محرم آ گیا، اب تو شرم کرو

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
سید شاہ رُخ کمال
کارکن
کارکن
Posts: 18
Joined: Fri Dec 03, 2010 11:04 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستانی
Contact:

محرم آ گیا، اب تو شرم کرو

Post by سید شاہ رُخ کمال »

یہ مضمون پچھلے سال لکھا گیا تھا. اصل مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں.

رسول اللہ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ارشاد فرما دیا تھا کہ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ کبھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بغض نہیں رکھے گا اور منافق کی یہ نشانی ہے کہ وہ ہمیشہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بغض رکھے گا۔ ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اہل بیت اور آلِ محمد کی محبت میں مرا وہ مومن اور شہید مرا اور وہ شخص جو اہلِ بیت اور آلِ محمد کے بغض میں مرا وہ کافر اور کافر کی موت مرا۔

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہُ العزیز اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

حبّ حیدر کا عوضانہ جنت

بغضِ حیدر ہے دوزخ کنارے

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جتنے ظلم و ستم اہل بیت اور آلِ رسول نے سہے، شاید ہی کسی اور مسلمان نے سہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ ظلم ہمیشہ ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کے ذریعہ سے ہی ملا۔ غیر مسلم کہ جس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ نبیء اسلام کی آل کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں وہ تو ہمیشہ سے ہی اہلِ بیت اور آل محمد کا احترام کرتے رہے۔ کبھی اہلِ بیت پر اُمویوں کے ظلم تھے تو جو عباسی یہ علم اٹھا کر آگے آئے کہ ہم نے اہلِ بیت پر ہوئے مظالم کا بدلہ لینا ہے، اُن کا اپنا کردار کیا رہا؟ جب تخت و تاج مل گیا تو خود عباسی ہی آلِ محمد کو ذبح کرنے شروع ہو گئے۔ لوگ تو سوچتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے ساتھ ہی اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی بھی پوری ہو گئی اور ذبح ہونا بھی پورا ہو گیا۔ یہ کہنا تو ٹھیک ہے کہ قربانی تو پوری ہو گئی مگر اُس قربانی کے بعد بھی مسلمان آلِ محمد کو ذبح کرنے سے باز نہ آئے۔ اب مجھے یہ تو سمجھاؤ کہ بنی اسرائیل اور مسلمانوں میں کیا فرق رہ گیا؟ بنی اسرائیل کا عمل اگر یقتلون النبیین بغیر الحق تھا تو مسلمانوں کا عمل یقتلون آل النبی الامی و الصالحین بغیر الحق رہا۔

جب کوئی قصرِ ستم آراء بنا

خون سے سادات کے گارا بنا

جس طرح دنیا دن بہ دن قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس میں برائی پھیل رہی ہے اُسی طرح دنیا میں بغضِ حیدر بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ خواہ جمرات حقیقت میں شیاطین تو نہیں مگر وہ حقیقی شیاطین کے بارے میں ضرور آگاہی دیتے ہیں۔ جس طرح دنیا میں برائی بڑھتی جا رہی ہے اُسی طرح جمرات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی جمرات ایک ستون کی مانند ہوتے تھے جبکہ آج کل انہیں بہت لمبا اور چوڑا کر دیا گیا ہے۔ اس سال جمرات پانچ منزل تک پہنچ گئے تھے جبکہ یہ جمرات اگلے سال تک مکمل ہو کر سات منزلہ بن جائیں گے۔ تو در حقیقت یہ جمرات کا بڑھنا بھی معاشرے میں برائی کے بڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔

میرا تو شاید یہ سب لکھنے کا ارادہ ذرا بھی نہ تھا مگر چند وجوہات کی بنا پر اپنے قلم کو حرکت دینی ہی پڑی۔ محرم کی آمد سے قبل ماہِ محرم الحرام پر بے شمار مضامین لکھے جاتے ہیں۔ محرم الحرام چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ یوں تو اِس کی اہمیت بنی اسرائیل کے نزدیک بھی بہت ہے مگر مسلمانوں میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بنی اسرائیل عشورہ کے دن کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح کی خوشی میں عید مناتے ہیں اور حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں یہودی اس دن روزہ بھی رکھا کرتے تھے۔ اسلام میں اس مہینے کی اور خصوصاً عشورہ کی بہت اہمیت ہے۔ اس کی فضیلت کے بارے میں مورخین اور علماء نے بہت کچھ لکھا اور کہا۔ عشورہ کا دن خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مگر جو لوگ آلِ اُمیہ ہونے کے ناطے بغضِ اہلِ بیت و آلِ محمد اپنی فطرت اور وراثت میں حاصل کرتے ہیں ان کے لیے یہ دن بہت ہی بھاری گزرتا ہے۔ اگر ان کے ہاتھ میں قلم آ جائے اور تھوڑا علم آ جائے تو اِس علم کے نشے میں مست وہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن بہت واضح الفاظ میں منع فرماتا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ شہید کو مردہ کہنا بلکہ مردہ سمجھنا بھی قرآن نے واضح الفاظ سے منع فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں تک فرمایا گیا کہ وہ زندہ ہیں اور تمہیں شعور نہیں اور انہیں اپنے رب کی طرف سے رزق بھی ملتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات۔ بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ تو دوسری جگہ ارشاد فرمایا ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا۔ بل احیاء عند ربھم یرزقون۔ پہلے تو مسلمانوں نے ہی انہیں شہید کر دیا اور پھر آج ان کی شہادت سے بھی انکار ہو رہا ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے بڑوں کو حضرت یزید رضی اللہ عنہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ افسوس تو ہمیشہ اسی بات کا رہا ہے کہ جب بھی آلِ محمدﷺ کو ذبح کیا گیا تو کسی غیر مسلم نے نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمانوں نے کیا۔

چلو حسین کی تقلید بھی کرے کوئی

کہ صرف سوگ منانے سے کچھ نہیں ہو گا

اٹھو کہ ہم بھی جھکا دیں کسی یزید کا سر

لہو کے اشک بہانے سے کچھ نہیں ہو گا

اے مسلمانو کیا تمہیں اب بھی شرم آتی ہے یا نہیں؟ کیا تم اتنی ہمت رکھتے ہو کہ اپنے زمانے کے یزید کے سامنے خادمِ حسین علیہ السلام بن کر دکھاؤ؟ ارے حسین علیہ السلام بننا تو بہت دور کی بات ہے کہ وہ سبطینِ رسول ﷺ میں سے ایک تھے، اگر آج کسی مسلمان میں تھوڑی سی غیرت بھی زندہ ہے تو حسین علیہ السلام کے خادموں کے ہی خادم بن کے دکھاؤ۔ خادمِ حسین علیہ السلام نہ سہی، خادمِ حُر ہی بن کے دکھا دو۔ حُر کی طرح اگر پہلی زندگی مسلمان ہو کر بھی جہالت میں گزر گئی ہے تو اب ہی حسینی بنو اور اسلام کے لیے کچھ کرو۔ پرانے قصوں کو یاد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اپنے باپ دادا کی شجاعت پر بنی اسرآئیل کی طرح ناز کرنا چھوڑو اور اپنے باپ دادا کی طرح بن کے دکھا دو۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں؟

اور خطاب بہ جوانانِ اسلام میں فرماتے ہیں

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
سیّد شاہ رُخ کمال
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: محرم آ گیا، اب تو شرم کرو

Post by علی عامر »

جزاک اللہ بھائی۔

اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔‌آمین۔
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: محرم آ گیا، اب تو شرم کرو

Post by رضی الدین قاضی »

جزاک اللہ
[center]Image[/center]
Post Reply

Return to “اردو کالم”