اسلامی سیاست روایتی سیاست سے ہٹ کر

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

اسلامی سیاست روایتی سیاست سے ہٹ کر

Post by مجیب منصور »

اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست کے تفصیلی نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں انھی کی مختصر تشریح کروں گا۔
توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے۔ حکومت و فرماں روائی اسی کی ہے، وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و طاعت بلاشرکت غیرے اسی کے لیے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں، ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا کی موجودات پر حاصل ہیں اور خود یہ موجودات جن ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا حاصل کردہ ہے اور نہ اس کی بخشش میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہے، اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملہ میں دخل دینے کا حق ہے۔ یہ صرف اس خدا کا کام ہے جس نے ہم کو ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دنیا کی یہ بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔ توحید کا یہ اصولِ انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کردیتا ہے۔ ایک انسان ہو یا ایک خاندان، یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم ، یا مجموعی طور پر تمام دنیا کے انسان، حاکمیت کاحق بہرحال کسی کو بھی نہیں پہنچتا۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حکم "قانون" ہے۔
خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کانام"رسالت"ہے۔ اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں۔ ایک "کتاب"جس میں خود خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسری کتاب کی مستند تشریح جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول وعمل میں پیش کی ہے۔
خدا کی کتاب میں وہ تمام اصول بیان کردیے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ اور رسول نے کتاب کے اس منشا کے مطابق عملاً ایک نظامِ زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کردیا ہے۔ انھی دو چیزوں کے مجموعے کانام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔
اب خلافت کو لیجیے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص کو اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ کے پیش نظر چار باتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جائیداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اس شخص کو آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ نے اس کے لیے مقرر کردی ہیں۔ چوتھے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اسے آپ کا منشا پورا کرنا ہوگا نہ کہ اپنا۔ یہ چار شرطیں نیابت کے تصور میں اس طرح شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خود بخود انسان کے ذہن میں آجاتی ہیں۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں کو پورا نہ کرے تو آپ کہیں گے کہ وہ نیابت کے حدود سے تجاوز کرگیا اور اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اسلام انسان کو خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصور میں یہی چاروں شرطیں شامل ہیں۔ اسلامی نظریہ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہوگی وہ دراصل خدا کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہوگی، جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کرکے اس کا منشا پورا کرنا ہوگا۔
خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اورسمجھ لیجیے کہ اس معنی میں اسلامی نظریہ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان کو خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کرکے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی مثال ہے اور یہ خلافت اس کے ہر فرد کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اسلام میں"جمہوریت " کی ابتدا ہوتی ہے۔اسلامی معاشرے کا ہرفرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر کے حصے دار ہیں۔ کسی کو کسی پر نہ ترجیح حاصل ہے اور نہ یہ حق پہنچتا ہے کہ اسے ان حقوق واختیارات سے محروم کرسکے۔ ریاست کا نظم ونسق چلانے کے لیے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انھی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک حصہ اسے سونپیں گے۔ اس کے بننے میں ان کی رائے شامل ہوگی اور ان کے مشورے ہی سے وہ چلے گی۔ جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد کھو دے گا اسے حکومت کے منصب سے ہٹنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے،اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت مکمل ہوسکتی ہے البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریہ سیاسی "جمہوری حاکمیت" کا قائل ہے اور اسلام" جمہوری خلافت"کا ۔ وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں، یہاں ان کو اس شریعت کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ سے دی ہے۔ وہاں حکومت کا کام جمہور کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت اور اس کے بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیارات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِآئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔
اب میں آپ کے سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضح نقشہ پیش کروں گا جو توحید، رسالت اور خلافت کی ان بنیادوں پر بنتی ہے۔
اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو قائم کرے، فروغ دےاور پروان چڑھائے جن سے خداوندِعالم انسانی زندگی کوآراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوندِعالم کو پسند نہیں ہے۔اسلام میں ریاست کا مقصد محض انتظام ملکی ہے اور نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرے۔ اس کے بجائے اسلام اس کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنےتمام وسائل و ذرائع اوراپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہییں، اور وہ یہ ہے کہ خدا اپنی زمین میں اور اپنے بندوں کی زندگی میں جو پاکیزگی، جو حسن،جو خیر و صلاح،جو ترقی و فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رونما ہو، اور بگاڑ کی ان تمام صورتوں کاسد باب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو اجاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنےو الی ہیں۔ اس نصب العین کو پیش کرنے کے ساتھ اسلام ہمارے سامنے خیروشر دونوں کی ایک واضح تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں کو صاف صاف نمایاں کردیا گیا ہے۔اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہر ماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بناسکتی ہے۔
اسلام کا مستقل تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست کے لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کردیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف، بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو، وہ ملک یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر راعی اور رعیت کے باہمی تعلقات ہوں یا ملک کے باہر دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف کو اغراض و مصالح پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد کی طرح مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے کے پیمانے یکساں رکھو، جو کچھ کہتے ہو وہی کرو اور جو کچھ کرتے ہو وہی کہو، اپنے حق کے ساتھ اپنے فرض کو بھی یاد رکھو، اور دوسرے کے فرض کے ساتھ اس کے حق کو بھی نہ بھولو، طاقت کو ظلم کے بجائے انصاف کے قیام کا ذریعہ بناؤ۔ حق کو بہرحال حق سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار کو خدا کی امانت سمجھواوراس یقین کے ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا حساب تمھیں اپنے خدا کو دینا ہے۔
اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے مگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافی حد میں محدود رکھتی ہے اور نہ شہریت کے حقوق کو۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اسلام ہر انسان کے لیے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے، اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلح رکھتا ہو یا برسر جنگ ہو۔ انسانی خون ہر حالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جاسکتا۔ عورت، بچے بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ عورت کی عصمت بہرحال احترام کی مستحق ہے، اور اسے بےآبرو نہیں کیا جاسکتا۔ بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی کپڑے کا، زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمارداری کا بہرحال مستحق ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے حقوق اسلام نے انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست کے دستور میں ان کو بنیادی حقوق کی جگہ حاصل ہے۔ رہے شہریت کے حقوق تو وہ بھی اسلام صرف انھی لوگوں کو نہیں دیتا جو اس کی ریاست کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں پیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے(یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ مسلمان کسی اسلامی ریاست کا شہری ہو۔ اگر وہ کسی غیر اسلامی حکومت کی رعایا ہو تو وہ صرف اس صورت میں اسلامی ریاست کا شہری بن سکتا ہے جبکہ وہ ہجرت کر کے آئے۔)اور پیدائشی شہریوں کے برابر حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں گی ان سب کے درمیان شہریت مشترک ہوگی۔ مسلمان کو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہ ہوگی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر اسلامی ریاست میں کسی بڑے سے بڑے ذمہ داری کے منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔
غیر مسلمانوں کے لیے، جوکسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں، اسلام نے چند حقوق معین کردیے ہیں اور وہ لازماً دستور اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو "ذمی" کہاجاتا ہے، یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذمی کی جان و مال اور آبرو محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمیوں کے پرسنل لاء میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گے۔ ذمیوں کو ضمیرواعتقاد اور مذہبی رسوم وعبادات میں پوری آزادی حاصل ہوگی۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا کو دیے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنھیں اس وقت تک سلب نہیں کیاجاسکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہوجائیں۔ کوئی غیر مسلم حکومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ حتی کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کردیے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذمی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔ اسلامی ریاست کے انتظام کی ذمہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدر جمہوریہ کے مماثل سمجھنا چاہیے۔ امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کاحق ہوگا جو دستور کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ انتخاب کی بنیاد یہ ہوگی کہ روح اسلام کی واقفیت، اسلامی سیرت، خداترسی اور تدبر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کااعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو امارت کے لیے منتخب کیاجائے گا۔ پھر اس کی مدد کے لیے ایک مجلس شوریٰ بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کو منتخب کردہ ہوگی۔ امیر کے لیے لازم ہوگا کہ ملک کا انتظام اہل شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ ایک امیر اسی وقت تک حکمران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ عدم اعتماد کی صورت میں اسے جگہ خالی کرنی ہوگی مگر جب تک وہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے اسے حکومت کے پورے اختیارات حاصل رہیں گے۔
امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نکتہ چینی کا پورا حق حاصل ہوگا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندر ہوگی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔ خدا اور رسول کے واضح احکام صرف اطاعت کے لیے ہیں۔ کوئی مجلس قانون ساز ان میں ردوبدل نہیں کر سکتی۔ رہے وہ احکام جن میں دو یا زیادہ تعبیریں ممکن ہیں تو ان میں شریعت کا منشا معلوم کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو شریعت کا علم رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات مجلس شوریٰ کی اس سب کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے جو علما پر مشتمل ہوگی۔ اس کے بعد ایک وسیع میدان ان معاملات کا ہے جن میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں مجلس شوریٰ قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔
اسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہےبلکہ براہ راست خدا کی نمائندہ اوراس کو جوابدہ ہے۔ حاکمانِ عدالت کو مقرر تو انتظامی حکومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا کے قانون کے مطابق لوگوں کے درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس کے انصاف کی زد سے خود حکومت بھی نہ بچ سکے گی، حتی کہ خود حکومت کے رئیسِ اعلی کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے اس کے سامنے اسی طرح حاضرہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری حاضر ہوتا ہے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب مجیب بھیا بہت شکریہ اپنے خوبصورت خیالات سے آگاہی کا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Post by مجیب منصور »

آپ کا بھی شکریہ اپنے خوبصورت انداز میں حوصلہ افزائی کا
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب مجیب بھائی۔آپ کا انداز بیان پسند آیا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب اب آپ کی چھپی صلاحتیں سامنے آ رہی ہیں۔ کہاں چھپے رہے ہیں آپ اب تک آپ جیسے لوگوں کی تو ہمیں بہت ضرورت ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Post by مجیب منصور »

ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔صرف آپ بھائیوں کی دعاؤں کے سہارے چل رہے ہیں، لیکن عجیب اتفاق کہ کل سے میری مصروفیات بڑہ رہی ہیں اس لیے اب حاضری نہایت محدود رہ جائیگی ،
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Post by مجیب منصور »

رضی الدین wrote:بہت خوب مجیب بھائی۔آپ کا انداز بیان پسند آیا۔
آپ کا یہ خلوص پیارا لگا رضی صاحب
آپ سے ایک سوال ہے کہ ،نئی دہلی سے دیوبند کتنا دور ہے؟
اور آپ کبھی وہاں گئے ہیں؟
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

مجیب منصور wrote:
رضی الدین wrote:بہت خوب مجیب بھائی۔آپ کا انداز بیان پسند آیا۔
آپ کا یہ خلوص پیارا لگا رضی صاحب
آپ سے ایک سوال ہے کہ ،نئی دہلی سے دیوبند کتنا دور ہے؟
اور آپ کبھی وہاں گئے ہیں؟
مجیب بھائی اچانک آپ نے ایک سوال پوچھ لیا۔ خیر نئی دہلی سے دیو بند ذیادہ دور نہیں ہے۔ رہی بات میری وہاں جانے کی تو میں آج تک وہاں نہیں جا سکا ہوں۔ بھائی ہمارا ملک کافی بڑا ہے، اور میں ممبئی میں رہتا ہوں جو نئی دہلی سے کافی دور ہے۔

کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں مجیب بھائی !!!
کیا آپ یہاں کی سیر کرنا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

ارے بھیا جی یہ کیا بات ہوئی کون جامعہ دیوبند کی سیر نہیں کرنا چاہئے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Post by مجیب منصور »

دراصل میں نے کچھ عرصے کے بعد مادر علمی دارالعلوم دیوبند
جانا ہے اس لیے پہلے سے ہی معلومات اکٹھی کررہا ہوں
اس بہانے رضی بھائی کی زیارت بھی ہوجائے گی
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

مجیب منصور wrote:دراصل میں نے کچھ عرصے کے بعد مادر علمی دارالعلوم دیوبند
جانا ہے اس لیے پہلے سے ہی معلومات اکٹھی کررہا ہوں
اس بہانے رضی بھائی کی زیارت بھی ہوجائے گی
بڑا ہی نیک خیال ہے مجیب بھائی۔
اللہ آپ کی ہر جائز تمنّا پوری کرے۔ آمین !
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

Post by مجیب منصور »

آمین
جزاک اللہ رضی بھائی
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”