یومِ مزدور کے حوالے سے خصوصی تحریر

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

یومِ مزدور کے حوالے سے خصوصی تحریر

Post by علی عامر »

آج کے دور میں کوئی ایسا بھی ہے جسے کسی دوسرے سے گلہ، رنجش یا شکایت نہ ہو؟ ان شکوؤں‌سے رشتوں کی مضبوط دیواروں میں‌دراڑٰیں‌پڑ‌رہی ہیں۔ باہمی تعلق کے گلستان اجڑ‌رہے ہیں۔ رگوں میں‌محبت کی مٹھاس کی جگہ تلخی کا زہر اتر رہا ہے۔ خوشیاں‌بانٹنے والے اب دکھ کا باعث بن رہے ہیں۔ اختلاف، جھگڑے اور رنجش کی وجہ حقوق کا غضب کیا جانا ہوتا ہے۔حقوق سے روگردانی اور ان کی پامالی سے رشتوں کے بندھن میں کمزوری اور فساد جنم لیتے ہیں۔

حقوق العباد ایک بندے پر اللہ تعالیٰ‌کی طرف سے عائد کردہ دوسرے بندوں کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کا نام ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام روش اختیار کر گیا ہے کہ کچھ لوگ حقوقِ اللہ کا تو بڑا احترام کرتے ہیں۔ لیکن وہ روزی اور مزدوری کے معاملے میں کھوٹے ہیں۔ اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہیں۔ امانت و دیانت سے عاری ہیں۔ مزدور کو اس کی مزدوری پوری طرح ادا نہیں کرتے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’‌جسے یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی اور عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی (رشتہ داروں کے حقوق) ادا کرے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں دیگر افراد کی طرح ملازم، خادم اور مزدور کے بھی اُس شخص پر حقوق ہیں جس کے تحت وہ کام کر رہا ہے۔ اِن کے حقوق کا خیال بھی بہت ضروری ہے۔

خادم، مزدور یا ملازم کو اُس کے اصل نام سے پکارا جائےیعنی خوش گفتاری کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خوش اخلاقی کا تقاضا یہ ہے کہ مالک کو چاہئے کہ وہ اپنے خادم اور اولاد کو ایک ہی سطح پر رکھے کیونکہ دونوں اس کے زیر سایہ رہتے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’‌جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم ازکم ایک یا دو لقمے اس کھانے سے کھلا دے کیونکہ اس نے کھانا پکاتے وقت اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی۔ ایک اور موقع پر آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’‌ تمہارے کچھ بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ‌نے تمہارے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ اگر کسی ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بھائی کو دیا تو اس کو چاہئے جو کچھ خود کھائے وہی اپنے مزدور یا ملازم کو کھلائے جو خود پہنے وہی اسے پہنائے۔ اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لئے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ان پر ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔ خادم اور نوکر کا بھی یہ حق ہے کہ اسے تحفظ ملازمت ہو‘‘۔

نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خادموں کے کاموں میں ان کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ اور اپنے خادموں کی کوتاہیوں‌کو نظر انداز فرما دیتے تھے۔

مزدور اور آجر کے حقوق:۔
مزدور کی جائز ضروریات سے آجر کو غافل نہیں‌رہنا چاہئے۔ یہ نہیں‌کہ خود تو وسیع و عریض محلات میں رہے اور مزدور کو سر چھپانے کی جگہ بھی نہ دے۔ یہی نہیں بلکہ آجر کو اس کے بچوں کی مناسب دیکھ بھال اور تعلیم کا انتظام بھی کرنا چاہئے۔ اجرت اتنی دی جائے کہ وہ آسانی سے اپنی زندگی بسر کر سکے۔
نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’‌مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ‌کا فرمان ہے ’’‌قیامت کے دن تین آدمیوں سے جھگڑا کروں‌گا۔
ایک اس شخص سے جس نے میرے نام پر عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا۔
دوسرا اُس شخص‌سے جس نے آزاد انسان کو فروخت کیا۔
تیسرا ۔۔۔ جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگا کر پورا پورا کام لیا اور اُسے پوری اجرت نہ دی۔

حلال روزی کی فضیلت:۔
نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہاتھ سے کام کرنے کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ اسے بہترین کسب بھی قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری میں آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’‌ کسی انسان نے اس شخص‌سے بہتر روزی نہیں‌کھائی جو خود اپنے ہاتھوں‌سے کما کر کھاتا ہے‘‘۔
ہاتھ سے کمانا، تجارت کرنا، خون پسینہ ایک کر کے حلال روزی کمانا ایک باعزت پیشہ ہے
نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے کام کرتے رہے۔قبل نبوت بارہ سال تک تجارت کی۔اسی طرح دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کا بھی یہی سلسلہ رہا۔
اللہ تعالیٰ پاکیزہ اور حلال روزی ہی قبول کرتا ہے۔ پاکیزہ اور حلال مال سے جو صدقہ و خیرات دیا جائے اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے۔ اس لئے اپنی روزی محنت اور حلال طریقہ سے حاصل کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے، خوش گوار احساس عطا کرتی ہے، کردار سازی کرتی ہے، باعزت بناتی ہے، عزتِ نفس بڑھاتی ہے، بہترین نتائج کا باعث‌بنتی ہے، صحت عطا کرتی ہے۔

مغربی مفکرین کی رائے میں دنیا میں‌سب سے زیادہ نا خوش لوگ وہ ہیں جو کچھ کرنا نہیں جانتے۔ خوشی انہیں ملتی ہے جو اپنا کام بھرپور انداز میں انجام دیتے ہیں کیونکہ اس کے بعد آرام اور تازگی کا ایک نہایت خوبصورت وقت آتا ہے۔ سچی خوشی حلال روزی سے حاصل ہوتی ہے اور وہ دن بڑا اہم ہوتا ہےجب انسان محنت و مشقت کے بعد اپنا اجر پاتا ہے۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حلال آمدنی ہماری صلاحیتوں کو جانچنے میں مدد دیتی ہے۔ حلال آمدنی اچھا انسان بنانے، صحت و آسودگی میں‌براہ راست اہم کردار ادا کرتی ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بے شمار لوگ اس سچائی سے نا واقف ہیں۔ ہم میں‌سے اکثر اپنا قیمتی وقت ہنسی مزاق اور گپ شپ میں گزار دیتے ہیں۔ یاد رکھیں وقت زندگی ہے۔ یہ جا کر واپس نہیں آتا۔ وقت ضائع کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ زندگی میں کامیابی ہمیشہ ان لوگوں کے قدم چومتی ہےجو وقت کی قدر کرتے ہوئے جائز اور حلال روزی کماتے ہیں۔

علی عامر کے بلاگ سے
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: یومِ مزدور کے حوالے سے خصوصی تحریر

Post by افتخار »

اسلام کے اصول بہت ہی لاجواب ھیں اور ہمارے معاشرےمیں ان حقوق کا بہت کم لوگ خیال کرتے ھیں۔ان کی تفصیل کچھ یوں ھے۔
مالک کا یہ شکوہ ہوتا ھے کہ اگر ان پر سختی نہ کی جائے تو یہ لوگ کام ہی نہیں کرتے اور مزدور اس کے برعکس۔
اور اگر ھم سرکاری محکموں کی بات کریں تو کیا بات ھے ہمارے معاشرے میں رزق حلال کے دعوے دار تو بہت ھیں لیکن دفتر میں ٹائم پر نہیں آتے۔
اور اگر ھم بازار کا جائزہ لیں تو لوگ کم تولتے اور قسمیں اٹھا کر سودا بیچتے ھیں اور کہتے ھیں کہ ھیمں کم ملا تھا۔

آج کے مزدور کے دن کے حوالے سے یہ کچھ الفاظ میں نے اپنی طرف سے تحریر کیے بھیا اگر کسی کو برے لگیں تو میں معافی مانگتا ہوں۔


میرا ذاتی تجربہ اگر ہر انسان قانون کی پاسداری کرنےکی کوشش کرے اور رزق حلال کمانے کی کوشش کرے تو ھم اس منزل کے قریب ھیں جو ھمیں دنیا اور آخرت میں کامیاب کر دے گی۔
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: یومِ مزدور کے حوالے سے خصوصی تحریر

Post by پپو »

Image
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”