رائگانی ،،،،،،،

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

رائگانی ،،،،،،،

Post by انور جمال انور »

رائگانی ،،،، از انور جمال انور

میرا نام چیخوف ہے میں روس کا پیدائشی ہوں. جب میری کمپنی نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر مجھے انڈیا بھیجنے کا فیصلہ کیا تو میں قطعی خوش نہیں تھا لیکن یہاں آتے ہی ایسا لگا جیسے میں اپنوں میں آ گیا ہوں ، میں لوگوں کیلئے اجنبی تھا مگر یہاں کے لوگ میرے لیے اجنبی نہیں تھے ، پھر پے در پے چند ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے میری عقل خبط کر دی ،،،

میں اس دن آفس کیلئے نکل رہا تھا جب کسی نے پیچھے سے لرزتی ہوئی نحیف و نزار آواز میں مجھے پکارا ،،،، شنکر ،،

میں نے بیساختہ پلٹ کر دیکھا اور اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے آپ پر حیرت ہوئی ،، میرا نام شنکر نہیں تھا ، اس نام پر رکنا عجیب تھا ،،

یہ ایک اسی یا نوے سالہ بڑھیا تھی جو سامنے والی بلڈنگ میں رہتی تھی اور پتہ نہیں کیوں اپنے فلیٹ کی بالکونی پر اکثر کھڑی مجھے دیکھتی رہتی تھی ،، آج وہ لاٹھی کے سہارے چلتی ہوئی میرے پیچھے آ گئی تھی ،،،

کیا آپ نے مجھے پکارا ہے محترم خاتون ؟ میں نے انگریزی میں پوچھا

اس نے ایک مرتبہ پھر مجھے شنکر کہا اور ہندی یا شاید بنگالی زبان میں اپنا مدعا بیان کرنے لگی ، بدقسمتی سے میں ان دونوں سے ناواقف تھا

اپنے فلیٹ کی طرف اشارہ کر کے جانے اس نے اور بھی کیا کچھ کہا ،
میں ایک لفظ بھی نہ سمجھ پایا ،،
میں نے معذرت چاہی اور اسے وہیں چھوڑ کر رخصت ہو گیا
آخری موڑ مڑتے ہوئے جب میں نے پلٹ کر دیکھا تو اسے اسی طرح ساکت و صامت اپنی طرف حسرت سے دیکھتے ہوئے پایا ،،

نہ چاہتے ہوئے بھی اگلے کئی روز تک میں سوچتا رہا کہ بڑھیا مجھ سے کیا چاہتی ہے ، سچ پوچھیں تو وہ مجھے کچھ پراسرار سی لگی تھی ،،

_______________________

بہر حال میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری شکل اس کے کسی ایسے عزیز سے ملتی ہے جو اب دنیا میں نہیں رہا ، جبھی وہ مجھے اتنی محبت اور لگاوٹ سے تکتی رہتی ہے ،،

میں نے اسے مایوس نہیں کیا ، اب میں روز صبح آفس کی طرف روانہ ہوتے وقت گیلری میں اسے کھڑے دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ،،وہ میری اس حرکت پر بے حد خوش ہو جاتی اور جوابی ہاتھ ہلا کر مجھے رخصت کرتی ،،

اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا
کبھی کبھی میں ہاتھ ہلانے کے ساتھ ایک ہوائی بوسہ بھی اس کی طرف اچھال دیتا
یہ کسی بھی گناہ کی آلودگی سے پاک ایک معصوم بوسہ ہوتا تھا مگر پھر ایک دن میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ،،،،

حسب معمول میں گھر سے نکلا ،،وہ سامنے والی عمارت کی پہلی منزل پر میری منتظر تھی ،
میں نے ہاتھ ہلا یا اس نے جواب دیا ، تب یونہی ایک لمحے کیلئے جیسے نگاہیں اس پر سے ہٹیں ،،میں نے اپنی انگلیاں چوم کر اس کی طرف اچھال دیں ،، اور اس کے ساتھ ہی مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ،،

شاید میری آنکھیں اس منظر کو دیکھنے کے بعد پھٹ گئی ہوں گی ،، وہاں بڑھیا کی بجائے ایک سولہ سترہ سالہ انتہائی حسین و جمیل لڑکی کھڑی تھی اور وہ مجھے بالکل اسی طرح ہاتھ ہلا کر رخصت کر رہی تھی ،،
ضرورت تھی کہ میں وہیں بے ہوش ہو کر گر جاتا مگر لرزاں و ترساں اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا ،،
____________

آفس میں ایک ایک پل پہاڑ بن کر گزر رہا تھا ،، میں نے دو گھنٹے بعد ہی چھٹی کر لی اور گھر لوٹ آیا

گھر پہنچتے ہی میں نے بڑھیا کے فلیٹ پر نظریں جما لیں ،،
فلیٹ کسی انسانی وجود سے پاک لگ رہا تھا
میں اس حسینہ کی ایک اور جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب تھا ،، جانے کیوں اسے دیکھ کر احساس ہوا تھا کہ ہم دونوں کافی عرصے تک ایک ساتھ رہے ہیں وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ میں برت چکا تھا ،،

انتظار کی گھڑیاں مجھ پہ قیامت بن کر ٹوٹ رہی تھیں ،،
بالآخر میں فلیٹ سے نکلا اور بڑھیا کے دروازے پر جا پہنچا
دروازہ کھلا ہوا تھا جب دستک کے جواب میں کوئی باہر نہ آیا تو میں اندر گھس گیا ،، میں نے بڑھیا کو پکارا
میرے سامنے ایک ڈرائنگ روم تھا جس میں جا بہ جا میری تصویریں لگی ہوئی تھیں ،، لیکن ان تصویروں میں میں اپنی عمر سے کافی بڑا لگ رہا تھا
ماحول کی پراسراریت نے میری دھڑکنیں تیز کر دیں

میں نے بڑھیا کو ایک بار پھر پکارا ،،
دور کسی کمرے سے اس نے جواب دیا ،،، شنکر ،،

میں آگے بڑھا اور اسے ایک دوسرے کمرے میں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا
وہ بستر پر دراز مرنے کے قریب ہو رہی تھی

اوہ گاڈ ،، کیا میں تمہیں اسپتال لے چلوں ؟

اس نے جواب میں کچھ کہا جسے میں نہیں سمجھ سکا ،،ہم دونوں کی زبانیں مختلف تھیں ،،

میں نے کچن میں جا کر اس کیلئے کافی تیار کی اور باہر سے اسپرین کی چند ٹکیاں لے آیا

کافی پینے سے اس کی طبیعت کچھ بحال ہوئی ، تب اس مجبوری کے پیش نظر کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھتے اس نے سادہ کاغذ پر کچھ باتیں مجھے لکھ کر دیں ،،

میں اپنے فلیٹ میں واپس آیا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا ،،
میں نے اس کی تحریر کو اسکین کرنے کے بعد گوگل ٹرانسلیٹ سے ترجمہ کیا ،، اس نے لکھا تھا

شنکر ،، تم نے اسے دیکھا ،،،؟ وہ کیسی ہے ؟ ،،،، اچھی ہے نا ،،،،؟
کیا تم آج بھی اس کیلئے دیوانے ہو ؟ میں اسے تمہارے لیے واپس لے آؤں گی چاہے اس عمل سے میری جان چلی جائے ،،،
تم مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے کیونکہ میں تم سے لڑتی بہت تھی مجھے شکوہ تھا کہ تم پہلے کی طرح کیوں نہیں چاہتے ،تمہاری دیوانگی دوسری جوان لڑکیوں کے لیے مخصوص ہو گئی تھی ،،
میں ہی پاگل تھی ، مجھے سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ ایک فطری بات ہے ،،چالیس برس کی عمر میں میرا وہ جسم نہیں رہا تھا جس پر تم فریفتہ تھے ، تمہاری توجہ کا ہٹ جانا قدرتی امر تھا جسے میں سمجھنے سے قاصر تھی ،،
تم مجھ سے علیحدہ ہو کر روس چلے گئے اور ایک دن ایکسیڈنٹ میں تمہاری موت کی خبر ملی ،،یقین نہیں آتا تھا کہ تم مر چکے ہو ،،لیکن جلد ہی تمہارا دوسرا جنم ہوا

تب میں نے ماورائی علوم کی دنیا میں قدم رکھا اور انہیں سیکھنے کیلئے رات رات بھر ریاضت کی ،،
اب تم پچیس برس کے ہو چکے ہو اور میں نوے برس کی ،،لیکن جلد ہی میں اپنا جوان جسم واپس بلانے والی ہوں ،، میں گزرے ہوئے وقت کو واپس کھینچ لوں گی شنکر ،،بالکل ایسے ہی جیسے تمہیں روس سے واپس لے آئی ہوں ،،،

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرا دماغ بھک سے اڑ گیا ، تو گویا میں چیخوف نہیں شنکر ہوں جبھی انڈیا آکر مجھے اجنبیت کا احساس نہیں ہو رہا تھا اور جب میں نے اس سولہ سالہ لڑکی کو بالکونی میں دیکھا تو یہی لگا جیسے میں اس کے ساتھ رہ چکا ہوں ،،
میں نے اٹھ کر فریج سے ٹھنڈا پانی پیا ،، چند سوالات ٹائپ کر کے انہیں ہندی میں ترجمہ کیا اور پرنٹ آؤٹ کر کے اٹھ کھڑا ہوا ،،

بازار سے دودھ ، جوس کے ڈبے اور توانائی بحال کرنے والے چند سیرپ خریدے اور انہیں لے کر بڑھیا کے فلیٹ کی طرف بڑھا

رہ رہ کر مجھے یہ برا خیال آ رہا تھا کہ بڑھیا جس نے اپنا نام آرتی لکھا تھا چند سانسوں کی مہمان ہے ، وہ مرنے والی ہے ، وہ مر جائے گی ،،

دروازہ کھلا پا کر میں بے روک ٹوک اندر داخل ہوا ،، اسے آواز دی ،،،،، آرتی ،،

جواب نہ پا کر میرے گھبرائے ہوئے قدم تیزی سے اس کمرے کی طرف بڑھے جس میں وہ لیٹی ہوئی تھی ،،
بستر خالی تھا
اس کا نام چیخ بن کر میرے منہ سے نکلا ،،، آرتی ،، تم کہاں ہو ؟

میں دیوانہ وار ایک تیسرے کمرے کی طرف بڑھا

دروازہ کھولتے ہی کمرے کے مناظر میری روح کو چھلنی کرنے کیلئے آگے بڑھے اور اس میں کامیاب ہو گئے ،،

وہ عجیب سی شکل والے ایک بت کے سامنے مردہ حالت میں پڑی تھی ،، اس کے چہرے پر اذیت کے آثار تھے
کلائی کی نسیں کٹی ہوئی تھیں ، اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کسی عمل کے دوران وہ اپنے خون کے چھینٹے اس بت پر پھینکتی رہی ہے ،،
کمرے کی دیواروں پر ڈراؤنی شبیہیں آویزاں تھیں ،، ایک میز پر پر اسرار علوم کی کتابیں پڑی تھیں ،،
سامنے ایک بڑا سا وال کلاک تھا جس کی ساکت سوئیاں اس عورت کی جرات پر انگشت بدنداں تھیں جس نے بیتے ہوئے وقت کو واپس کھینچنا چاہا تھا ،،

(ماخوذ)
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: رائگانی ،،،،،،،

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب

شیئرنگ کے لیئے شکریہ
[center]Image[/center]
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: رائگانی ،،،،،،،

Post by اضواء »

بہترین تحریر پئیش کرنے پر آپ کا شکریہ ;fl;ow;er;
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: رائگانی ،،،،،،،

Post by چاند بابو »

واہ کہانی اچھی ہے مگر ہندی سے ماخذ ہے اور ہمارے نظریات سے بالکل ہٹ کر ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”