ناصر کاظمی کی شاعری

اپنی منتخب شاعری اس جگہ پر شئیر کیجئے
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لِکھا تھا

میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا

میں وہ اسمِ عظیم ہُوں جس کو
جِنّ و مَلک نے سجدہ کیا تھا

تُونے کیوں مِرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا

جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا

تُجھ بِن ساری عُمر گزاری
لوگ کہیں گے تُو میرا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

تُو جب میرے گھر آیا تھا
میں اِک سپنا دیکھ رہا تھا

تیرے بالوں کی خوشبوں سے
سارا آنگن مہک رہا تھا

چاند کی دھیمی دھیمی ضَو میں
سانولا مکھڑا لَو دیتا تھا

تیری نیند بھی اُڑی اُڑی تھی
میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا

میرے ہاتھ بھی سُلگ رہے تھے
تیرا ماتھا بھی جلتا تھا

دو رُوحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رہا تھا

دو یادوں کا چڑھتا دریا
ایک ہی ساگر میں گرتا تھا

دل کی کہانی کہتے کہتے
رات کا آنچل بھیگ چلا تھا

رات گئے سویا تھا لیکن
تُجھ سے پہلے جاگ اُٹھا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

میں جب تیرے گھر پہنچا تھا
تُو کہیں باہر گیا ہُوا تھا

تیرے گھر کے دروازے پر
سُورج ننگے پاؤں کھڑا تھا

دیواروں سے آنچ آتی تھی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا

تیرے آنگن کے پچھواڑے
سبز درختوں کا رمنا تھا

ایک طرف کچھ کچّے گھر تھے
ایک طرف نالہ چلتا تھا

اِک بُھولے ہوئے دیس کا سپنا
آنکھوں میں گُھلتا جاتا تھا

آنگن کی دیوار کا سایہ
چادر بن کر پھیل گیا تھا

تیری آہٹ سُنتے ہی میں
کچّی نیند سے چونک اُٹھا تھا

کِتنی پیار بھری نرمی سے
تُونے دروازہ کھولا تھا

میں اور تُو جب گھر سے چلے تھے
موسم کِتنا بدل گیا تھا

لال کھجوروں کی چھتری پر
سبز کبوتر بول رہا تھا

دُور کسی پیڑ کا جلتا سایہ
ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اُڑا جاتا تھا

اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا

تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ہوا تھا

تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا

کھڑکی کے دھندلے شیشے پر
دو چہروں کا عکس جما تھا

جگمگ جگمگ کنکریوں کا
دشتِ فلک میں جال بچھا تھا

تیرے شانے پر سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا

یُوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

دن کا پُھول ابھی جاگا تھا
دُھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا

سُرخ چناروں کے جنگل میں
پتّھر کا اِک شہر بسا تھا

پیلے پتھریلے ہاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا

ٹھنڈی دُھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا

دُھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چُوما تھا

تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا

تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا

تیری ہلال سی اُنگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا

آنکھوں میں تری شکل چُھپائے
میں سب سے چُھپتا پھرتا تھا

بُھولی نہیں اُس رات کی دہشت
چرخ پہ جب تارا ٹوٹا تھا


رات گئے سونے سے پہلے
تُونے مُجھ سے کچھ پُوچھا تھا

یُوں گزری وہ رات بھی جیسے
سینے میں سپنا دیکھا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

پتّھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پیڑ بھی پتّھر، پُھول بھی پتّھر
پتّا پتّا پتّھر کا تھا

چاند بھی پتّھر، جھیل بھی پتّھر
پانی بھی پتّھر لگتا تھا

لوگ بھی سارے پتّھر کے تھے
رنگ بھی اُن کا پتّھر سا تھا

پتّھر کا اک سانپ سنہرا
کالے پتّھر سے لپٹا تھا

پتّھر کی اندھی گلیوں میں
میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا

گونگی وادی گُونج اُٹھتی تھی
جب کوئی پتّھر گِرتا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

پچھلے پہر کا سنّاٹا تھا
تارا تارا جاگ رہا تھا

پتّھر کی دیوار سے لگ کر
آئینہ تجھے دیکھ رہا تھا

بالوں میں تھی رات کی رانی
ماتھے پر دن کا راجا تھا

اک رُخسار پہ زلف گری تھی
اک رُخسار پہ چاند کِھلا تھا

ٹھوڑی کے جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا

چندر کرن سی اُنگلی اُنگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا

اِک پاؤں میں پُھول سی جُوتی
اِک پاؤں سارا ننگا تھا

تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا

تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہاتھا

کالے پتّھر کی سیڑھی پر
نرگس کا اک پھول کِھلا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

گرد نے خیمہ تان لیا تھا
دُھوپ کا شیشہ دُھندلا سا تھا

نکہت و نُور کو رخصت کرنے
بادل دُور تلک آیا تھا

گئے دِنوں کی خوشبو پا کر
میں دوبارہ جی اُٹھا تھا

سوتی جاگتی گُڑیا بن کر
تیرا عکس مجھے تکتا تھا

وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر
ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا

جنگل، دریا، کھیت کے ٹکڑے
یاد نہیں اب آگے کیا تھا

نیل گگن سے ایک پرندہ
پیلی دھرتی پر اُترا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

مُجھ کو اور کہیں جانا تھا
بس یونہی رستہ بُھول گیا تھا

دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا

کیسی اندھیری شام تھی اُس دن
بادل بھی گِھر کر چھایا تھا

رات کی طُوفانی بارش میں
تُو مُجھ سے ملنے آیا تھا

ماتھے پر بُوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا

چاندی کا اک پُھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکڑا تھا

بھیگے کپڑے کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا

سبز پہاڑی کے دامن میں
اُس دن کتنا ہنگامہ تھا

بارش کی تِرچھی گلیوں میں
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا


بھیگی بھیگی خاموشی میں
میں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا

ایک طویل سفر کا جھونکا
مُجھ کو دُور لیے جاتا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

تُجھ بِن گھر کِتنا سُونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا

بُھولی نہیں وہ شامِ جُدائی
میں اُس روز بہت رویا تھا

تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تُجھ کو روک رہا تھا

میری آنکھیں بھی روتی تھیں
شام کا تارا بھی روتا تھا

گلیاں شام سے بُجھی بُجھی تھیں
چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا

سنّاٹے میں جیسے کوئی
دُور سے آوازیں دیتا تھا

یادوں کی سیڑھی سے ناصر
رات اک سایا سا اُترا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

دُھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

مَیں اِس جانب تُو اُس جانب
بیچ میں پتّھر کا دریا تھا

ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی
اک ٹہنی پر دِیا جلا تھا

دیکھ کے دو چلتے سایوں کو
میں تو اچانک سہم گیا تھا

ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب
ایک کا پُورا ہاتھ کٹا تھا

ایک کے اُلٹے پیر تھے لیکن
وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا

اُن سے اُلجھ کر بھی کیا لیتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

چاند ابھی تھک کر سویا تھا
تاروں کا جنگل جلتا تھا

پیاسی کُونجوں کے جنگل میں
میں پانی پینے اُترا تھا

ہاتھ ابھی تک کانپ رہے ہیں
وہ پانی کتنا ٹھنڈا تھا

آنکھیں اب تک جھانک رہی ہیں
وہ پانی کِتنا گہرا تھا

جِسم ابھی تک ٹوٹ رہا ہے
وہ پانی تھا یا لوہا تھا

گہری گہری تیز آنکھوں سے
وہی پانی مجھے دیکھ رہا تھا

کِتنا چُپ چُپ ، کِتنا گُم سُم
وہ پانی باتیں کرتا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

نئے دیس کا رنگ نیا تھا
دھرتی سے آکاش مِلا تھا

دُور کے دریاؤں کا سونا
ہرے سمندر میں گِرتا تھا

چلتی ندیاں ، گارے نوکے
نوکوں میں اِک شہر بسا تھا

نوکے ہی میں رَین بسیرا
نوکے ہی میں دن کٹتا تھا

نوکا ہی بچوں کا جُھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا

مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
نوکا لہروں میں اُلجھا تھا

ہنستا پانی، روتا پانی
مُجھ کو آوازیں دیتا تھا

تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کِیا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
میں اک بستی میں اُترا تھا

سُرمانسی کے گھاٹ پہ اُس دن
جاڑے کا پہلا میلا تھا

بارہ سکھیوں کا اک جُھرمت
سیج پہ چکّر کاٹ رہا تھا

نئی نکور کنواری کلیاں
کورا بدن کورا چولا تھا

دیکھ کے جوبن کی پُھلواری
چاند گگن پر شرماتا تھا

پیٹ کی ہری بھری کیاری میں
سُرخ مُکھی کا پھول کِھلا تھا

ماتھے پر سونے کا جھومر
چنگاری کی طرح اُڑتا تھا

بالی رادھا، بالا موہن
ایسا ناچ کہاں دیکھا تھا

کچھ یادیں، کچھ خوشبو لے کر
میں اُس بستی سے نکلا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا

ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا

چاند کے دل میں جلتا سُورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا

کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا

دل کی صورت کا اک پتّا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

شام تو جیسے خواب میں گزری
آدھی رات نشہ ٹُوٹا تھا

شہر سے دُور ہرے جنگل میں
بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا

صبح ہوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا مُنہ دیکھا تھا

دیر کے بعد مرے آنگن میں
سُرخ انار کا پُھول کِھلا تھا

دیر کے مُرجھائے پیڑوں کو
خوشبو نے آباد کِیا تھا

شام کی گہری اُونچائی سے
ہم نے دریا کو دیکھا تھا

یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنہیں کب کا بُھول چکا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بُجھا جاتا تھا

تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سُونا تھا

میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا

ریل چلی تو ایک مُسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا

سچ مُچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا

چاندی کا وہی پُھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کِھلا تھا

جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تہنا تنہا تھا

کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جُدائی کا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

میں اِس شہر میں کیوں آیا تھا
میرا کون یہاں رہتا تھا

گونگے ٹیلو, کچھ تو بولو
کون اِس نگری کا راجا تھا

کِن لوگوں کے ہیں یہ ڈھانچے
کِن ماؤں نے اِن کو جَنا تھا

کِس دیوی کی ہے یہ مَورت
کون یہاں پُوجا کرتا تھا

کِس دُنیا کی کَوِیتا ہے یہ
کِن ہاتھوں نے اِسے لکھا تھا

کس گوری کے ہیں یہ کنگن
یہ کنٹھا کس نے پنہا تھا

کِن وقتوں کے ہیں یہ کھلونے
کون یہاں کھیلا کرتا تھا

بول مری مٹّی کی چڑیا
تُونے مجھ کو یاد کیا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

پل پل کانٹا سا چُبھتا تھا
یہ مِلنا بھی کیا مِلنا تھا

یہ کانٹے اور تیرا دامن
میں اپنا دُکھ بُھول گیا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا

تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

کسی پُرانے وہم نے شاید
تجھ کو پھر بےچین کِیا تھا

میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہُوا تھا

اِک اُجڑے سے اسٹیشن پر
تُو نے مُجھ کو چھوڑ دیا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
بوبی
دوست
Posts: 235
Joined: Sat Aug 15, 2009 2:13 am

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by بوبی »

روتے روتے کون ہنسا تھا
بارش میں سُورج نکلا تھا

چلتے ہوئے آندھی آئی تھی
رستے میں بادل برسا تھا

ہم جب قصبے میں اُترے تھے
سُورج کب کا ڈوب چکا تھا

کبھی کبھی بجلی ہنستی تھی
کہیں کہیں چھینٹا پڑتا تھا

تیرے ساتھ ترے ہمراہی
میرے ساتھ مرا رستہ تھا

رنج تو ہے لیکن یہ خوشی ہے
اب کے سفر ترے ساتھ کِیا تھا
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: ناصر کاظمی کی شاعری

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب !
اچھی شاعری شیئر کرنے شکریہ بوبی بھائی۔
Post Reply

Return to “اردو شاعری”