تخت کے پائے دماغوں میں گڑے ہیں آج بھی
لوگ درباروں میں صف بستہ کھڑے ہیں آج بھی
وارثانِ تاج اپنی باریوں کے منتظر
ہیں مصاحب حاشیہ برداریوں کے منتظر
دل لبھاتے شاہ کا وہ مسخرے دربار کے
آج بھی خواجہ سرا کچھ خاص ہیں سرکار کے
سچ ہے، جس نے بھی کہا ہے
بادشاہ مرتا نہیں
خندہ زن ہیں پستیءِ جمہور پہ محلوں کے بام
شان دکھلاتے ہیں آقا، سر جھکائے ہیں غلام
ہے وہی حفظِ مراتب، امتیازِ خاص وعام
واہ ری جمہوریت! اب تک رعایا ہیں عوام
سچ ہے، جس نے بھی کہا ہے
بادشاہ مرتا نہیں
بادشاہت ہے دلوں کے شہر میں مسند نشیں
سر کو خم رکھنے کی عادت ہے دلوں میں جاگزیں
ڈھونڈ ہی لیتی ہے جھک جانے کو پائے شہ، جبیں
سچ ہے، جس نے بھی کہا ہے
بادشاہ مرتا نہیں
بادشاہ مرتا نہیں
محمد عثمان جامعی
بادشاہ مرتا نہیں
Re: بادشاہ مرتا نہیں
واہ کیا بات
اور یہ محمد عثمان جامعی صاحب کون سے شاعر ہیںکبھی تعارف نہیں ملا ان کا
اور یہ محمد عثمان جامعی صاحب کون سے شاعر ہیںکبھی تعارف نہیں ملا ان کا
Re: بادشاہ مرتا نہیں
پسند کرنے کا شکریہ شازل بھائیشازل wrote:واہ کیا بات
اور یہ محمد عثمان جامعی صاحب کون سے شاعر ہیںکبھی تعارف نہیں ملا ان کا
ایسے بہت سے شاعر ہیں جن کا تعارف بہت کم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔