپنے بستروں سے الگ رہتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے ان میں سے خرچ کرتے ہیں۔"
جب کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کی عام رحمت کو جان لےگا، اور یہ بھی جان لےگا کہ اللہ اپنے بندوں کے بہت سے گنا ہوں کو درگزر بھی کرتا ہے۔اور جب وہ اللہ کی تیار کردہ جنت اوراس کے عطا کردہ اجر وثواب کی کثرت سے واقف ہوگا،تو اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہو جائےگا، اور اللہ سے مزید کچھ پانے کے لیے اس کی لالچ وامید اور بڑھ جائےگی،وہ کار خیر میں اور بڑھ چڑھ کر حصہ لےگا، نماز اور روزے کا مکمل پابند ہو جا ئےگا، فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نوافل سے بھی وہ غافل نہیں رہےگا، صبح صادق سے ایک گھنٹہ پہلے ہی وہ اپنا بستر چھوڑ کر قیام اللیل وتہجد میں مشغول ہوجائےگا، اور اللہ سے لولگائےگا اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے خشوع وخضوع کے ساتھ گڑ گڑا کر دعائيں کرےگا کہ اللہ اسے اور اس کے اہل وعیال کو صالحین میں شامل کرلے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت اور عذاب کو ایک ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے،جیسے:
(وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَاب) (الرعد:6)
"اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلد کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں، اور بےشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر بھی۔ اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔"
یعنی لوگوں کے اپنے نفس پر ظلم کرنے اور اللہ کی معصیت کرنے کے باوجود وہ ان کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا؛ بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے، اور بعض دفعہ ان کا معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ درگزر اللہ کے حلم وکر م اور عفو ودرگزر کاہی نتیجہ ہے۔ ورنہ اگر وہ فورا ًمؤاخذہ کرتا اور بلا تاخیر عذاب دیتا تو روئے زمین پر اب تک جن اور انسان میں سے کوئی باقی نہ رہتا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَإِذَا جَاء أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللہَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا) (فاطر:45)
"اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب داروگیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا؛ لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایک میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے۔ سو جب ان کی وه میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا۔"
اللہ کی مہر بانی، رحم وکرم،اورمغفرت، اس کی صفت عدل وانصاف کا ایک پہلو ہے۔ سورۂالرعد کی مذکورہ آیت میں صفت عدل کے اس پہلو کے ساتھ دوسرا پہلو اللہ کی قہر مانی کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ:
(وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ) (الرعد:6)
"اور بےشک تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔"
ایسا بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے؛ بلکہ اس دوسرے پہلو کو بھی مد نظر رکھے۔ کیونکہ ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھتے رہنے سے بہت سی چیز یں اوجھل رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن کریم میں جہاں پر اللہ کی صفت رحمت وغفران کا بیان ہوتا ہے، تو اِس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہر وجبروت کا بیان بھی ملتا ہے؛ تاکہ اللہ کی عبادت میں سے رجا(امید) اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں؛ کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے، تو انسان معصیت الہٰی کا بلاخوف وخطر ارتکاب کرتا ہے۔ اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ووماغ پر مسلط رہے، تو اسے اللہ کی رحمت سے مایوسی ہوجاتی ہے۔ اور یہ دونوں باتیں بندوں کے لیے غلط وتباہ کن ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:(الإیمان بین الخوف والرجاء) " ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔" بندہ کے ایمان کو صحیح سلامت رکھنے کے لیے ان دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ یعنی بندہ اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپرواہ نہ ہو،اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
میرے مسلمان بھائیو! آپ پہلے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کیجئے پھر نیک عمل کی انجام دہی میں لگ جائیے۔پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ کسب حلال کے لیے محنت کرنا بھی عمل صالح ہے۔ نیک عمل کرنے کے بعد ہی اللہ سے اچھے برتاؤ اور اچھے بدلے کی امید وابستہ کیا جا تاہے۔میٹھے آم کا پیڑلگاکر ہی اس سے میٹھے آم کی امید کی جا سکتی ہے۔جبکہ کانٹے بوکر اس سے میٹھے آم کی امید رکھنا بےوقوفی اور احمقانہ عمل ہے۔ اسی طرح نیک عمل کیے بغیر اللہ تعالیٰ سے مہر بانی ورحم وکرم کی امید رکھنا، یا اس کا مستحق سمجھنا صرف بےوقوفی ہی نہیں؛ بلکہ اپنے آپ کو دھوکا دینا بھی ہے کہ اللہ تمہاری شکل وصورت اور مال ودولت دیکھ کر اپنے رحم وکرم ومغفرت کی تم پر بارش نہیں کردےگا۔ یہ تمہاری خودفریبی وغرور ہے، یا پھر اعجاب بالنفس وخود پسندی ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے غروروگھمنڈ سے منع فرمایا ہے:
ارشاد ربانی ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ) (فاطر:5)
"لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعده سچا ہے، تمہیں زندگانیِ دنیا دھوکے میں نہ ڈالے، اور نہ دھوکے باز شیطان تمہیں غفلت میں ڈالے۔"
یعنی تم دنیا میں بکثرت مال ودولت پاکر گھمنڈ وخود پسندی میں مبتلا نہ ہو جاؤ کہ اللہ ورسول کے بتائے ہوئے طریق انفاق سے روگردانی کرکے،اور حلال وحرام کی تمیز کو بالائے طاق رکھ کر، اسے جس طرح چا ہو بےجاخرچ کرتے رہو، یہ شیطا نی چال ہے۔ تمہیں چاہئے کہ شیطان کے دجل وفریب اور ہتھکھنڈوں سے بھی بچو؛ تاکہ وہ تمہیں ناجائز فضول خرچی اور گناہ کے راستے پر نہ ڈال سکے،بےشک شیطان تمہاری ہر نیکی و بھلائی کا دشمن ہے اور تمہیں جہنم کے راستے میں ڈھکیل دینا چاہتا ہے۔
میرے مسلمان بھائیو! تم اللہ سے ڈرو، اور تقویٰ اختیار کرو، نیک اعمال پر مداومت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا نہایت ضروری ہے۔ تم نیک عمل پر اللہ سے اجر وثواب کی امید رکھو، اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہو۔ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی یاد رکھو:
(اعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ) (المائدۃ:98)
"تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے۔"
یعنی ایک مؤمن ومسلمان ،جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے، اللہ کے عذاب وپکڑ کے خوف اور اس کے رحم وکرم کی رجا وامید کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرے تاکہ اللہ تعالیٰ خوش ہو کر اسے اپنے مزید رحم وکرم سے نوازے۔
اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو نیک اعمال کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ ہم اپنے گردوپیش کے غریب ومحتاج اور بےسہارا یتیم وبیوہ کا خیال رکھیں، اور ان کے دکھدرد کو ہلکا کرنے کے لیے ان کی ضروریات میں ہاتھ بٹا ئيں؛ تاکہ وہ اپنی زندگیمیں مایوسی کا شکار نہ ہوجائيں۔ ایسا نہ ہوکہ وہ رات کو بھوک سے نڈھال ہو کر اپنے بستر پر جائیںاور بھوک کی بےچینی سے ان کی آنکھوں کی نیند بھی چھن جائے اور اسی بےچینی سے وہ کڑوٹیں بدلتے رہیں۔ اور ہم پڑوس میں رات کو آسودہ پیٹ نیند کے خراٹے لیتے رہیں ۔ کب ان محتاج اور بے سہارا لوگوں کےلیے ہمارے دلوں میں کوئی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگا؟ اللہ ہمارے دلوں میں اپنے پڑوسی کے حقوق کا صحیح احساس پیدا کرے۔ اس سلسلے میں ہم سے جو تقصیریں اور کوتا ہیاں ہوئيں ہیں، یا ہورہی ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرمائے اور ہم سب کی آخرت کو دنیا سے بہتر بنائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
http://www.minberurdu.com/" onclick="window.open(this.href);return false;عالمی_منبر/باب_ایمان/خوف_و_امید.aspx
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”