پڑھتا جا اور شرماتا جا

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

پڑھتا جا اور شرماتا جا

Post by افتخار »

[center] پڑھتا جا اور شرماتا جا[/center]
تاجروں کے لیے دکان سجانے کی جگہ کی کمی نہیں اور خریداروں کو سستے سامان کی لالچ رکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ نیلے پیلے بستروں اور کمبلوں کا ڈھیر آپ کو اپنی جانب متوجہ کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ اور جب رکیں تو پھر وہاں موجود نوجوان پٹھان تاجر سے خالی ہاتھ جانا تقریباً ناممکن ہے۔

یہ احوال ہے مردان میں سڑک کنارے ایک عارضی بازار کا جس پر وہاں سے گزرتے ہوئے نظر پڑی۔ بڑے بڑے جعلی حروف میں ان پر امدادی تنظیموں کے نام لکھے ہیں۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندی سے متاثرہ ضلع سوات اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں چارسدہ اور نوشہرہ میں متاثرین میں امداد تقسیم کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ادارے یو این ایچ سی آر کی طرف سے متاثرین کو دیئے جانے والے کمبل، لحاف، بسترے، چائے اور دیگر سامان مردان کے قریب سڑک کنارے لگی دکانوں میں بیچا جا رہا ہے۔ ان دکان داروں کا تاہم اصرار ہے کہ یہ صرف سوات کے متاثرین کے لیے دیا جانے والا سامان ہے، سیلاب والا نہیں۔ لیکن وہاں موجود چند عینی شاہدین اور کسی ٹی وی ٹاک شو کی طرز پر باآسانی دستیاب تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہاں دونوں قسم کے متاثرین کو ملنے والا سامان بِک رہا ہے۔ جب دکان لگانی ہے تو پھر مکمل انتظام ہونا چاہیے۔ امدادی سامان کے ساتھ دیگر سامان بھی لاکر یہاں فروخت کیا جاتا ہے اور عام شہری اسے بازار سے ارزاں سمجھتے ہوئے خرید لیتے ہیں۔

وہاں عکس بندی اور دو کمبلوں کی خریداری کے بعد ذہن میں سوال آیا کہ کیا میں نے درست کیا؟ لیکن پھر تسلی دی کہ متاثرہ شخص کو کمبل سے زیادہ رقم کی ضرورت تھی لہذا وہ تو اپنی رقم لے گیا، میرے خریدنے نا خریدنے سے اب اسے کوئی نفع نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں یہ سامان خریدنے سے شاید ایک منفی عنصر یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے دیگر متاثرین کی بھی اپنی امداد فروخت کرنے کی حوصلہ افزائی ہو۔

تاہم اس سے سب سے زیادہ اہم سوال ذہن میں یہ تھا کہ اس انتہائی سرد موسم میں سوات اور نوشہرہ کے سرد علاقے کے لوگ اپنے بسترے اور کمبل فروخت کر رہے ہیں، تو یہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ شاید یہ کہ جو متاثرین کو چاہیے وہ انہیں نہیں مل رہا۔ انہیں آسٹریلیا کی چائے نہیں، سو دو سو روپے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی کوئی اور زیادہ اہم ضرورت پوری کر سکیں۔ شاید چائے جیسی عیاشی کی نسبت انہیں دو روٹیوں کی زیادہ ضرورت تھی؟
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: پڑھتا جا اور شرماتا جا

Post by اعجازالحسینی »

:( :(
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: پڑھتا جا اور شرماتا جا

Post by نورمحمد »

. . . . . . روٹیوں کی زیادہ ضرورت تھی؟


:( :( :( :( :( :(
Post Reply

Return to “اردو کالم”