وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں...

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں...

Post by علی عامر »

پھر اللہ کے آخری رسول کا وہی فرمان :کوئی اس دنیا سے اٹھے گانہیں ، جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے۔
میرے بس میں ہوتا تویہ کالم نہ لکھتا ۔ سلیم صافی کو فون کرتا۔ میر# کے دو اشعار سناتا اور گھر سے متصل چمن میں میجر عامر کے ساتھ اسے کھانے کی دعوت دیتا ۔ ایک شرط پر : تیس منٹ تک طنز گفتاری سے وہ گریز کرے گا، آخری بار جس کا مظاہرہ اس نے مری میں قائد اعظم ثانی کی مجلس میں کیا اور ایسا کہ یاد رہے گا۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ کم از کم گھنٹہ بھر اس کا خطاب مجھے سننا پڑتا ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت ، کب کون اس سے بچا ہے ۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
"خدائے سخن " ، میر تقی میر کے وہ دو اشعار!
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں ، پھول کھلے ہیں ، کم کم بادوباراں ہے
کم کم نہیں ، بے حساب ہے۔
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس روز "سرِ شام" ہی مجلس تمام کر دی ، شب کے ساڑھے بارہ بجے ہی۔ کہا: ایک اورمیٹنگ میں جانا ہے۔ جواں سال اور بے تاب صحافی نے کہا: ایک چھوٹی سی بات مگر سن لیجئے۔ دس منٹ گزر چکے تھے اور چھوٹی سی بات جاری تھی۔ کہا "تیسرا نکتہ یہ ہے " ۔۔۔ جنرل اطہر عباس بولے: ہے تو خیر آٹھواں مگر تیسرا ہی سہی۔ تازہ کالم میں ، کوہِ مری کی مجلس کا موقف انہوں نے قلم بند کیا ہے اور اس مفروضے پر کہ عمر بھر کی عادت ترک کر کے میاں محمد نواز شریف مد ظلہ العالیٰ اب اصولی سیاست کا آغاز کریں گے۔ پنجابی زبان کے بے مثال شاعر وارث شاہ نے یہ کہا تھا۔
وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں
بھانویں کٹیے پوریاں پوریاں جی
فرمانِ رسول عبقری کے پیش نظر تھا : اگر کوئی کہے کہ کوہ ِ احد اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو اس کی بات مانو مگر اس کی مت مانو جو کہے کہ فلاں کی عادت بدل گئی ہے ۔ ارشاد کیا تھا : تم میں سے اچھے وہ ہیں ، جو عہدِ جاہلیت میں بھی بہتر تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق عہدِ نبوی سے قبل بھی مسافروں کے پناہ دہندہ ، مفلسوں کے سرپرست ، مظلوموں کے دست گیر اور زخم خوردوں کا مرہم تھے۔ سیدنا عثمان تب بھی صداقت شعار اور دریا دل تھے۔ علمی ، عسکری اور انتظامی اعتبار سے جینئس فاروقِ اعظم تب بھی آزاد تھے۔ سب امکانات شخصیت میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور تضادات بھی ۔ تضاد سے نجات وہ پاتا ہے ، جو اپنی اصلاح کے درپے ہو ، وہ نہیں جس پر وحشت سوار ۔ سرکار کا فرمان یہ ہے اور انہی کا فرمان اعلیٰ اور افضل ہے کہ اللہ جسے ہدایت دینا چاہے ، اس کی آنکھ اپنے آپ پر کھول دیتا ہے … باقی صحبتِ سعید ہے ، علم کی جستجو اور اپنے آپ کے خلاف ایک دائمی جنگ کا آغاز۔ میاں محمد نواز شریف دوسروں کے عیب تلاش اور بیان کر سکتے ہیں ، خود اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی مان نہیں سکتے۔ دعویٰ نہیں ، اندازہ ہے ، سلیم صافی مگر کسی کاغذپر لکھ لیں کہ عمران خان کے خلاف وہ کردار کشی کی منظم مہم چلائیں گے ، اپنے سب کارندوں کو اس میں جھونک دیں گے ۔یہ بھی لکھ رکھیں کہ اس مہم کا سارا فائدہ کپتان کو پہنچے گا، جس طرح کہ انیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں محمد علی جناح اور ساتویں میں ذوالفقار علی بھٹو کو پہنچا تھا۔ فرق یہ ہے کہ عمران خان قائد اعظم کی پیروی نہ کرے گا کہ ان کا وہ عشیر بھی نہیں۔ بھٹو بھی وہ نہیں مگر فاسٹ بالر ہے ۔ تھوڑا سا ضبط اس نے پیدا کر لیا ہے ۔ گالی وہ ہرگز نہ دے گا اور داستان وہ تراش نہیں سکتا مگر منہ پھٹ ہے ۔ نواز شریف نہیں کہ گالیاں کھا کر حریف سے مصالحت کر لے اور جھک جائے۔ دیانت دار ایسا کہ بھاڑے کے سارے ٹٹو مل کر بھی اسے بد دیانت ثابت نہیں کر سکتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہار ماننا اس نے سیکھا ہی نہیں ۔ پشاور ، کراچی اور ملتان کے بعد فیصل آباد میں ایسا جلسہ اس نے کیاہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ میڈیا ابھی تک اس سے بے نیازہے اور خود اسے بھی میڈیا کی اہمیت کا ادراک نہیں ۔ایک بات میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں: وسائل اگر بہم ہوتے تو طارق چوہدری دھوبی گھاٹ میں ، جو لاہور کے موچی دروازے سے ٹھیک چار گنا بڑا ہے ، بیس ہزار کی بجائے آسانی سے دو لاکھ آدمی جمع کر دیتے۔ لاہور کی تحریکِ انصاف البتہ نہیں کر سکتی۔ طارق کو تین ماہ کے لیے لاہور سونپ دیا جائے تو نومبر کے خوشگوار موسم میں ، مینار ِ پاکستان پر تین لاکھ کے اجتماع کو وہ اور انکے ساتھی ممکن بنا سکتے ہیں ۔ تجزیوں پر نہیں ، مشوروں پرنہیں ، آدمی اپنی افتادِ طبع پر جیتا ہے ، سلیم صافی ! اپنی افتادِ طبع پر۔ ہماری اور تمہاری بات ماننا ہوتی تو متحدہ مجلسِ عمل والے مان لیتے، جوتیوں میں دال نہ بانٹتے۔ تمہاری اور ہماری ماننا ہو تو اے این پی والے مان لیں اور رسوا ہونے سے محفوظ رہیں۔ آصف علی زرداری مان لیں ، سفاکی کیساتھ بروئے کار آنیوالی حیلہ جوئی کی بجائے اللہ کی مخلوق پر رحم کریں اور خود اپنے آپ پر بھی ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی کی طرف وہ لپک رہے ہیں جیسے دریائے سندھ کا پانی کراچی کو ۔ آزاد کشمیر ہی کو لیجئے۔ ساری بساط اس طرح انہوں نے بچھائی ہے کہ اسلام آباد میں حکومت اگر ختم ہو جائے تو گلگت بلتستان اور سندھ کے علاوہ یہ بھی مضبوط پناہ گاہ کا کام دے ، وسائل کی فراہمی اور سیاسی مورچے کا۔ منصوبے کی بنیاد ہی مگر خام ہے ۔ صدر بننے سے پہلے ایک معتبر اخبار نویس سے انہوں نے پوچھا تھا"رکاوٹ کیا ہوگی؟" جواب ملا "جج اور جرنلسٹ"فرمایا"خرید لیں گے" … نواز شریف سے ججوں کی بحالی کا پیمان کیا اور اسی وعدے پر احسن اقبال سمیت بارہ عدد وزیر ان کے لئے ، جس کی گردن میں اتفاق سٹیل مل کا کمزور سریا ہے ۔ بعد میں صاف مکر گئے کہ وعدہ کیا قرآن ، حدیث ہوتا ہے ۔ باقی تاریخ ہے ۔
لندن میں نواز شریف اور اسلام آباد میں آصف علی زرداری نے بیرسٹر سلطان محمود کو وزیر اعظم بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ میاں صاحب نے پہلے اور زرداری صاحب نے بعد میں۔ بیرسٹر نے غلطی کی کہ محض پیغام رساں منظور وٹو پر بھروسہ کر کے اپنی آدھی پارٹی کھو دی۔ نواز شریف پہلے مکر گئے تھے ۔ اتنی شرم ان میں بہر حال تھی کہ اب راجہ فاروق حیدر سے وعدہ کیا تو بیرسٹر کو پارٹی میں لیا ہی نہیں۔ تنگ آکر وہ پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ اترسوں تک وہ پر امید تھے۔ مجھ سمیت اخبار نویسوں نے صورتِ حال سے انہیں آگاہ کر دیا تھا ۔ یہ کہ وزیر اعظم چوہدری مجید بنیں گے ، جو حلف اٹھانے کے بعد پہلے گڑھی خدا بخش اور پھر مدینہ منورہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ آسانی سے اب وہ صدر بھی نہیں بن سکتے کہ چوہدری مجید بھی جاٹ ہیں۔ امکان ہے کہ چوہدری یٰسین سینئر وزیر بنائے جائیں گے ۔ وزیر اعظم پاکستان کا عمل دخل نہ ہوگا۔ ایوانِ صدر سے منظور وٹو اور ان دونوں کے ذریعے کاروبارِ سرکار چلے گا اور ٹھیک پاکستان کی طرح۔ بیرسٹر کو ناراض کر کے آزاد کشمیر کی سیاست میں ٹائم بم لگا دیا گیا ہے ۔ اگر اسلام آباد میں زرداری حکومت ختم ہوئی ( اور میں صافی سے متفق ہوں کہ برطرف نہ کی جانی چاہئے) تو زرداری صاحب پر کھلے گا کہ اسلام آباد اور مظفر آباد کا موسم ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے ۔ چوہدری مجید وفاداری کا دعویٰ بہت کرتے ہیں اور شاید رہیں بھی ۔ 1985ء میں مگر وہ بغاوت کر کے بھاگ گئے اورآزاد امیدوار بنے تھے ۔ وفادار رہنے کا امکان تو ہے ۔ اس کے سوا مگر کوئی زادِ راہ نہیں۔ تنگ دل ، آمدن کے کسی بھی باقاعدہ ذریعے سے محروم ، سرکاری زمینیں الاٹ کرنے کے الزامات۔ کشمیر کے خود پسند اور ہنر مند سیاستدان بالخصوص جہاندیدہ بیرسٹر ان کے پاؤں زمین پر نہ لگنے دیں گے۔ بیرسٹر ایک زبردست سیاستدان ہے ۔ کرپشن کا الزام اس پر نہیں۔ ریاضت کا ہنر وہ رکھتا ہے ۔ قبائلی تعصب اس میں نہیں۔ ادھر فاروق حیدر ہے ۔ زبان پر قابو اسے نہیں مگر ساکھ بہت ، دلیر بے حد۔
بچے ہیں جو کھلونوں سے کھیل رہے ہیں۔ آزاد کشمیر ہی نہیں ، پاکستان میں بھی۔ بیرسٹر ، چوہدری یٰسین ، چوہدری مجید ، سردار سکندر حیات، میاں محمد نواز شریف ، الطاف حسین ، اسفند یار ولی خاں اور پاکستان کے نیلسن منڈیلا جناب آصف علی زرداری۔ پاکستانی سیاست کا یہ عبوری دور ہے ، جسے تحلیل ہو کر اس عہد کی بنیاد رکھنی ہے جس کی بنا پائیدار ہو گی ۔ اللہ کے قوانین کبھی نہیں بدلتے ۔
یہ ریاکاروں کے منکشف ہونے کا موسم ہے ۔ جیسا کہ اللہ کی کتاب کہتی ہے ، بعض کو بعض کے ذریعے تباہ کر دیا جائے گا۔ خدا کی قسم نواز شریف ہرگز ایک اپوزیشن لیڈر نہیں ۔ عوام سے زیادہ ان کی ہمدردیاں آصف علی زرداری کے ساتھ ہیں۔ عوام سے تو وہ ناراض ہیں 12اکتوبر 1999ء کو جو میدان میں نہ نکلے اور ان کی خاطر سینوں پر گولیاں نہ کھائیں۔ قو م سے تو وہ بدلہ لے رہے ہیں ، زرداری صاحب کی خفیہ حمایت کر کے ۔اللہ کے آخری رسول کا فرمان یہ ہے "کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں ، جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے۔

کالم نویس: ہارون الرشید
بشکریہ: روزنامہ جنگ
27-جولائی-2011ء
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں...

Post by پپو »

شکریہ بھائی جی
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں...

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے شکریہ r;o;s;e
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں...

Post by شازل »

واہ
عمران الرشید
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”