صحابہ کرام کا جذبہٴ ایمانی

صحابہ اکرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے حالات و واقعات
Forum rules
کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ اور کسی خاص جماعت سے وابستہ تحریریں سختی سے منع ہیں۔
انتظامیہ اردونامہ
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

صحابہ کرام کا جذبہٴ ایمانی

Post by اعجازالحسینی »

آفتاب ِ نبوت کے غروب ہوتے ہی ایمانی روشنی میں اضمحلال وضعف رونما ہونا شروع ہوگیا تھا‘ عہدِ نبوت میں ایمان ویقین کی جو تابانی وشدت تھی وہ روز بروز زوال پذیر ہوتی رہی‘ حضرت رسالت پناہ اکی حیاتِ مقدسہ میں صحابہ کی جو ایمانی کیفیت تھی‘ وصال کے بعد اس میں اضمحلال شروع ہوا‘ بلکہ حیاتِ مقدسہ میں حضور وغیبت کا فرق تھا‘ صحابی رسول حضرت حنظلہ  کا مشہور واقعہ ”صحیح مسلم“ وغیرہ میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے‘ راستہ میں حضرت صدیق اکبر  ملے‘ پوچھا کہاں جارہے ہو؟ جواب دیا کہ : کیا پوچھتے ہو‘ حنظلہ تو منافق ہوگیا‘ حضرت صدیق اکبر  فرمانے لگے: سبحان اللہ! خیر تو ہے کیا کہتے ہو؟ جواب دیا کہ ہم جب حضور اکرم ا کی مجلس میں ہوتے ہیں‘ آپ جب جنت ودوزخ کا تذکرہ فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں‘ لیکن گھر آکر دنیا کے دھندوں میں مشغول ہوکر اور بیوی بچوں میں مصروف ہوکر یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے‘ حضرت صدیق اکبر یہ سن کر فرمانے لگے کہ: اگر یہ نفاق ہے تو پھر میں بھی اس میں مبتلا ہوں‘ دونوں بارگاہِ نبوت میں پہنچے‘ حضرت حنظلہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں تو منافق ہوگیا‘ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے‘ حضرت حنظلہ نے صورتِ حال بیان کی‘ سننے کے بعد آپ انے فرمایا:

”والذی نفسی بیدہ انکم لو تدومون علی ما تکونون عندی وفی الذکر لصافحتکم الملائکة علی فرشکم وفی طرقکم ولکن یا حنظلة ساعةً فساعةً“۔ (ترمذی،ج:۲،ص:۷۳)
ترجمہ:․․․”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے‘ اگر تمہاری یہ حالت جو میری مجلس میں ہوتی ہے یا ذکر اللہ کی حالت میں ہوتی ہے‘ ہر وقت باقی رہتی تو (تم اتنے اونچے ہوتے) کہ فرشتے تم سے تمہارے گھروں اور راستوں میں مصافحہ کرتے اور ملتے‘ لیکن اے حنظلہ! یہ کیفیت کبھی کبھی ہوتی ہے (ہمیشہ باقی نہیں رہتی)“۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں حاضری اور غیر حاضری کا فرق نمایاں تھا‘ ایمان ویقین کی کیفیات کے اندر تفاوت ہوتا تھا‘ پھر حضرت رسالت پناہ ا کی وفات کے بعد تو ظاہر ہے کہ یہ تفاوت بہت نمایاں ہوگیا‘ جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک صحابی رسول سے مروی ہے:

”لما کان الیوم الذی قدم فیہ رسول اللہ ا المدینة اضاء منہا کل شئ فلما کان الیوم الذی مات فیہ اظلم منہا کل شئ قال: وما نفضنا عن رسول اللہ ا الایدی حتی انکرنا قلوبنا“۔
ترجمہ:․․․”جس دن حضور اکرم ا مدینہ تشریف لائے تو یہاں کی ہر چیز روشن ہوگئی‘ لیکن جس دن آپ کی وفات ہوئی تو مدینہ کی ہر چیز تاریک ہوگئی اور فرمایا: ہم نے آپ کو دفن کرکے ابھی مٹی سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ اپنے دلوں میں فرق محسوس کرنے لگے“۔
اسی قسم کا مضمون ”تاریخ ابن کثیر“ میں حضرت ابوسعید خدری سے بھی منقول ہے ”سنن ابن ماجہ“ میں حضرت ابی بن کعب سے ایک حدیث اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ سے ایک اور حدیث مروی ہے جن کا حاصل یہ ہے:
”عہدِ نبوت میں نماز ایسے خشوع سے ہوتی تھی کہ نمازی کی نگاہ قدموں سے آگے متجاوز نہیں ہوتی تھی۔عہدِ صدیقی میں اس قدر فرق ہوگیا کہ نگاہ قدموں سے آگے بڑھ کر سجدہ کی جگہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔عہدِ فاروقی میں قبلہ کے رخ سے نگاہ ہٹ کر دائیں بائیں نہیں جاتی تھی‘ لیکن جب عہدِ عثمانی آیا اور فتنوں کا دور شروع ہوا تو نمازی کی نگاہ دائیں بائیں جانے لگی“۔

صحابہ کرام کا محاسبہٴ نفس
سبحان اللہ! کیا ٹھکانا! صحابہ کرام کی ذکاوتِ حس اور اس دقیق محاسبہ کا کہ کس طرح اپنی عبادات کا جائزہ لیتے تھے اور اپنے قلوب کی کیفیات اور اعمال کا کیسا محاسبہ کرتے تھے‘ ٹھیک جس طرح ہم آج اپنی معمولی سی جسمانی کیفیت کے فرق کو محسوس کرتے ہیں اور اس کی تدبیر میں لگ جاتے ہیں‘ اسی طرح حضرات صحابہ کرام روح وقلب کے تغیرات کاجائزہ لیا کرتے تھے اور اس کی فکر کرتے تھے اور اصلاحِ حال کی تدابیر اختیار فرماتے تھے۔ ”صحیح بخاری“ میں حضرت انس  سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ا کے عہدِ مبارک کے بعد ہر چیز میں تغیر آگیا‘ کوئی چیز بھی اپنی حالت پر باقی نہیں رہی بجز نمازکے اور پھر فرمایا: ”وہذہ الصلاة قد ضیعت“ اور یہ نماز بھی ضائع ہوگئی۔ مطلب یہ کہ نماز بھی ایسی نہیں رہی‘ حقوق وآداب خشوع وخضوع سے جس طرح پہلے ہوتی تھی وہ بات اب نہیں رہی۔ حضرت حسن بصری نے ایک مرتبہ اپنے زمانہ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

”واللہ لقد ادرکت سبعین بدریاً اکثر لباسہم الصوف ولو رأیتموہم قلتم مجانین‘ ولو رأو اخیارکم لقالوا ما لہؤلاء من خلاق‘ ولو رأو اشرارکم لقالوا : ما یؤمن ہؤلاء بیوم الحساب“(حلیة الاولیاء ج:۲‘ص:۱۳۴)
ترجمہ:․․․”بخدا! میں نے (۷۰) ستر بدری صحابہ کو دیکھا جن کا زیادہ تر لباس صوف ہوتا تھا اور وہ صحابہ ایسے تھے کہ تم اگر ان کو دیکھتے تو تم ان کو دیوانہ کہتے اور اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں کو دیکھتے تو کہہ دیتے کہ ان لوگوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور اگر وہ تمہارے برے لوگوں کو دیکھتے تو فرما دیتے کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں“۔
اس کا حاصل یہی ہے کہ صحابہ اور بالخصوص بدری صحابہ آخرت کے کاموں اور اللہ ورسول کی مرضیات میں ایسے منہمک تھے جس کی وجہ سے ان کو نہ اپنی جان کی فکر تھی‘ نہ اپنی اولاد کی‘ نہ دنیا کے عیش وآرام کا خیال۔ بہرحال ایسے لوگوں کو دیکھ کر یہی کہا جائے گا کہ یہ تو دیوانے ہیں اور تمہارے صلحاء اور بہترین اشخاص بھی اپنی جان‘ اپنی اولاد کی فکر کو مقصود بنائے ہوئے ہیں‘ اس لئے ان کو دیکھ کر بھی کہا جائے گا کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اور تمہارے شریر اور بدکار لوگوں کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان ویقین نہیں رکھتے۔ حضرت حسن بصری تابعی ہیں ۱۱۰ھ میں ان کی وفات ہوئی اور آج ان کی وفات کو ۱۲۷۷(اب ۱۳۷۷) برس گذر گئے‘ خیر القرون کے آدمی ہیں‘ جس کی فضیلت زبانِ نبوت سے ثابت ہے‘ حسن بصری آج اگر زندہ ہوجائیں اور ہماری حالت دیکھیں تو سوچئے کیا فتویٰ دیں گے۔ ان حقائق سے آپ اندازہ لگائیں کہ صحابہٴ کرام کے یقین وایمان کا کیا حال تھا‘ اگر عہدِ تابعین میں صحابہ کرام کی قوتِ ایمانی کا اندازہ لگانا مشکل تھا تو آج کیونکر ممکن ہے کہ ہم اس کا اندازہ لگاسکیں جو جنس مارکیٹ میں ہی نہ ہو‘ اس کے حسن وخوبی کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن المبارک سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت امیر معاویہ  افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز؟ آپ نے فرمایا:
وہ جہاد جس میں حضرت رسول اللہ ا کے ساتھ حضرت امیر معاویہ شریک تھے اس جہاد کے غبار کا وہ حصہ جو حضرت امیر معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں گیا ہے‘ وہ بھی ابن عبد العزیزسے بہتر ہے۔
یہ کوئی شاعری نہیں ہے‘ ابن المبارک امتِ محمدیہ کے فقہیہ ومحدث امام ہیں‘ حضرت امام ابو حنیفہ کے کبارِ تلامذہ میں سے ہیں‘ ابن المبارک  کے اس فتویٰ کو شیخ ابن حجرہیثمی نے ”تطہیر الجنان“ میں نقل کیا ہے۔

صحابہ کرام کمالِ ایمان وکمالِ تقویٰ پر فائز تھے
صحابہ کرام کی فضیلت فوت العادة ہے‘ جس سے ان نفوسِ قدسیہ کی قوتِ ایمانی اور قرب عند اللہ کا اندازہ ہوتا ہے‘ یہ حضرات کمال ایمان وکمال تقویٰ پر فائز تھے‘ جس کا نام قرآنِ کریم میں ”ولایت“ ہے‘ ارشاد ہے:

”ألا ان اولیاء اللہ لاخوف علیہم ولاہم یحزنون الذین آمنوا وکانوا یتقون“۔ (یونس:۶۲)
ترجمہ:․․․”سنو! اللہ تعالیٰ کے اولیاء جن پر قیامت کے دن نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہ لوگ ہیں جو کامل طور پر ایمان لائے اور جنہوں نے کمال تقویٰ اختیار کیا“۔
ایمان کے بعد مدارِ قرب وکرامت عند اللہ تقویٰ ہے‘ جو حضرات سراپا تقویٰ بن جاتے ہیں‘ ان کی صحبتیں‘ ان کی مجلسیں‘ ان کی ملاقات اصلاحِ حال میں عجیب تاثیر رکھتی ہے‘ یہی ہیں وہ پاک بازنفوس جن کی صحبت سے دل ودماغ پر ایسے نقوش مرتسم ہوجاتے ہیں جو تنہا عبادت وریاضت سے سالہا سال میں ممکن نہیں‘ اسی کو کہا گیا ہے:
یک زمانہ صحبتِ با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
حدیث نبوی میں ولی اللہ کی ایک واضح علامت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے‘فرمایا گیا:

”وخیار عباد اللہ اذا رؤا ذکر اللہ“
یعنی اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یاد آجائے۔ تاریخ ابن کثیر میں حضرت حسن بصری کے بارے میں امام یونس بن عبید سے منقول ہے:

”کان الرجل اذا نظر الی الحسن انتفع بہ وان لم یر عملہ ولم یسمع کلامہ“۔
ترجمہ:․․․”حضرت حسن بصری کو صرف دیکھنے سے نفع ہوتا تھا‘ اگرچہ ان کا عمل دیکھا نہ جائے اور نہ ان کی گفتگو سنی جائے“۔
یہی وہ جلیس صالح ہے جس کی مثال حدیث میں ”کحامل المسک“بیان کی گئی ہے یعنی صالح ہم نشین کی صحبت سے ایسا فائدہ ہوتا ہے جیسے مشک اٹھانے والے کو مشک سے۔ صحبت کی یہی تاثیر ہے جس کی وجہ سے سلاسلِ صوفیہ میں سے سلسلہ ٴ نقشبندیہ میں صحبت شیخ پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت رسالت پناہ ا کے انفاسِ قدسیہ جذب کرنے کا یہ متوارث سلسلہ ہے‘ اسی لئے شیخ سے عقیدت‘ ربط ومحبت ضروری ہے۔ اگر شیخ باکمال ہے اور مرید کا یہ حال ہے تو غیر شعوری طور پر خود بخود محب جاں نثار اپنے محبوب کا نمونہ ہوگا اور جتنی محبت اور صلاحیت ہوگی‘ اس کے مطابق یہ نقشہ تیار ہوگا‘ بعض عشاق منازل عشق منٹوں میں طے کر لیتے ہیں جب کہ دوسرے سالہا سال میں اس سے محروم رہتے ہیں۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ عشق ومحبت اور پاکیزگی کی یہ داستانیں اب کہاں تلاش کی جائیں‘ معرفت وقربِ الٰہی کے یہ خُم خانے کہاں سے لائے جائیں‘ یہ گلستان اب خزاں کی زد میں آ چکا ہے اور اس گلشن کی ویرانی آنکھوں کے سامنے ہے‘ مشام دماغ کو معطر کرنے کے لئے معرفت کے پھولوں کی مہک کہاں سے لائی جائے۔ مادیت کے اس دور میں بے حیائی وفواحش ومنکرات کے زمانہ میں یہ افسانے پارینہ نہیں تو کیا ہیں‘ حاصلِ کلام یہ ہے کہ جس طرح مادر زاد نابینا سیاہ وسفید میں فرق نہیں کرسکتا‘ اسی طرح مادیت کے دور میں اس کا امکان نہیں ہے کہ عہدِ نبوت وعہدِ صحابہ اور قرون مشہود لہا بالخیر کی ایمانی کیفیت کا اندازہ لگایاجائے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ جن دو چار ہستیوں کو ہم نے دیکھا ہے اور پایا ہے آج ان کے ایمانی ملکات اوراپنے رب سے تعلق کی نظیر کہیں نہیں ملتی اور ان حضرات کا اپنے بزرگوں کے بارے میں یہی نظریہ تھا‘ یہ تنزل عہد نبوت سے شروع ہوچکا ہے اور چودہ سو سال سے جاری ہے‘ چونکہ اس دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اس لئے اس تنزل کے باوجود دین سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں اور دین کے مختلف گوشوں میں کام ہورہا ہے‘ بسا غنیمت ہیں وہ حضرات کہ مادیت کے اس تاریک دور میں بھی ذکر اللہ اور تعلق مع اللہ سے گلشن معرفت کی آبادی میں لگے ہوئے ہیں‘ لیکن افسوس کہ یہ بقایا صالحین سرعت سے آخرت کی طرف جارہے ہیں۔

ماہنامہ بینات
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اسداللہ شاہ
مشاق
مشاق
Posts: 1577
Joined: Mon Jul 06, 2009 3:04 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین پر
Contact:

Re: صحابہ کرام کا جذبہٴ ایمانی

Post by اسداللہ شاہ »

جزاک اللہ فی الدارین
[center]والسلام طالب دعا آپکا بھائی
اسداللہ شاہ[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: صحابہ کرام کا جذبہٴ ایمانی

Post by اعجازالحسینی »

[blink2][center]لے شوق سے نام صحابہ کا [/center][/blink2]
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “حیاتہ الصحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)”