[center]غزل
شاخِ دل پر آس کے پنچھی آ بیٹھے ہیں
کم ہیں لیکن پھر بھی کافی آ بیٹھے ہیں
عشق شجر کی سرشاری ہے دیکھنے والی
سائے میں دو سچے پریمی آ بیٹھے ہیں
تو چاہے تو بوجھ ہمارا کم ہو جائے
سر پہ اٹھائے غموں کی گٹھڑی آ بیٹھے ہیں
اب کی بار عدو نے الٹی چال چلی ہے
میری راہ میں میرے بھائی آ بیٹھے ہیں
جیسے ان سے کوئی خطا سرزد نہ ہوئی ہو
شکل بنائے بچوں جیسی آ بیٹھے ہیں
شاید اب کے سلوک روا ہو اپنوں جیسا
بھول کے ہم ماضی کی تلخی آ بیٹھے ہیں
اب موضوع فصیح بدلنا بہتر ہو گا
محفل میں کچھ ان کے بھیدی آ بیٹھے ہیں
شاہین فصیح ربانی[/center]
غزل - شاخِ دل پر آس کے پنچھی آ بیٹھے ہیں
-
- کارکن
- Posts: 13
- Joined: Sun Feb 03, 2013 9:51 pm
- جنس:: مرد
-
- ٹیم ممبر
- Posts: 40424
- Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
- جنس:: عورت
- Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه
Re: غزل - شاخِ دل پر آس کے پنچھی آ بیٹھے ہیں
بہت ہی خوب شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]