چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

Post by اعجازالحسینی »

اور اب زخموں نے دہائی دینا شروع کردی ہے۔ سندھ کے وزیر داخلہ گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں دہائی دے رہے تھے۔ وہ شدتِ احساس سے جل رہے تھے۔ خونِ ناحق پر مزید خاموش رہنا یا اسے مصلحت کے پردوں میں چھپانا ان کے بس سے باہر تھا۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں کے قتل سے اور مسلسل قتل سے ان کے سینے میں غم و غصے کی آگ بھڑک رہی تھی۔ انہوں نے شدتِ جذبات میں کہا کہ ’’غریب، مسکین اور بے وسیلہ لوگوں کو ہلاک کرنا اور ان کا خون بہانا بند کرو۔ آئو مجھے گولی مارو۔ انہوں نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ میں ٹھیلے والے، ریڑھی والے، رکشے والے، بوٹ پالش کرنے والے، اپنے بچوں اور اپنے بہن بھائیوں کیلئے دو وقت کی روٹی کمانے والوں کو نشانہ تاک کر کیوں مارا جا رہا ہے۔ مارنا ہے تو ایم این ایز کو مارو، ایم پی ایز مار و۔‘‘ کراچی اتنا سفاک اس سے پہلے تو کبھی نہ تھا جتنا آج ہوگیاہے۔ رکشا پرنوجوان سوار ہوتے ہیں۔ منزل مقصود پر پہنچ کر کرایہ دینے کے بجائے ڈرائیور کو گولی ماردیتے ہیں۔ کراچی میں رہنے والا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہاں رکشا کون چلاتا ہے اور گولی کون مارتا ہے۔
گزشتہ بیس برس سے کراچی میں سیاست میں تشدد آگیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ تشدد کی سیاست کی جا رہی ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ بیلٹ کیلئے بھی بلٹ استعمال کیا جاتاہے۔ پیپلز پارٹی سیاست میں لپاڈکی تو کرلیتی تھی مگر اس پر کبھی اپنے مخالفین یا سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے معصوم لوگوں کا خون بہانے کا الزام نہ لگا تھا۔ مگر اب پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس سے وابستہ بعض جرائم پیشہ لوگ بھی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی والوں کا کہنا ہے کہ ان کا دامن اس الزام سے صاف ہے۔ ان کے بقول ٹارگٹ کلنگ میں وہی ملوث ہیںجو ماضی میں بھی اس طرح کی کاررائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
12 مئی 2007ء کی دوپہر کو کراچی کی تپتی ہوئی سڑکوں پر 42 بے گناہ انسانوں کے لاشے تڑپ رہے تھے اور اسی روز اسلام آباد کی خنک چھائوں میں اس دورکا فوجی آمر کامیابی کے نشے میں چور ہو کر کہہ رہا تھا کہ جس شہر میں جس کی قوت ہوگی تو وہ اس کا مظاہر ہ تو کرے گا۔ جن کی اس شہر میں قوت تھی انہوں نے آمرکے اس اعترافی بیان کی کبھی تردید نہیں کی۔
روشنیوں کا شہر کراچی بہت زمانے تک ایک پرامن، پر رونق اور غریب پرور شہر تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں پاکستان کا معاشی دارالخلافہ تھا۔ غریب مگر جفاکش لوگ ملک کے طول و عرض سے یہاں آتے اور وہ ایسے محنت طلب کام کرتے جو مقامی لوگ کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ وہ ان کاموں کو کرنے میں بھی عار محسوس نہ کرتے جو مقامی آبادی کے سفید پوشوں کیلئے جن کاموں کا تصور بھی محال تھا۔ وہ لکڑی کے ٹالوں پر لکڑیاں چیرتے اور بیچتے تھے وہ گھروں میں چوکیداری کا کام کرتے اور دیانت، امانت اور وفاداری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے، وہ ریڑھیوں پر لاد کر مکئی کے بھٹے بھونتے اور فروخت کرتے۔ وہ سڑکوں پر بوٹ پالش کرتے وہ ڈرائیوری کرتے، رکشہ چلاتے اور ہر کسی کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آتے۔ اس وقت کراچی میں صوبائی اور لسانی یا مذہبی بنیادوں پر کوئی تفریق نہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی بولنے والا سندھی بھول کر پٹھان پشتو چھوڑ کر پنجابی اپنی زبان کو اجنبی بنا کر صرف اور صرف اردو بولتے تھے اور کراچی کے کلچر میں رنگ جاتے تھے اور جب وہ سال دو سال کے بعد اپنے اعزا و اقربا کے پاس پنجاب، سرحد، بلوچستان اور اندرون سندھ جاتے تو ان کے عزیزوں کیلئے انہیں پہچاننا تک مشکل ہو جاتا۔ بعض صورتوں میں تو دوسرے صوبوں اور اندرون سندھ سے آئے ہوئے لوگ یہاں رشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب سے یہاں تعصب و نفرت کی آگ بھڑکی یا بھڑکائی گئی ہے اس وقت سے اس شہر کا امن تہ و بالا ہوگیا ہے۔ نفرت کی اس آگ میں کیسے کیسے گلہائے سرسبز جل کر راکھ ہوگئے۔ حکیم محمد سعید کراچی میں ہی نہیں سارے پاکستان میں بے حد مقبول تھے۔ انہیں اس شہر کراچی میں شہید کردیا گیا جس شہر کو انہوں نے علم و حکمت کے موتیوں سے مالا مال کیا تھا اور شہر میں ایک بہت بڑی دانشگاہ قائم کی تھی۔ جناب صلاح الدین ایڈیٹر ہفت روزہ تکبیر کو بھی نہایت بیدردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے صدر سہروردی بھی شہید کردیئے گئے۔ اسی طرح جماعت اہل سنت و الجماعت کے 52رہنمائوں اور کارکنوں کو بم مار کر شہید کردیا گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ کب تلک روشنیوں اور رونقوں کا شہر کراچی مقتل بنا رہے گا۔ اپنے ہر کام کے اختتام پر میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کالم میں زیر بحث مسئلہ کا حل بتائوں۔ مشکل سے نکلنے کا راستہ سمجھائوں خوفناک اور کربناک حقائق کے پرپیج راستوں میںآپ کو بھٹکتا نہ چھوڑ جائوں۔ مگر سچ پوچھئے تو میرے پاس کراچی کے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ اس بے بسی کا سبب یہ ہے کہ میرے سمیت اکثر کالم نویس اور تجزیہ نگار پورا سچ بولنے کو تیار نہیں اور آدھا سچ بولنے سے مرض کی درست تشخیص ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا کافی و شافی علاج تجویز کیا جاسکتا ہے۔کراچی کے مسئلے کا میرے پاس تو کوئی حل نہیں البتہ سندھ کے وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا کے منہ سے جوشِ جنوں میں سچی بات نکل گئی ہے اور ان کا تجزیہ بڑی حد تک حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں جب حالات درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو سیاسی بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ سیاسی مقاصد کیلئے ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دن سے ڈرو جب حالات زیادہ بگڑ جائیں گے اور انہیں درست کرنے کیلئے کوئی ہم سے زیادہ طاقتور آجائیں گے اور سب کو ڈنڈے سے چلائیں گے۔
ذوالفقار علی مرزا نے شہر آشوب سے نجات کا نسخہ بھی تجویز کیا ہے انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے تمام اراکین قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ وہ جرائم میں ملوث نہیں ہوں گے اور نہ ہی جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کریں گے تو جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مجھے نہیں معلوم کراچی کی متحارب پارٹیاں ذوالفقار مرزا کے تجویز کردہ حل پر آمناً و صدقنا کہیں گی یا نہیں۔ میں تو بس سلیم طاہر کے الفاظ میں اتنا جانتا ہوں…؎
لاکھ بندش پر بھی کھلتی ہیں زبانیں طاہر
چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

بشکریہ نوائے وقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

Post by شازل »

سب ہی جانتے ہیں کہ دہشت گرد کون ہیں
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
(اسمبلی کے تمام اراکین قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ وہ جرائم میں ملوث نہیں ہوں گے)
میرے خیال سے دنیا کے ہرملک جہاں "مذہب" کو مانا جاتا ہے. وہاں پر اسمبلی پارلیمنٹ میں نئے داخل ہونے
والے اس سے ملتا جلتا حلف لے کر ہی داخل ہوتے ہیں
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

Post by رضی الدین قاضی »

مسلمان کو قسم کھانے کی ضرورت ہی نہیں، اگر وہ صحیح مسلمان ہیں۔
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا

Post by اعجازالحسینی »

شازل wrote:سب ہی جانتے ہیں کہ دہشت گرد کون ہیں
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قاتلوں کو سب جانتے ہیں‌‌ پھر بھی انکو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کرتے ہیں
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “پاک وطن”