نغمہ ہے تیرا خام ابھی..

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

نغمہ ہے تیرا خام ابھی..

Post by علی عامر »

تخلیق قلب وجگر سے پھوٹتی ہے ۔ سچائی اور سچائی کو سینچنے والا صبر ، پیہم غور و فکر۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں۔ دانشوروں کی بات دوسری ہے ۔ انکی رائے ممکن ہے کہ مختلف ہو۔
ایک دلٓاویز تحریر کیسے لکھی جاتی ہے ؟ اس سوال کا مکمل جواب کبھی نہ دیا گیا۔ ایک ریڈ انڈین قبیلے کے سردار کا خط تاریخ نے محفوظ رکھاہے۔ امریکہ کے ایک کروڑ قدیم باشندوں کو قتل کرنے کے بعد ، جب ایک باقاعدہ حکومت بن چکی ۔ امریکی صدر نے جب زخموں سے چور قبیلے کے سربراہ کو خط لکھا: اب باقی ماندہ زمینیں ہم ادائیگی کر کے خریدیں گے ۔ سیٹل اس سردار کا نام تھا۔ زمین سرکار کے حوالے کرنے کی پیشکش کے ساتھ جس نے جوابی خط لکھا۔
بتیس برس ہوتے ہیں، جب یہ تحریر پڑھی ۔ ہفتوں اس کے سحر میں گرفتار گہری نیند طالبِ علم سو نہ سکا ، جب تک ترجمہ نہ کرڈالا۔ اپنی بعض تحریریں لکھنے والے کو گوارا ہوتی اور یاد آتی ہیں ۔ کبھی میں اس عبارت کو یاد کرتا ہوں اور جملے جگنوؤں کی طرح چمکتے ہیں۔ "جنابِ صدر، عقاب کہاں ہیں؟ وہ ہجرت کر گئے۔ زندگی ختم ہوئی، اب تو محض جینا ہے۔ " "Mr. president, where are the eagles. They have gone. This is the end of life and begining of survival" " جنگلوں کی مقدس خاموشی جب آواز کی کثرت اور بھرمار سے بھر جائے گی تو سکھ کہاں رہے گا؟" "تمہارے شہروں کا شور انسانی سماعت کی توہین ہے۔ چہرے اگر تازہ ہوا کالمس محسوس نہ کریں، پتوں کے جھومنے بجنے کی آواز اگرسنائی نہ دے تو زندہ رہنے کے معانی کیا ہیں"
بیس برس ہوتے ہیں ، جب انکشاف ہوا کہ آلودگی سے ہراساں اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسیف نے دنیا بھر میں ایک مہم برپا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اللہ کی خوبصورت زمین کو آدم زاد نے اس قدر بھدّا بنا دیا۔ بحالی کیلئے اقوامِ عالم کا اتحاد درکا رہے اور کھربوں ڈالر۔ ایک صدی ہوتی ہے ، جب اپنی مشہور کتاب"Road to Macca" میں مشہور مفکر ڈاکٹر محمد اسد نے لکھا تھا ۔ ناپاکی سے بحر و بر اس طرح بھرے ہیں کہ قرآن کریم کی ایک آیت ایک اور جہت میں صادق ہوگئی" تمام خشکی اور ساری تری فساد سے بھر گئی اور یہ آدم زاد کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے " شاہکار انگریزی لکھنے والے ڈاکٹر محمد اسد سے لے کر شیکسپئر تک اور شیکسپئر سے لے کر ورڈز ورتھ تک کیسا کیسا قادر الکلام زمین کے سینے پر جیا تھا ۔ شیکسپئر ، جس کے بارے میں اقبال # نے کہا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
اور ورڈز ورتھ کے بارے میں تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ برطانیہ کی جھیلوں اور مرغزاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نے مصّور کر دیا ۔ انتخاب کا مگروقت آیا تو اس جنگلی ریڈ انڈین کی تحریر دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمے کے لیے چنی گئی، جس نے صرف ایک عبارت لکھی تھی ، دکھے ہوئے دل سے فقط ایک خط۔ دل سے جو بات نکلتی ہے ، اثر رکھتی ہے ۔ صرف اللہ نہیں ، بندوں کی بارگاہ میں بھی۔ ابلیس لعین نے ، جو کروڑوں برس سے آدمی کو جانتا تھا، روزِ ازل جب اللہ سے یہ کہا کہ وہ اس کے سارے بندوں کو گمراہ کر دے گا تو پروردگارِ عالم کا جواب یہ تھا "مگر میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے" … خلوصِ ، جنابِ والا خلوص!
خشک ڈھیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعہءِ تر کی صورت
اور اس عظیم شاعر میر تقی میر# نے کہا تھا۔
ہم کو شاعر نہ کہو میر# کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
کوئی عبارت فقط ہنر مندی نہیں ہوتی۔ اگر ہو تو اعتبار نہ پائے گی،مر جائے گی۔ آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں۔ سعود ساحر سے پوچھیے ،ساحر لدھیانوی کہاں ہیں ؟ جوش ملیح آبادی کیا ہوئے اور احمد فراز ایک عشرے بعد کہاں ہوں گے۔ فیض احمد فیض# باقی رہیں گے کہ وہ اشتراکی شاعر نہ تھے بلکہ شاعر۔
دو ماہ قبل فاروق عادل کا نیا سفر نامہ "ایک آنکھ میں امریکہ "میں نے پڑھنا شروع کیا تو سچی بات ہے کہ بے دلی سے ۔ میں ایک بہت اہم کتاب پڑھ رہا تھا ۔ راجہ انور کی "قبر کی آغوش میں " "کابل کے پلِ چرخی میں گزرے ہوئے مہ و سال۔ تعصبات سے اوپر اٹھ کر راجہ صاحب نے پتہ ماری کی ہے۔ عدل اور شگفتگی کو برقرار رکھنے کی آرزو میں جگر لہو کیا ۔ موضوع مگر ایسا ہے کہ درد بے طرح جاگ اٹھتا ہے ۔ اس دوران اچٹتی سی نگاہ سفر نامے پر ڈالی لیکن پھر رہائی نصیب نہ ہو سکی۔ پہلا جملہ ہی قاتلانہ "سحری کے بعد کی نیند تھی اور وہ کوئی خواب تھا " دو صفحات مزید پڑھے تو نکتہ آشکار ہو گیا ۔ مصنف کہتا ہے کہ برسوں گزر جانے کے باوجود سعودی عرب کا سفر نامہ وہ نہ لکھ سکا کہ "اس سفر کی کہانی تخلیق بن کر مجھ پر اتری نہیں " کوئی کہانی تخلیق کیسے بنتی ہے ۔ اس سوال کا جواب تاریخ کے سب سے بڑے شاعر نے دیا تھا
نغمہ ہے بلبل ِشوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
مختار مسعود نے انقلابِ ایران کا احوال ایک عشرے بعد لکھا تھا ۔ انیس# اپنی غزل ایک ماہ سے پہلے کسی کو سناتے نہ تھے ۔ عربوں کے جس شاعر کو فاروقِ اعظم سب شاعروں سے بڑا شاعر کہتے تھے، اس کا دوسرا نام شاعرِ یک سالہ ہے ۔ ایک برس بعد اپنا کلام سنانے والا۔ ہمارے عہد کا سب سے بڑا نثر نگار مشتاق یوسفی برسوں سے ایک کتاب کی پال ڈالے بیٹھا ہے۔مجھ سے یوسفی صاحب نے پوچھا : چالیس منٹ میں تم کیسے کالم لکھ ڈالتے ہو۔ عرض کیا: انشا پردازی نہیں ، یہ نوکری ہے۔فاروقِ اعظم کے ہاں، اتفاق سے زہیر# اور اس کے ممدوح کے فرزند یکجا ہو گئے۔ فرمایا : تمہارے باپ کی مدح میں زہیر خوب کہتاہے۔ انہوں نے کہا : امیر المومنین ، ہم صلہ بھی خوب دیتے تھے۔ ارشاد کیا: جو کچھ تمہارے باپ نے اس کے باپ کو دیا ، وہ فنا اور فرسودہ ہو گیا ، جو شاعر نے سردار کوعطا کیا ، وہ ہمیشہ باقی رہے گا" پھر اصول بتا دیا ۔ زہیر# نے اپنے ممدوح سے کبھی کوئی ایسا وصف منسوب نہ کیا ، جو اس میں موجود نہ تھا۔ مقتدرہ کے دفتر میں ، افتخار عارف موتی کی طرح دمکتے تھے، انکے جانشین کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں۔ڈاکٹر خورشید رضوی ہوتے ، اظہار الحق ہوتے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو مگر کون سمجھائے کہ بعض مناصب میں اقربا پروری صرف بددیانتی نہیں بلکہ پرلے درجے کی بدذوقی بھی ہوتی ہے۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہء گل
یہی ہے فصلِ بہاری ، یہی ہے بادِ مراد؟
بلبلِ شوریدہ، یہ کالم نگار سلیم صافی کا نیا نام ہے ۔ سلیم صافی قابلِ اعتبار صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ گاہے زبان پر قابو اور الفاظ پر گرفت مگر نہیں رہتی ۔ لکھنا کچھ اور چاہتے ہیں ، لکھ کچھ اور ڈالتے ہیں۔ اس ناچیز کو وہ خوب جانتے ہیں اور میں ان کو ۔ ان کی رائے سے اتفاق ہمیشہ نہیں ہوتا مگرمیں جانتا ہوں کہ کارندہ وہ نہیں۔ کل کے کالم میں بعض خوشہ چینوں کے ساتھ میرا ذکر کیا۔ پوچھا تو بولے: تکان کا مارا ، میں مزار شریف سے آیا تھا، میری مراد یہ ہرگز نہ تھی، ہو بھی کیسے سکتی تھی ۔ میں جانتا تھا۔ عرض کیا! کالم کے آخر میں ایک نوٹ میں نے پہلے ہی لکھ دیا ہے اور ٹھیک یہی نکتہ ۔ تعجیل اور تکان میں لکھنا ہی نہ چاہئے۔ ایک موزوں ، متوازن ذہنی کیفیت ہی نہیں ، اظہارِ خیال انہماک کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ میر# صاحب نے کہا تھا
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہو ں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
تخلیق قلب وجگر سے پھوٹتی ہے ۔ سچائی اور سچائی کو سینچنے والا صبر ، پیہم غور و فکر۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں۔ دانشوروں کی بات دوسری ہے ۔ ان کی رائے ممکن ہے کہ مختلف ہو۔

بشکریہ ۔ روزنامہ جنگ
کالم نویس ۔ ہارون الرشید
31-جولائی-2011ء
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: نغمہ ہے تیرا خام ابھی..

Post by پپو »

شکریہ بھائی جی
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: نغمہ ہے تیرا خام ابھی..

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”