“گلاب خواہش“ احمد منظور
-
- کارکن
- Posts: 18
- Joined: Sat May 31, 2008 2:11 pm
“گلاب خواہش“ احمد منظور
[center][
گلاب خواہش
فضا میں چاروں طرف دھواں ہی دھواں بھرا تھا
سبھی مناظر تھے خواب منظر
کہ جن کو دیکھیں تو جی میں آئے
کہ ہاتھ اپنے بڑھاکے چھولیں
مگر بڑھے جب بھی ہاتھ میرے تو میں نے دیکھا کہ خواب منظر
مری پہونچ سے ہیں دور اتنے کہ جتنا دھرتی سے آسماں ہے
گمان گذرا
گمان گذرا یہ خواب پیہم عذاب شاید کبھی نہ ٹوٹے
مگر تبھی اس زمیں کے سینے میں نرم خواہش نے سر ابھارا
گلاب مہکے، اے کاش کوئی گلاب مہکے
زمیں کے سینے کی نرم خواہش نے روپ دھارا
گلاب مہکا، شتاب مہکا، شباب مہکا
فضا کاسارا دھواں،دھویں کی گھٹن،گھٹن کی تمام تر سازشوں
کے پردوں کو چاک کر کے وہ نور نکلا کہ جس نے دھرتی سے آسماں تک تمام مہتابیاں کھلادیں
گلاب کانٹوں پہ کھل رہا تھا
مگر لبوں پر وہ موہنی مسکراہٹوں کی حسین پریاں سجا رہا تھا
گلاب مظہر روایتوں کا
گلاب گلشن کا پاسباں تھا
وہ راہبر تھا، وہ رہنما تھا
جو اب بھی دنا میں چلنے والی ہوا کی سانسوں میں گونجتا ہے
جو اب بھی کھیتوں میں اگنے والی ہر ایک بالی سے جھانکتا ہے
یہ دیکھتا ہے کہ اب بھی گلشن فضا میں چاروں طرف
دھواں ہی دھواں بھرا ہے
میں سوچتا ہوں کہ کاش میری بھی خواہشیں روپ دھار سکتیں
تومیں بھی کہتا
گلاب مہکے، شتاب مہکے، شباب مہکے
اے کاش کوئی گلاب مہکے۔[/center]
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)
Re: “گلاب خواہش“ احمد منظور
بہت خوب جناب احمد منظور صاحب !احمد منظور wrote:
[center][
گلاب خواہش
فضا میں چاروں طرف دھواں ہی دھواں بھرا تھا
سبھی مناظر تھے خواب منظر
کہ جن کو دیکھیں تو جی میں آئے
کہ ہاتھ اپنے بڑھاکے چھولیں
مگر بڑھے جب بھی ہاتھ میرے تو میں نے دیکھا کہ خواب منظر
مری پہونچ سے ہیں دور اتنے کہ جتنا دھرتی سے آسماں ہے
گمان گذرا
گمان گذرا یہ خواب پیہم عذاب شاید کبھی نہ ٹوٹے
مگر تبھی اس زمیں کے سینے میں نرم خواہش نے سر ابھارا
گلاب مہکے، اے کاش کوئی گلاب مہکے
زمیں کے سینے کی نرم خواہش نے روپ دھارا
گلاب مہکا، شتاب مہکا، شباب مہکا
فضا کاسارا دھواں،دھویں کی گھٹن،گھٹن کی تمام تر سازشوں
کے پردوں کو چاک کر کے وہ نور نکلا کہ جس نے دھرتی سے آسماں تک تمام مہتابیاں کھلادیں
گلاب کانٹوں پہ کھل رہا تھا
مگر لبوں پر وہ موہنی مسکراہٹوں کی حسین پریاں سجا رہا تھا
گلاب مظہر روایتوں کا
گلاب گلشن کا پاسباں تھا
وہ راہبر تھا، وہ رہنما تھا
جو اب بھی دنا میں چلنے والی ہوا کی سانسوں میں گونجتا ہے
جو اب بھی کھیتوں میں اگنے والی ہر ایک بالی سے جھانکتا ہے
یہ دیکھتا ہے کہ اب بھی گلشن فضا میں چاروں طرف
دھواں ہی دھواں بھرا ہے
میں سوچتا ہوں کہ کاش میری بھی خواہشیں روپ دھار سکتیں
تومیں بھی کہتا
گلاب مہکے، شتاب مہکے، شباب مہکے
اے کاش کوئی گلاب مہکے۔[/center]
امید ہے آپ اس فورم کے لیئے ایک بہترین اصافہ ثابت ہونگے۔
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
بہت خوب احمد منظور بھائی اردونامہ پر آتے ہیں ایک نہایت عمدہ طریقہ سے اپنے کلام کو پیش کرکے آپ نے اپنا ادبی قد ہم پر واضح کر دیا۔ بہت خوب نظم ہے امید ہے کہ اپنی ادبی تخلیقات سے مزید بھی نوازتے رہیں گے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)