لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

تارہ ترین اور اہم خبریں، ہر دم رہیئے باخبر
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by چاند بابو »

[center]Image

Image[/center]

لاہور میں ایک غیر ملکی شخص کی فائرنگ اور اس کی گاڑی کی ٹکر سے تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق لاہور کے پر ہجوم علاقے مزنگ چنگی میں ایک غیر ملکی شخص نے موٹرسائیکل پر سوار دو افراد پر فائرنگ کردی اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں کئی افراد کو ٹکرماری،جس سے ایک اور موٹرسائیکل سوار شدید زخمی ہوگیا۔ زخمیوں کو سروسز اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں تینوں زخمی دم توڑگئے۔ فائرنگ کے بعد ملزم نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم کچھ دور جاکر ٹریفک میں پھنس گیا جہاں سے پولیس نے لوگوں کی مدد سے اسے حراست میں لے لیا۔ ملزم کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ ڈیوڈ نام کا یہ شخص امریکی شہری ہے اور امریکی قونصلیٹ میں ملازم ہے۔ایس پی آپریشن عمرسعید کے مطابق امریکی شہری پرمسلح افرادنے حملہ کیا،جس پر اس نے مزاحمت کرتے ہوئے ان پر فائرنگ کی،پولیس کے مطابق فائرنگ سے مرنیوالے دونوں افرادمبینہ ڈاکو تھے،مرنیوالے دونوں افرادسے پستول بھی برآمدہوئے ہیں۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ غیرملکی شہری ڈیوڈاردوبولتاہے،اس کاکہناتھاکہ یہ لوگ اسے لوٹناچاہتے تھے، اس نے فائرنگ کے بعد زخمی ہونے والوں دونوں موٹرسائیکل سواروں کی تصویریں بنائیں، انہوں نے بتایا کہ فائرنگ سے زخمی ہونیوالے شخص کے ہاتھ میں پستول تھا۔ ملزم کا کہنا ہے کہ دوموٹرسائیکل سواروں نے گاڑی روکی،دفاع میں فائرنگ کی، اس اپنی جان بچانے کیلئے فائرنگ کی تھی۔ملزم سے اسلحہ اور دیگر سامان برآمد کرلیا گیا ہے۔واقعے کے بعد لوگوں میں شدید اشتعال پھیل گیا اور وہ پرانی انارکلی تھانے کے باہر جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی ،ان کا مطالبہ تھا کہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے، پولیس نے خطرے کے پیش نظر ملزم کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔پولیس حکام کے مطابق ملزم کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درجہ کرلیا گیا ہے ، جبکہ انفارمیشن افسرامریکی قونصلیٹ نے واقعے پر تبصرے سے انکار کردیاہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
عتیق
مشاق
مشاق
Posts: 3184
Joined: Sun Jul 18, 2010 6:52 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by عتیق »

[center]امریکہ کی ناک جو کٹ رہی ہے وہ کوئی تبصرہ کرے گا اب تو امید ہے کہ مسٹر ملک صاحب (وزیرداخلہ) اضہار افسوس کرینگے کہ یہ امریکہ کیوں نکلا[/center]
[center]لاعزۃ الابالجھاد[/center]
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by افتخار »

میرے خیال میں کچھ بھی نیہں ہوگا۔ جو مر گئے وہی قصوروار ہو نگے کیونکہ مارنے والا امریکی ھے
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by بلال احمد »

خبر شیئر کرنے کے لئے شکریہ.




مسٹر فواد.

اب ادھر آئو اور کہو کہ امریکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے یہ کر رہا ہے اور وہ کر رہا ہے. یہ سب کچھ کہنے کی باتیں ہیں ایسا سب کچھ کہہ دینے سے کچھ نہیں‌ہوتا اگر ہوتا تو عمل سے ہوتا ہے. یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی بے غیرت گورنمنٹ کے سامنے ڈالروں کی ہڈیاں پھینک ڈالتی ہے اور پھر یہ بے غیرت گورنمنٹ اسے چاٹنا شروع کر دیتی ہے اور امریکہ کے ہرکام کو اچھا کہنا شروع کر دیتی ہے اور ہر عمل کو صحیح گرداننا شروع کر دیتی ہے.


بہت سی جگہوں پر تم نے بہت کچھ لکھا.

کیا یہ بتانا پسند کرو گے یہ ڈرون حملے کیوں ہو رہے ہیں؟

کیا پاکستانی حکومت اس کے خلاف بیان نہیں دیتی؟

کیا امریکہ کے کہنے کے خلاف ہی ڈرون حملے ہورہے ہیں؟

کیا ان حملوں میں بے گناہ شہری ہلاک نہیں ہو رہے؟

کیا اب تک ان واقعات کی تحقیق مکمل نہیں‌ ہوئی کہ جن علاقوں میں ڈرون حملے ہوئے ہیں ادھر کتنے بے گناہ شہری ہلاک ہوئے اور کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تمہیں تو بس اپنی تنخواہ سے غرض ہے. تم کیا جانو کہ خاندان کا ایک فرد بھی جب ایسی صورتحال سے ہلاک ہو جاتا ہے تو خاندان بکھر جاتا ہے. ان کے بچوں‌ پر کیا گزرتی ہے.

کیا جواب ہیں تمہارے پاس؟

اور ہاں اگر جواب دینے ہی لگو تو یہ دھیان میں‌رکھنا کہ جو پوچھا ہے اس کا جواب چاہیے نہ کہ بات کو تم تیسری طرف موڑ کر لے جانا. بات کچھ ہوتی ہے اور تمہارا جواب کچھ اور
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by بلال احمد »

اطلاعات کے مطابق ان لوگوں کا بھائی کچھ دن پہلے قتل ہوا تھا تو جان کے خطرے کے پیش نظر ان کے پاس اسلحہ تھا.
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by چاند بابو »

شاید ایسا ہی ہو کیونکہ اب آنے والی خبروں کے مطابق صورتحال کچھ یوں‌ہے کہ اس نے ان پر فائرنگ کی،
ان میں سے ایک زندہ تھا اس نے گاڑی سے اتر کر اس پر پھر فائرنگ کی اور اس کے مرنے کا یقین ہونے کے بعد ان کی اپنے کیمرے سے ویڈیو بنائی،
پھر فرار ہوا، دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
دوسری طرف امریکہ نے اپنے سفارت کار کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے جنیوا کنونشن قرارداد کے تحت اس کی واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by علی عامر »

تیونس اور پھر مصر میں حکومت کا تختہ عوام نے الٹ دیا ہے ... اور جلد پاکستان میں بھی ایسا ہونے والا ہے .. مخلوق خدا کو کب تک امریکی کتے ستاتے رہیں گے..... !!
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by یاسر عمران مرزا »

اس امریکی کتے کو قانون کے مطابق یہیں پر سزا ملنی چاہیے.
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by چاند بابو »

اگر ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ سے باہر کسی کی جان لینے کی کوشش پر اس جرم پر جو اس نے امریکہ میں کیا ہی نہیں اتنے برس قید ہو سکتی ہے،
تو اسے جو تہرے قتل کا مجرم ہے ان نے پاکستان میں جرم بھی کیا ہے تو اسے اس کے کیئے کی سزا بھی یہاں ہی ملنی چاہئے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by یاسر عمران مرزا »

ایک بلاگر نے لکھا ہے...

عافیہ دے جاؤ اور ڈیوڈ لے جاؤ...............
فواد
کارکن
کارکن
Posts: 83
Joined: Tue Dec 21, 2010 7:30 pm
جنس:: مرد

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by فواد »

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

لاہور ميں امريکی قونصل خانے کا ملازم يقينی طور پر ايک ايسے حادثے ميں ملوث ہوا ہے جس ميں افسوس ناک طريقے سے انسانی جانوں کا ضياع ہوا۔ امريکی سفارت خانہ پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ مل کر حقائق کو جانچنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ اس مسلۓ کو حل کيا جا سکے۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کو متعين سفارت کار کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔

جنوری 27 کو سفارت کار نے اپنے دفاع ميں اس وقت کاروائ کی جب موٹر سائيکل پر سوار دو مسلح افراد نے ان کا راستہ روکا۔ سفارت کار کے پاس اس بات کا مکمل جواز موجود تھا کہ وہ افراد ان کو جسمانی نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ اس واقعے سے محض چند منٹ قبل انھی افراد نے جو کہ ايک مجرمانہ پس منظر رکھتے تھے، اسی علاقے ميں ايک پاکستانی شہری کو بھی لوٹا تھا۔

گرفتاری کے بعد امريکی سفارت کار نے پوليس کے سامنے يہ واضح کيا کہ وہ سفارت کار ہيں اور متعدد بار سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا کنويشن کے تحت استثنی کا مطالبہ کيا۔ مقامی پوليس اور سينير حکام نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہيں کی اور نہ ہی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے اور نہ ہی لاہور ميں امريکی قونصل خانے سے ان کی حيثيت کے حوالے سے معلومات حاصل کيں۔

اس کے علاوہ سفارت کار کو باقاعدہ گرفتار کيا گيا اور ان کا ريمانڈ بھی ليا گيا جو کہ عالمی ضوابط اور ويانا کنوينشن کی خلاف ورزی ہے، جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہيں۔

ہميں اس بات پر افسوس ہے کہ اس واقعے کے نتيجے ميں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔

ہم امريکہ اور پاکستان کے مابين شراکت اور تعاون کو بہت اہميت ديتے ہیں جو دونوں ممالک کے مفادات کے ليے ضروری ہے۔ امريکی سفارت خانہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر سفارت کار کی فوری رہائ کو يقينی بنانے کے ليے کوششيں کر رہا ہے جو پاکستانی اور عالمی قوانين کے تحت ضروری ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by چاند بابو »

فواد wrote:لاہور ميں امريکی قونصل خانے کا ملازم يقينی طور پر ايک ايسے حادثے ميں ملوث ہوا ہے جس ميں افسوس ناک طريقے سے انسانی جانوں کا ضياع ہوا۔ امريکی سفارت خانہ پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ مل کر حقائق کو جانچنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ اس مسلۓ کو حل کيا جا سکے۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کو متعين سفارت کار کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔

جنوری 27 کو سفارت کار نے اپنے دفاع ميں اس وقت کاروائ کی جب موٹر سائيکل پر سوار دو مسلح افراد نے ان کا راستہ روکا۔ سفارت کار کے پاس اس بات کا مکمل جواز موجود تھا کہ وہ افراد ان کو جسمانی نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ اس واقعے سے محض چند منٹ قبل انھی افراد نے جو کہ ايک مجرمانہ پس منظر رکھتے تھے، اسی علاقے ميں ايک پاکستانی شہری کو بھی لوٹا تھا۔

گرفتاری کے بعد امريکی سفارت کار نے پوليس کے سامنے يہ واضح کيا کہ وہ سفارت کار ہيں اور متعدد بار سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا کنويشن کے تحت استثنی کا مطالبہ کيا۔ مقامی پوليس اور سينير حکام نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہيں کی اور نہ ہی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے اور نہ ہی لاہور ميں امريکی قونصل خانے سے ان کی حيثيت کے حوالے سے معلومات حاصل کيں۔

اس کے علاوہ سفارت کار کو باقاعدہ گرفتار کيا گيا اور ان کا ريمانڈ بھی ليا گيا جو کہ عالمی ضوابط اور ويانا کنوينشن کی خلاف ورزی ہے، جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہيں۔

ہميں اس بات پر افسوس ہے کہ اس واقعے کے نتيجے ميں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔

ہم امريکہ اور پاکستان کے مابين شراکت اور تعاون کو بہت اہميت ديتے ہیں جو دونوں ممالک کے مفادات کے ليے ضروری ہے۔ امريکی سفارت خانہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر سفارت کار کی فوری رہائ کو يقينی بنانے کے ليے کوششيں کر رہا ہے جو پاکستانی اور عالمی قوانين کے تحت ضروری ہے۔
آیئے آیئے ہمیں آپ ہی کی بکواس کا انتظار تھا شاید،
سب سے پہلی بات تو یہ سن لیجئے کہ یہ ایک حادثہ نہیں بلکہ سوچا سمجھا قتل ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولین کو پیچھے سے گولیاں ماری گئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کم ازکم ان کا رخ ریمنڈ ڈیوس کی طرف نہیں تھا، انہیں پیچھے سے نشانہ بنایا گیا اگر تمہاری بات کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ وہ اس پر حملہ آور ہوئے تھے تو بھی ان کا رخ تو کم ازکم اس کی طرف ہونا چاہئے تھا۔
دوسری بات یہ کہ جہاں سے واقعہ ہوا ہے وہ لاہور کے مصروف ترین چوک میں سے ایک ہے وہاں یوں کسی کو لوٹنا یا اغوا کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔
اور یہ جو سٹوری ہے نا کہ انہوں نے اس سے کچھ دیر قبل کچھ اور افراد کو بھی لوٹا تھا وہ بھی من گھڑت سٹوری ہے جس کی نا تو کہیں ایف آئی آر کٹی اور نا ہی کوئی فرد سامنے آیا جو یہ کہے کہ یہی دو افراد تھے جنہوں نے ڈکیتی کی کوئی واردات کی تھی۔
اور اگر یہ سب ایک حقیقت بھی ہے تو وہ تیسرا بدنصیب جسے اس نے اپنی گاڑی تلے کچل کر ہلاک کر دیا اس کا کیا قصور تھا، کیا پاکستانیوں کا خون اتنا ارزاں ہے کہ تمہارا کوئی بھی کتا یہاں دن دھاڑے اسے ہلاک کر دے اور ویانا کنونشن کے تحت استشنٰی حاصل کر لے۔
نہیں ایسا نہیں ہے سفارت کاروں کو یوں سرِعام ایسا اسلحہ لے کر گھومنے کی اجازت نہیں ہے جو کا کوئی لائسنس یا پرمٹ نا ہو،
سفارت کاروں کو شہریوں کو مارنے کی اجازت یہ ویانا کنونشن نہیں دیتا ہے، اور نا ہی انہیں اپنی گاڑیوں تلے کچلنے کا اختیار دیتا ہے،
اور یہ تم کون ہوتے ہو کہ پولیس افسران نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے، انہوں نے ذمہ داری ہی تو پوری کی جو اس خونخوار کتے کو پابندِ سلاسل کیا،
اور امریکی حکومت کے شیرخوار کتے ہم جانتے ہیں تمہیں یا تمہاری حکومت کو کتنا افسوس ہے اس واقعے پر اور کتنا نہیں،
اور تم یہ جو کوششیں کر رہے ہو اپنے آدمی کی رہائی کے لئے وہ پاکستانی قوانین کے تحت ضروری نہیں ہیں بلکہ تم اپنے مذموم عزائم دنیا کے سامنے نا آجائیں اس بات سے ڈرتے ہو، تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ کہیں پاکستانی پولیس کی چھترول سے ڈر کر یہ گیدڑ اصل بات نا اگل دے۔

بڑی آسانی سے تم نے اس واقعے کو بین الاقوامی سفارتکاری سے جوڑنے کی ایک بھونڈی کوشش کی ہے۔سفارت کاری کے بھی اصول ہیں سفارت کاری سڑکوں پر بندے مارنے کا نام نہیں ہے،
کیا یہ ہیں تمہارے سفارتکاروں کے کرتوت۔

گزشتہ برس ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے دو سفارتکار اسلام آباد کے ایک ناکے پر پکڑے گئے۔ ان کے پاس ہینڈ گرنیڈز، جدید ترین رائفلیں اور اسلحہ کی ایک کھیپ تھی۔ تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر کے بجائے ایک عمومی نوعیت کی شکایت درج ہوئی۔امریکی سفارتخانے کے ایک ملازم سنی کرسٹوفر نے معاملے میں براہ راست مداخلت کی۔ خبروں سے اندازہ ہوا کہ شاید ایک بڑا اسکینڈل سامنے آنے کو ہے کہ ڈنمارک، امریکیوں کو ممنوعہ اسلحہ کی فراہمی کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن دو دنوں کے اندر اندر مطلع صاف ہوگیا۔ نہ کوئی مقدمہ درج ہوا، نہ تحقیق و تفتیش ہوئی نہ بات آگے بڑھی۔ کیونکہ یہاں ہمارے زرخرید حکمران اپنے آقا کو چھڑوانے پہنچ گئے۔

یہ جون 2009ء کا ذکر ہے۔ پشاور سے آنے والی ایک ڈبل کیبن گاڑی کو اسلام آباد کی گولڑہ چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ گاڑی رکنے کے بجائے تیزی سے کروٹ بدل کر آگے گزر گئی۔ پولیس نے اسے مشکوک خیال کرتے ہوئے اگلی چیک پوسٹ کو خبردار کردیا۔ جی نائن فور کے خیبر چوک پر گاڑی روک لی گئی۔ گاڑی سے تین امریکن برآمد ہوئے۔ انکے نام جیفری، جیفڈک اور جیمز بل بتائے گئے۔ بینڈک نامی ڈرائیور بھی امریکی تھا۔ ان سب نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور چہروں پر داڑھیاں تھیں۔ ان سے چار ایم ۔4 ، مشین گنیں اور چار نائن ایم ایم کے پسٹل برآمد ہوئے۔ فوراً پولیس کے حکام بالا اور سرکار کو آگاہ کیا گیا۔ چونکہ وہ امریکن تھے اس لئے فرمان جاری ہوا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کردو کیونکہ اگر ایسا نا ہوتا تو ڈالرز کی کھیپ رک جاتی۔ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ باز پرس کی نوبت آئی نہ یہ پتہ چل سکا کہ افغانوں جیسا حلیہ رکھنے والے یہ اسلحہ بردار امریکی کس مشن پر تھے۔

یہ 5اگست 2009ء کا ذکر ہے۔ اسلام آباد پولیس کا انسپکٹر حاکم خان، اپنی بیوی کے ہمراہ ، اپنی گاڑی میں سوار امریکی سفارت خانے کے قریب بنی چیک پوسٹ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ایک امریکی اہلکار جان آرسو نے گاڑی روک لی۔ وہ میاں بیوی کو بڑا بھلا کہنے اور گالیاں دینے لگا۔ پولیس انسپکٹر نے کہا…”آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ایک پبلک شاہراہ پر گاڑیاں روک کر چیک کرتے پھرو؟“ امریکی نے اپنی کمر سے پسٹل نکالا اور انسپکٹر پر تانتے ہوئے کہا ”میں کچھ بھی کرسکتا ہوں“۔ انسپکٹر حاکم خان نے واقعے کی باقاعدہ رپورٹ اپنے حکام بالا کو دی لیکن کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس کی گئی۔

اس واقعے کے صرف ایک ہفتہ بعد، 12اگست 2009ء کو سفارتی انکلیو میں رہنے والا ایک نوجوان، اپنے دو دوستوں کے ہمراہ سوزوکی گاڑی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے والی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک امریکی جوڑا واک کررہا تھا۔ امریکی جوڑے نے کار روک کر لڑکوں سے تلخ کلامی کی۔ اس کی گاڑی کا سائیڈ مرر توڑ دیا۔ انہیں گالیاں دیں۔ تینوں نوجوانوں نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ اس پر امریکیوں نے انہیں قریبی چیک پوسٹ پرموجود امریکی سیکورٹی گارڈز کے حوالے کردیا۔ وہ چالیس منٹ تک غیر قانونی حراست میں رکھے گئے۔ انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ کبھی اس سڑک پر گاڑی نہیں چلائیں گے۔ کوئی شکایت، کوئی ایف آئی آر نہ کٹی۔

اس واقعے کہ دو ہفتے بعد 26اگست 2009ء کو دو امریکیوں نے شیل پٹرول پمپ سپر مارکیٹ کے مالک محسن بخاری کی گاڑی روک لی۔ معاملہ شاید ڈرائیونگ میں کسی بے احتیاطی کا تھا۔ امریکیوں نے تلخ کلامی کی۔ محسن بخاری کو پکڑ کر اس کے پٹرول پمپ لے آئے۔امریکی سفارتخانے کا ایک سیکورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گیا۔ دیر تک خوف و ہراس کی کیفیت کے بعد محسن بخاری کی گلو خلاصی ہوئی۔ محسن پیپلزپارٹی کے سینیٹر نیر بخاری کا قریبی عزیز ہے لیکن معاملہ وہیں ٹھپ کردیا گیا۔

دو دن بعد 28اگست 2009ء کو کشمیر ہائی وے پر پشاور موڑ کے قریب اسلام آباد پولیس نے دو گاڑیوں کو روکا۔ ایک پراڈو تھی اور دوسری ڈبل کیبن۔ ان میں چار امریکن تشریف فرما تھے۔ چاروں کے پاس ایم۔4 رائفلیں تھیں اور ایمونیشن بھی۔ دونوں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس جعلی تھیں۔ چاروں نے بتایا کہ وہ امریکی فوجی ہیں۔ ان کے پاس اسلحے کا کوئی لائسنس تھا نہ سفارتخانے کا کوئی اجازت نامہ۔ ایک افغان باشندہ احمداللہ بھی ان کے ہمراہ تھا۔جس نے بتایا کہ وہ امریکی سفارت خانے میں قیام پذیر ہے۔ پولیس اہلکاروں نے اسلام آباد کے بڑوں کو اطلاع کی اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔

اور یہ جون 2010 ء کا ذکر ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا گیری بروکس فاکنر نامی ایک شخص چترال سے گرفتار ہوا۔ اس کی تلاشی لی گئی۔ ایک پسٹل، ایک خنجر، چالیس انچ لمبی تلوار اور اندھیرے میں دیکھنے والی خصوصی عینک برآمد ہوئی۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ برس کے دوران وہ سات بار پاکستان آچکا ہے۔ تمام حقائق اسلام آباد کے حاکموں کے علم میں لائے گئے۔ حکم صادر ہوا کہ شہنشاہ عالم پناہ کی بارگاہ اقدس سے تعلق رکھنے والے معزز مہمان کو عزت و احترام کے ساتھ امریکی سفارتخانے پہنچا دیا جائے۔

یہ اور اس طرح کے درجنوں دوسرے واقعات نے امریکیوں کے حوصلے بڑھا دیئے۔ جعلی پلیٹوں والی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جدید اسلحہ سمیت مٹر گشت کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اسلام آباد ان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ سیکڑوں مکانات اب ان کی تحویل میں ہیں اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرگزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کیا اسے سفارت کاری کہتے ہیں۔

ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی ہوئی کہ وہ لاہور میں پکڑا گیا۔ آن واحد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو خبر دی گئی۔ ہدایت دو ٹوک اور واضح تھی…”مجھے قاتل کے نام اور قومیت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے گرفتار کرو اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر قتل کا باضابطہ مقدمہ درج کرو۔ اسلام آباد یا کہیں سے بھی کوئی دباؤ آئے تو مجھے بتاؤ۔وزیراعلٰی کا فیصلہ عوام کا فیصلہ ہے اور عوام اپنے فیصلے کے سامنے دیوار بننے والی ہر اینٹ کو گرانا خوب جانتی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
فواد
کارکن
کارکن
Posts: 83
Joined: Tue Dec 21, 2010 7:30 pm
جنس:: مرد

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by فواد »

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس واقعے کے حوالے سے ايسی اخباری رپورٹوں کا حوالہ دينا ناانصافی ہے جو منتخب اور يک طرفہ بيانات اور غير تصديق شدہ حقائق پر مبنی ہيں۔

ميں نے کئ خبروں اور کالمز کے حوالے فورمزپر ديکھے ہیں جنھيں متعدد بار پوسٹ کيا گيا ہے۔ ليکن ميں آپ کی معلومات کے ليے يہ واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے نے اس واقعے کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بھی ديا ہے اور پاکستانی ميڈيا کے تمام اداروں کو باقاعدہ پريس ريليز کے ذريعے ان خبروں کے حوالے سے درست حقائق سے آگاہ بھی کيا ہے۔

بدقسمتی سے کچھ اخبارات اور ميڈيا کے مخصوص عناصر جو کسی بھی غير تحقيق شدہ بيان يا فوج کے کسی ريٹائرڈ افسر کے ذاتی حيثيت ميں کيے جانے والے تجزيے کی بنياد پر شہ سرخياں لگانے ميں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے، وہ نہ صرف امريکی بلکہ حکومت پاکستان کے بھی اہم سرکاری محکموں يا عہدیداروں کی جانب سے ديے جانے والے بيانات، وضاحت يا ريکارڈ شدہ حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہیں۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ عالمی قوانين کے تحت وزارت خارجہ امور پاکستان ميں امريکی سميت ديگر غير ملکی سفارت کاروں کی سلامتی کے حوالے سے مخصوص قواعد و ضوابط اور قوانين کی عمل داری کو يقينی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ امريکی سفير نے يقين دہانی کرائ ہے کہ امريکی سفارت کار اور ان کا عملہ حکومت پاکستان کے ضوابط کی پاسداری کريں گے، ليکن وزارت خارجہ امور اور حکومت پاکستان نے ابھی تک طے شدہ عالمی سفارتی طريقہ کار پر عمل نہيں کيا ہے۔

پاکستان ميں امريکی سفارتخانہ سفارتی استثنی اور لاہور میں زير حراست امريکی سفارتکار کے بارے میں مندرجہ ذيل حقائق فراہم کرنے کا خواہاں ہے
سفارتی تعلقات کے بارے ميں ويانا کنوينشن (1961) دنيا بھر ميں تمام سفارت کاروں کو سفارتی استثنی فراہم کرتا ہے۔

ويانا کنوينشن کا آرٹيکل 37 بالخصوص جرم ميں ملوث ہونے کی صورت ميں کسی سفارت خانہ کے "تکنيکی اور انتظامی عملہ" کو وہی سفارتی استثنی فراہم کرتا ہے جو سفارت کاروں کو حاصل ہوتا ہے۔

لاہور ميں زير حراست امريکی سفارت کار، امريکی سفارت خانہ کے تکنيکی اور انتظامی عملہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس وجہ سے جرم ميں ملوث ہونے کی صورت ميں مکمل سفارتی استثنی کا حقدار ہے اور اسے اس کنوينشن کی رو سے قانونی طور پر گرفتار يا زير حراست نہيں رکھا جا سکتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by چاند بابو »

فواد wrote:اس واقعے کے حوالے سے ايسی اخباری رپورٹوں کا حوالہ دينا ناانصافی ہے جو منتخب اور يک طرفہ بيانات اور غير تصديق شدہ حقائق پر مبنی ہيں۔

ميں نے کئ خبروں اور کالمز کے حوالے فورمزپر ديکھے ہیں جنھيں متعدد بار پوسٹ کيا گيا ہے۔ ليکن ميں آپ کی معلومات کے ليے يہ واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے نے اس واقعے کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بھی ديا ہے اور پاکستانی ميڈيا کے تمام اداروں کو باقاعدہ پريس ريليز کے ذريعے ان خبروں کے حوالے سے درست حقائق سے آگاہ بھی کيا ہے۔

بدقسمتی سے کچھ اخبارات اور ميڈيا کے مخصوص عناصر جو کسی بھی غير تحقيق شدہ بيان يا فوج کے کسی ريٹائرڈ افسر کے ذاتی حيثيت ميں کيے جانے والے تجزيے کی بنياد پر شہ سرخياں لگانے ميں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے، وہ نہ صرف امريکی بلکہ حکومت پاکستان کے بھی اہم سرکاری محکموں يا عہدیداروں کی جانب سے ديے جانے والے بيانات، وضاحت يا ريکارڈ شدہ حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہیں۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ عالمی قوانين کے تحت وزارت خارجہ امور پاکستان ميں امريکی سميت ديگر غير ملکی سفارت کاروں کی سلامتی کے حوالے سے مخصوص قواعد و ضوابط اور قوانين کی عمل داری کو يقينی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ امريکی سفير نے يقين دہانی کرائ ہے کہ امريکی سفارت کار اور ان کا عملہ حکومت پاکستان کے ضوابط کی پاسداری کريں گے، ليکن وزارت خارجہ امور اور حکومت پاکستان نے ابھی تک طے شدہ عالمی سفارتی طريقہ کار پر عمل نہيں کيا ہے۔

پاکستان ميں امريکی سفارتخانہ سفارتی استثنی اور لاہور میں زير حراست امريکی سفارتکار کے بارے میں مندرجہ ذيل حقائق فراہم کرنے کا خواہاں ہے
سفارتی تعلقات کے بارے ميں ويانا کنوينشن (1961) دنيا بھر ميں تمام سفارت کاروں کو سفارتی استثنی فراہم کرتا ہے۔

ويانا کنوينشن کا آرٹيکل 37 بالخصوص جرم ميں ملوث ہونے کی صورت ميں کسی سفارت خانہ کے "تکنيکی اور انتظامی عملہ" کو وہی سفارتی استثنی فراہم کرتا ہے جو سفارت کاروں کو حاصل ہوتا ہے۔

لاہور ميں زير حراست امريکی سفارت کار، امريکی سفارت خانہ کے تکنيکی اور انتظامی عملہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس وجہ سے جرم ميں ملوث ہونے کی صورت ميں مکمل سفارتی استثنی کا حقدار ہے اور اسے اس کنوينشن کی رو سے قانونی طور پر گرفتار يا زير حراست نہيں رکھا جا سکتا۔
جانتے ہو فواد مجھے تم سے کبھی کسی اچھی اور سچی بات کی توقع ہی نہیں رہی ہے،
تم ہمیشہ اپنے آقاؤں کے کہنے پر یہاں آتے ہو اور ان کی پڑھائی ہوئی بکواس یہاں کرتے ہو اور چلے جاتے ہو۔
مجھے امید تھی کہ تم اس بار بھی کچھ ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں لے کا آؤ گے اور تم آئے بھی، لیکن جتنی اوٹ پٹانگ میں سمجھ رہا تھا تم تو اس سے کہیں زیادہ بکواس کر گئے یہاں پر۔
تم تصدیق شدہ اور غیر تصدیق شدہ کہتے کسے ہو آخر،
کیا تصدیق شدہ وہ ہے جو تمہاری حکومت کہے اور غیر تصدیق شدہ ہر وہ بات جو تمہارے خلاف کی جائے،
کیا تصدیق کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ تین افراد ہلاک ہوئے ہیں، کیا ان کی لاشیں کافی ثبوت نہیں ہیں ثبوت کا،
اور تمہارے اس سؤر کا پہلا اعترافی بیان کافی نہیں ہے جو اس نے دیا،
کیا سینکڑوں گواہ کافی نہیں ہیں تصدیق کے لئے؟
کیا اس کی رنگے ہاتھوں گرفتاری کافی نہیں ہے؟
میرے خیال میں تم اب بھی کہو گے کہ کافی نہیں ہیں کیونکہ تم تو اپنے گھر سونے اس وقت جاتے ہو جب تمہارے حکامِ بالا اس بات کا حکم کرتے ہیں تم ہماری باتوں کی تصدیق کیوں کرو گے جب کہ تم جن کے نمک خوار کتے ہو انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک غیر تصدیق شدہ بات ہے،
ہمارے ریٹائرڈ ہوں یا حاضر سروس افسران، فوجی ہوں یا سول ان کا ہر بیان تمہیں ایک فضول بیان لگتا ہے اور تمہارا کہا تم سمجھتے ہو ہم فورا قبول کر لیں گے، نہیں ایسا نہیں ہے بکواس تو تم اور تمہارا میڈیا کرتا ہے ۔

بات آتی ہے سفارتکاروں کو تحفظ دینے والے آرٹیکلز کی تو اس معاملے میں امریکی کردار کتنا گھناونا ہے وہ میں یہاں بتاتا ہوں۔

1997 میں جارجیا کے ایک نائب سفیر سے ایک سڑک حادثے میں ایک امریکی شہری کی موت ہوئی تو امریکی حکومت نے اسے 21 سال قید کی سزا دلوائی، جارجیا کی حکومت کو اس بات کے لئے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اس سفیر کے لئے استشنٰی کا حق مانگنے سے دستبردار ہو جائے اور ایسا ہی ہوا، اسوقت امریکی حکومت کیا یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ایک سفیر ہے اور اسے استشنٰی حاصل ہے،
1982 میں شمالی کوریا کے ایک سفیر کو خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے جرم میں ملک بدر کر دیا گیا، تب یہ استشنٰی کا حق کہاں تھا،
پاکستانی مستقل مندوب منیر اکرم جب اپنی ایک دوست کے کیس میں ملوث ہوئے تو ان کے لئے بھی یہ استشنٰی کا حق باطل قرار پایا۔

اب انہیں ویانا کنونشن یاد آنے لگا ہے۔ حکومت پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ رکھنے والے ہمارے ایک شہری کو بغیر تصدیق کے ملزم بنا دیا گیا اور ویانا کنونشن کے تحت حاصل استثنٰی کے باوجود اسے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے فی الفور رہا کر کے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔

پہلی بات تو یہ کہ ویانا کنونشن امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک جن کے مابین یہ کنونشن طے پایا ہے، کے کسی بھی شہری کو چاہے وہ کتنا ہی معزز اور مقدس کیوں نہ ہو، لوگوں کے قتل عام اور اس نوعیت کے دوسرے گھناؤنے جرائم پر ہرگز استثنٰی فراہم نہیں کرتا۔ ویانا کنونشن کی دفعہ (2)239 کے تحت زیر معاہدہ ممالک کے سفارت کاروں کو ان کے صرف سفارت کاری سے متعلق فرائض کی انجام دہی کے لئے استثنٰی حاصل ہے۔ اور ذرا سوچئے جناب۔ قرطبہ چوک مزنگ میں ننگی دہشت گردی کے مرتکب ہونے والے معزز امریکی شہری وحشت و بربریت والے اپنے اس اقدام کے تحت کیا اپنے سفارت کاری سے متعلق فرائض سرانجام دے رہے تھے؟
امریکی سفارت خانے کے اس تقاضے نے یقیناً بہت سارے سوالات اٹھا دئیے ہیں کیونکہ اگر قرطبہ چوک والی واردات سفارت کاری کے فرائض کا حصہ ہے جس کی بنیاد پر دہرے قتل میں ملوث ایک ملزم کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے تو حکومت پاکستان کو پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کے فرائض کے چارٹر کی ایک ایک شق کا جائزہ لینا چاہئے، کہیں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا فریضہ ادا کرنا بھی تو امریکی سفارتکاری میں شامل نہیں، اور یہ یقینا شامل ہے۔

اور پھر ریمنڈ ڈیوس نامی یہ امریکی معزز باشندہ اصل میں ہے کون؟ پہلے اس کا بھی تو کھوج لگا لیا جائے۔
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کرالی تو پریس کے روبرو تضحیک آمیز لہجے میں یہ انکشاف کر رہے تھے کہ پاکستانی میڈیا میں ہمارے اس معزز شہری کا نام غلط لکھا اور پکارا جا رہا ہے۔ اصل نام ان صاحب نے بھی نہیں بتایا اور امریکی سفارتخانہ کے جاری کردہ بیان میں بھی ریمنڈ ڈیوس کا اصلی یا نقلی نام ظاہر کئے بغیر اس معزز قاتل کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جبکہ اس نے پولیس کی حراست میں اپنا نام ریمنڈ ڈیوس ہی بتایا تھا۔ کیا اس کے پاسپورٹ یا دوسری شناختی دستاویزات پر بھی اس کا نام ریمنڈ ڈیوس ہی درج ہے؟
اس کا سفارتی منصب اور فرائض کی نوعیت کیا ہے۔ اگر اس کے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہے تو اس پاسپورٹ پر تو ویزہ کسی مخصوص مدت کے لئے جاری نہیں ہوتا۔ پھر یہ ہر بار وزٹ ویزے پر کیوں پاکستان آتا ہے۔ اور اگر اس کا اصل نام کچھ اور ہے جو ظاہر کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے تو پھر اس کی پاکستان میں موجودگی کا اصل مقصد کیا ہے؟

ایک معصوم اور کمزور لڑکی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پانچ سال تک اپنے نجی عقوبت خانوں میں رکھ کر جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچاتے اور پھر ایک کٹڑ یہودی کی سربراہی میں قائم امریکی عدالت سے اسے انسانیت کو شرمانے والی 85 سال قید کی سزا دلواتے وقت کیوں ویانا کنونشن یاد نہ آیا۔
چلیں ویانا کنونشن میں سفارت کاروں کو استثنٰی دیا گیا ہے تو بھائی صاحب! ایک جنیوا کنونشن بھی تو موجود ہے جس کے تحت زیر معاہدہ ممالک کے قیدیوں کا ایک دوسرے کے ملک میں تبادلہ ہو سکتا ہے۔ آپ کو تو اس جنیوا کنونشن کے احترام کا بھی خیال نہ آیا۔

اب آپ اپنے شہری کی جانب سے دو افراد کے قتل پر بھی یہ جواز بنا کر اسے بے گناہ قرار دے رہے ہیں کہ اس نے اپنے دفاع میں قتل کی یہ گھناﺅنی واردات کی ہے جس کا اسے پورا حق حاصل تھا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھی امریکی فوجیوں پر بندوق اٹھائی ہو گی (جو حقیقت ہرگز نہیں) تو مسلسل جسمانی اذیتیں برداشت کرنے والی اس کمزور خاتون میں بھی یہ ہمت اپنے دفاع کی خاطر نہیں پیدا ہوئی ہو گی؟ اور آپ نے تو پاکستانی نڑاد فیصل شہزاد کو اس کے کسی جرم کے ارتکاب کے بغیر ہی نیویارک سکوائر میں بم رکھنے کی کوشش کرنے کے محض شبہ میں اپنے امریکی قوانین کے تحت ہی جھٹ پٹ سزا سنا دی۔ آپ کو اس وقت بھی ویانا کنونشن نہ سہی، جنیوا کنونشن بھی کیوں یاد نہ آیا؟ کیا آپ آسمان سے اتری کوئی مخلوق ہیں کہ آپ کو اس روئے زمین پر سات خون بھی معاف ہیں اور دوسرے سارے انسان کیا کیڑے مکوڑے ہیں کہ آپ دندناتے، جگالی کرتے انہیں کچلتے مسلتے رہیں۔

یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے امریکی کتو۔ ریمنڈ ڈیوس امریکی سفارت کار نہیں ہے بلکہ بلیک واٹر کا غنڈہ ہے جو اپنے سونپے ہوئے کام کی تکمیل کے دوران ہی پکڑا گیا، اسے ویانا کنونشن کا تحفظ کیسے حاصل ہوا ؟

کوئی سفارتکار یا غیر سفارتی عملہ/ اہلکار جو تحفظ/ استثنیٰ کا دعویدار ہو اپنی کار میں ٹیلی سکوپ‘ دور بین‘ نقشہ جات‘ ماسک یا اس قسم کی دیگر اشیا لیکر نہیں چلتا اور نہ ہی اپنی مرضی سے دو نوجوانوں کو قتل کرتا ہے۔اس قسم کے آلات رکھنے کا کیا مقصد ہے آخر؟
کیا تمہارے سفارتکاروں کو نظر نہیں آتا اس لئے ٹیلی سکوپ پڑی تھی یا وہ رستے بھولنے کے عادی ہیں اس لئے نقشے موجود تھے، کیا وہ ممنوع اسلحہ لے کر چلنے کی آزادی بھی رکھتے ہیں؟
اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک ایجنٹ ہے اور نشانے باز ہے۔ اس کو سفارتی تحفظ دئیے جانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ سفارتی تحفظ حقوق کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے۔یہ تحفظ حاصل کرنے والوں کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کے ملک کے قوانین کی سختی سے پابندی کرے۔ اور تمہارے اس معزز امریکی سفارت کار (بقول تمہارے) نے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کی ہے اس لئے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
فواد
کارکن
کارکن
Posts: 83
Joined: Tue Dec 21, 2010 7:30 pm
جنس:: مرد

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by فواد »

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس ايشو کے حوالے سے جو تند وتيز جملے استعمال کيے جا رہے ہيں اور جس شديد جذباتی سوچ کا اظہار کيا جا رہا ہے اس کی بنياد يہ غلط تاثر ہے کہ امريکی سفارت کار نے دانستہ اور غير ضروری طور پر پاکستانی شہريوں کی جان لی ہے۔

يقينی طور پر صورت حال ايسی نہيں ہے۔

اگر دليل کی حد تک سفارتی استثنی کا معاملہ ايک طرف رکھ ديا جاۓ تو اس صورت ميں بھی حقيقت يہی ہے کہ سفارت کار کی جانب سے اٹھايا جانے والا قدم اپنی جان کی حفاظت کے ليے اس موقع پر ليا گيا جب دو مسلح ڈاکوں کی جانب سے کاروائ کی گئ۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک افسوس ناک واقعہ جس کے نتيجے ميں زندگيوں کا ضياع ہوا۔

ليکن ان حالات کو درگزر نہيں کيا جا سکتا جو اس واقعے کا سبب بنے۔ ہر شخص کو يہ حق حاصل ہے کہ اپنی زندگی کی حفاظت کے ليے کوشش کرے۔ امريکی سفارت کار اس اصول سے مبرا نہيں ہے۔

جہاں تک سفارتی استثنی کا سوال ہے تو يہ باہمی طور پر طے شدہ عالمی قانون ہے جو دنيا بھر ميں رائج ہے۔ امريکی سفارت کاروں کو پاکستان ميں کوئ مخصوص مراعات يا اختيارات حاصل نہيں ہيں۔ واشنگٹن ميں پاکستانی ہم نصب سفارت کاروں کو بھی اسی قسم کی سہوليات حاصل ہیں۔

فورمز پر کچھ راۓ دہندگان نے مجھ سے يہ سوال کيا ہے کہ اگر ايک پاکستانی امريکہ ميں ايسے کسی واقعے ميں ملوث ہوتا تو اس صورت ميں کيا کاروا‏ئ کی جاتی۔ حقیقت يہ ہے کہ ايسی درجنوں مثالیں موجود ہيں جب امريکہ کے اندر غير ملکی سفارت کاروں نے سفارتی استثنی کو استعمال کيا۔ سال 2003 ميں ايک پاکستانی سفارت کار گھريلو معاملے ميں تشدد کے ايک کيس ميں ملوث ہوا ان کی گرفتاری کے ليے پوليس کو موقع پر بلوايا گيا ليکن جب انھوں نے اپنے سفارتی کوائف واضح کيے تو پوليس نے ان کے خلاف کوئ کاروا‏ئ نہيں کی تھی۔

امريکی حکومت اور اسلام آباد ميں امريکی سفارت کار صرف پاکستانی حکام کو گرفتار شدہ سفارت کار کے حقوق، ان کی سفارتی حيثيت اور پاکستانی کی عالمی ذمہ داری کے بارے میں باور کروا رہے ہيں۔ يہ پاکستان ميں حکام بالا کو بليک ميل کرنے يا دھمکانے کی کوشش نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by اعجازالحسینی »

چاند بابو wrote:
جانتے ہو فواد مجھے تم سے کبھی کسی اچھی اور سچی بات کی توقع ہی نہیں رہی ہے،
تم ہمیشہ اپنے آقاؤں کے کہنے پر یہاں آتے ہو اور ان کی پڑھائی ہوئی بکواس یہاں کرتے ہو اور چلے جاتے ہو۔
مجھے امید تھی کہ تم اس بار بھی کچھ ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں لے کا آؤ گے اور تم آئے بھی، لیکن جتنی اوٹ پٹانگ میں سمجھ رہا تھا تم تو اس سے کہیں زیادہ بکواس کر گئے یہاں پر۔
تم تصدیق شدہ اور غیر تصدیق شدہ کہتے کسے ہو آخر،
کیا تصدیق شدہ وہ ہے جو تمہاری حکومت کہے اور غیر تصدیق شدہ ہر وہ بات جو تمہارے خلاف کی جائے،
کیا تصدیق کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ تین افراد ہلاک ہوئے ہیں، کیا ان کی لاشیں کافی ثبوت نہیں ہیں ثبوت کا،
اور تمہارے اس سؤر کا پہلا اعترافی بیان کافی نہیں ہے جو اس نے دیا،
کیا سینکڑوں گواہ کافی نہیں ہیں تصدیق کے لئے؟
کیا اس کی رنگے ہاتھوں گرفتاری کافی نہیں ہے؟
میرے خیال میں تم اب بھی کہو گے کہ کافی نہیں ہیں کیونکہ تم تو اپنے گھر سونے اس وقت جاتے ہو جب تمہارے حکامِ بالا اس بات کا حکم کرتے ہیں تم ہماری باتوں کی تصدیق کیوں کرو گے جب کہ تم جن کے نمک خوار کتے ہو انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک غیر تصدیق شدہ بات ہے،
ہمارے ریٹائرڈ ہوں یا حاضر سروس افسران، فوجی ہوں یا سول ان کا ہر بیان تمہیں ایک فضول بیان لگتا ہے اور تمہارا کہا تم سمجھتے ہو ہم فورا قبول کر لیں گے، نہیں ایسا نہیں ہے بکواس تو تم اور تمہارا میڈیا کرتا ہے ۔

بات آتی ہے سفارتکاروں کو تحفظ دینے والے آرٹیکلز کی تو اس معاملے میں امریکی کردار کتنا گھناونا ہے وہ میں یہاں بتاتا ہوں۔

1997 میں جارجیا کے ایک نائب سفیر سے ایک سڑک حادثے میں ایک امریکی شہری کی موت ہوئی تو امریکی حکومت نے اسے 21 سال قید کی سزا دلوائی، جارجیا کی حکومت کو اس بات کے لئے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اس سفیر کے لئے استشنٰی کا حق مانگنے سے دستبردار ہو جائے اور ایسا ہی ہوا، اسوقت امریکی حکومت کیا یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ایک سفیر ہے اور اسے استشنٰی حاصل ہے،
1982 میں شمالی کوریا کے ایک سفیر کو خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے جرم میں ملک بدر کر دیا گیا، تب یہ استشنٰی کا حق کہاں تھا،
پاکستانی مستقل مندوب منیر اکرم جب اپنی ایک دوست کے کیس میں ملوث ہوئے تو ان کے لئے بھی یہ استشنٰی کا حق باطل قرار پایا۔

اب انہیں ویانا کنونشن یاد آنے لگا ہے۔ حکومت پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ رکھنے والے ہمارے ایک شہری کو بغیر تصدیق کے ملزم بنا دیا گیا اور ویانا کنونشن کے تحت حاصل استثنٰی کے باوجود اسے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے فی الفور رہا کر کے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔

پہلی بات تو یہ کہ ویانا کنونشن امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک جن کے مابین یہ کنونشن طے پایا ہے، کے کسی بھی شہری کو چاہے وہ کتنا ہی معزز اور مقدس کیوں نہ ہو، لوگوں کے قتل عام اور اس نوعیت کے دوسرے گھناؤنے جرائم پر ہرگز استثنٰی فراہم نہیں کرتا۔ ویانا کنونشن کی دفعہ (2)239 کے تحت زیر معاہدہ ممالک کے سفارت کاروں کو ان کے صرف سفارت کاری سے متعلق فرائض کی انجام دہی کے لئے استثنٰی حاصل ہے۔ اور ذرا سوچئے جناب۔ قرطبہ چوک مزنگ میں ننگی دہشت گردی کے مرتکب ہونے والے معزز امریکی شہری وحشت و بربریت والے اپنے اس اقدام کے تحت کیا اپنے سفارت کاری سے متعلق فرائض سرانجام دے رہے تھے؟
امریکی سفارت خانے کے اس تقاضے نے یقیناً بہت سارے سوالات اٹھا دئیے ہیں کیونکہ اگر قرطبہ چوک والی واردات سفارت کاری کے فرائض کا حصہ ہے جس کی بنیاد پر دہرے قتل میں ملوث ایک ملزم کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے تو حکومت پاکستان کو پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کے فرائض کے چارٹر کی ایک ایک شق کا جائزہ لینا چاہئے، کہیں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا فریضہ ادا کرنا بھی تو امریکی سفارتکاری میں شامل نہیں، اور یہ یقینا شامل ہے۔

اور پھر ریمنڈ ڈیوس نامی یہ امریکی معزز باشندہ اصل میں ہے کون؟ پہلے اس کا بھی تو کھوج لگا لیا جائے۔
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کرالی تو پریس کے روبرو تضحیک آمیز لہجے میں یہ انکشاف کر رہے تھے کہ پاکستانی میڈیا میں ہمارے اس معزز شہری کا نام غلط لکھا اور پکارا جا رہا ہے۔ اصل نام ان صاحب نے بھی نہیں بتایا اور امریکی سفارتخانہ کے جاری کردہ بیان میں بھی ریمنڈ ڈیوس کا اصلی یا نقلی نام ظاہر کئے بغیر اس معزز قاتل کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جبکہ اس نے پولیس کی حراست میں اپنا نام ریمنڈ ڈیوس ہی بتایا تھا۔ کیا اس کے پاسپورٹ یا دوسری شناختی دستاویزات پر بھی اس کا نام ریمنڈ ڈیوس ہی درج ہے؟
اس کا سفارتی منصب اور فرائض کی نوعیت کیا ہے۔ اگر اس کے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہے تو اس پاسپورٹ پر تو ویزہ کسی مخصوص مدت کے لئے جاری نہیں ہوتا۔ پھر یہ ہر بار وزٹ ویزے پر کیوں پاکستان آتا ہے۔ اور اگر اس کا اصل نام کچھ اور ہے جو ظاہر کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے تو پھر اس کی پاکستان میں موجودگی کا اصل مقصد کیا ہے؟

ایک معصوم اور کمزور لڑکی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پانچ سال تک اپنے نجی عقوبت خانوں میں رکھ کر جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچاتے اور پھر ایک کٹڑ یہودی کی سربراہی میں قائم امریکی عدالت سے اسے انسانیت کو شرمانے والی 85 سال قید کی سزا دلواتے وقت کیوں ویانا کنونشن یاد نہ آیا۔
چلیں ویانا کنونشن میں سفارت کاروں کو استثنٰی دیا گیا ہے تو بھائی صاحب! ایک جنیوا کنونشن بھی تو موجود ہے جس کے تحت زیر معاہدہ ممالک کے قیدیوں کا ایک دوسرے کے ملک میں تبادلہ ہو سکتا ہے۔ آپ کو تو اس جنیوا کنونشن کے احترام کا بھی خیال نہ آیا۔

اب آپ اپنے شہری کی جانب سے دو افراد کے قتل پر بھی یہ جواز بنا کر اسے بے گناہ قرار دے رہے ہیں کہ اس نے اپنے دفاع میں قتل کی یہ گھناﺅنی واردات کی ہے جس کا اسے پورا حق حاصل تھا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھی امریکی فوجیوں پر بندوق اٹھائی ہو گی (جو حقیقت ہرگز نہیں) تو مسلسل جسمانی اذیتیں برداشت کرنے والی اس کمزور خاتون میں بھی یہ ہمت اپنے دفاع کی خاطر نہیں پیدا ہوئی ہو گی؟ اور آپ نے تو پاکستانی نڑاد فیصل شہزاد کو اس کے کسی جرم کے ارتکاب کے بغیر ہی نیویارک سکوائر میں بم رکھنے کی کوشش کرنے کے محض شبہ میں اپنے امریکی قوانین کے تحت ہی جھٹ پٹ سزا سنا دی۔ آپ کو اس وقت بھی ویانا کنونشن نہ سہی، جنیوا کنونشن بھی کیوں یاد نہ آیا؟ کیا آپ آسمان سے اتری کوئی مخلوق ہیں کہ آپ کو اس روئے زمین پر سات خون بھی معاف ہیں اور دوسرے سارے انسان کیا کیڑے مکوڑے ہیں کہ آپ دندناتے، جگالی کرتے انہیں کچلتے مسلتے رہیں۔

یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے امریکی کتو۔ ریمنڈ ڈیوس امریکی سفارت کار نہیں ہے بلکہ بلیک واٹر کا غنڈہ ہے جو اپنے سونپے ہوئے کام کی تکمیل کے دوران ہی پکڑا گیا، اسے ویانا کنونشن کا تحفظ کیسے حاصل ہوا ؟

کوئی سفارتکار یا غیر سفارتی عملہ/ اہلکار جو تحفظ/ استثنیٰ کا دعویدار ہو اپنی کار میں ٹیلی سکوپ‘ دور بین‘ نقشہ جات‘ ماسک یا اس قسم کی دیگر اشیا لیکر نہیں چلتا اور نہ ہی اپنی مرضی سے دو نوجوانوں کو قتل کرتا ہے۔اس قسم کے آلات رکھنے کا کیا مقصد ہے آخر؟
کیا تمہارے سفارتکاروں کو نظر نہیں آتا اس لئے ٹیلی سکوپ پڑی تھی یا وہ رستے بھولنے کے عادی ہیں اس لئے نقشے موجود تھے، کیا وہ ممنوع اسلحہ لے کر چلنے کی آزادی بھی رکھتے ہیں؟
اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک ایجنٹ ہے اور نشانے باز ہے۔ اس کو سفارتی تحفظ دئیے جانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ سفارتی تحفظ حقوق کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے۔یہ تحفظ حاصل کرنے والوں کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کے ملک کے قوانین کی سختی سے پابندی کرے۔ اور تمہارے اس معزز امریکی سفارت کار (بقول تمہارے) نے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کی ہے اس لئے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
[center]Image[/center]
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by اعجازالحسینی »

کیا امریکیوں کو ویانا کنونشن اسو قت یاد نہیں تھا جب افغانستان کے نامزد سفیر ملاّ عبدالسلام ضعیف صاحب کو گرفتار کیا گیا اور پھر گونتانامو بے میں قید رکھا گیا
کیا کوئی امریکی کتا اس کا جواب دے سکتا ہے
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by اعجازالحسینی »

[center]Image[/center]
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
یاسر عمران مرزا
مشاق
مشاق
Posts: 1625
Joined: Wed Mar 18, 2009 3:29 pm
جنس:: مرد
Location: جدہ سعودی عرب
Contact:

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by یاسر عمران مرزا »

چاند بابو، اتنا جذباتی مت ہوئیے. بھینس کے آگے بین بجانے کا فائدہ ؟

ان صاحب کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے. اب ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیوٹی تو کرنی ہی ہے نا.... ]:)
فواد
کارکن
کارکن
Posts: 83
Joined: Tue Dec 21, 2010 7:30 pm
جنس:: مرد

Re: لاہور: امریکی شہری کی فائرنگ،3 افراد جاں بحق

Post by فواد »

اعجازالحسینی wrote:کیا امریکیوں کو ویانا کنونشن اسو قت یاد نہیں تھا جب افغانستان کے نامزد سفیر ملاّ عبدالسلام ضعیف صاحب کو گرفتار کیا گیا اور پھر گونتانامو بے میں قید رکھا گیا
کیا کوئی امریکی کتا اس کا جواب دے سکتا ہے
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ان دونوں کيسيز ميں کوئ مماثلت يا قدر مشترک نہيں ہے۔ سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی حمايت سے افغانستان ميں ہونے والی فوجی کاروائ کے بعد افغانستان ميں طالبان کی فعال حکومت کا کوئ وجود نہيں تھا۔

يہ بات نہيں بھولنی چاہيے کہ جس حکومت کی جانب سے کسی سفارت کار کی سفارتی حيثيت کا تعين يا منظوری دی جاتی ہے جب اس حکومت کا اپنا وجود ہی نہ رہے تو اس سفارتی حيثيت کی بھی کوئ اہميت باقی نہيں رہ جاتی۔

ايک جنگی صورت حال يا فوجی غلبے کی صورت ميں جينيوا کنونشن کے سفارتی استثنی سے متعلق قوانين ايک ايسا قانونی معاملہ ہوتا ہے جس پر عمل درآمد ايک سواليہ نشان بن جاتا ہے۔ جب سال 1990 ميں عراق نے کويت پر قبضہ کيا تھا تو کويت ميں موجود غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے ليے اقدامات کيے گۓ تھے۔

جہاں تک ملا ضعيف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں ان کی گرفتاری کے وقت انھيں سفارتی استثنی حاصل نہيں تھی کيونکہ افغانستان ميں طالبان کی وہ حکومت ہی موجود نہيں تھی جو انھيں يہ سہولت فراہم کر سکتی۔ يقينی طور پر پاکستان ميں گرفتار امريکی سفارت کار کے کيس ميں صورت حال يہ نہيں ہے۔

اس کے علاوہ يہ بات بھی غور طلب ہے کہ امريکی سفارت کار کے برعکس جو کہ اپنی جان بچانے کے حوالے سے ايک واقعے ميں ملوث ہوۓ، ملا ضعيف ايک ايسی حکومت کے اعلی عہديداروں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے جو عالمی دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کرنے کے جرم ميں شامل تھے۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے اقوام متحدہ نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا بلکہ سرکاری طور پو طالبان کی حکومت کو سيکورٹی کونسل کی کئ قراردادوں کے ذريعے باور بھی کروايا۔

"کومبيٹنٹ اسٹيٹس ريوو" ٹريبيونل کے سامنے الزامات کے حوالے سے جو دستاويز پيش کی گئ تھی اس کے مطابق

گرفتار ہونے والا طالبان کا رکن تھا۔

گرفتار ہونے والے شخص نے يہ خود تسليم کيا تھا کہ اس نے سال 1996 ميں طالبان میں شموليت اختيار کی تھی۔

طالبان کے لیڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو اقغانستان کے سنٹرل بنک کا صدر مقرر کيا گيا تھا۔

اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو افغانستان کی معدنيات اور انڈسٹری سے متعلق وزارت ميں ڈپٹی وزير کے عہدے پر فائز کيا گيا تھا۔

اس کے علاوہ گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان حکومت نے کابل ميں ٹرانسپورٹ کی وزارت پر فائز کيا جہاں پر 3 ماہ کام کيا۔

گرفتار ہونے والے شخص کا آخری عہدہ پاکستان ميں طالبان حکومت کے سفير کی حيثيت سے تھا جہاں پر 18 ماہ تک دسمبر 2001 ميں اپنی گرفتاری تک کام کيا۔

طالبان کی تحريک کے ابتدائ دنوں میں طالبان اور القا‏ئدہ کے فعال کمانڈرز افغانستان کے شہر کابل اور گرد ونواح کے علاقوں سے گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان کے "ڈپٹی ڈيفنس" کی حيثيت ميں رپورٹ کيا کرتے تھے۔

پاکستان ميں طالبان کے سفير کی حيثيت سے ان کے طالبان کی سينير ليڈرشپ کے ساتھ قريبی تعلقات تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall
Post Reply

Return to “تازہ ترین خبریں”