پڑوسی اور اسکے حقوق (حصہ دوم)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
العلم
کارکن
کارکن
Posts: 32
Joined: Sat Dec 21, 2013 12:34 pm
جنس:: مرد

پڑوسی اور اسکے حقوق (حصہ دوم)

Post by العلم »

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله_صلى الله عليه وآله وسلم تسليماً كثيراً_قال تعالىٰ:
(أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ۔ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ۔ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ۔ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ۔ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ) (الماعون)
حضرات! اس آیت کریمہ کا ترجمہ ہے ۔
"کیا تو نے (اسے بھی) دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے؟یہی وه ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ جو ریاکاری کرتے ہیں۔اور برتنے کی چیز روکتے ہیں۔"
اس آیت کریمہ میں کئی چیزوں کاذکر کیاگیاہے،مثلا؛قیامت کے دن کو جھٹلا نے کا ذکر، یتیم کو ستانے کاذکر، مساکین کو کھانا نہ کھلا نے کا ذکر، نماز میں غفلت برتنے اورریاکاری کا ذکر اور معمولی چیزوں کو روکنے کاذکر ہے۔ گویا یہ ساری چیزیں شریعت کی نگاہ میں نہایت ہی معیوب ہیں۔ ان سب سے بچنا بےحد ضروری ہے۔ بعض مفسرین کی رائے ہے کہ کسی کو اگر انمیں سے کوئی ایک بیماری کیلت لگ جائے تو دوسری بیماری بھی خود بخود اس میں پیدا ہو جائے گی۔
بہر کیف اس میں جن عظیم چیزوں کاذکر کیاگیا ہے انمیں سے ایک ماعون بھی ہے۔ علامہ جو نا گڑھی لکھتے ہیں کہ ماعون عربی زبان میں شیئ قلیل کو کہتے ہیں اور وہ معن کی جمع ہے۔بعض مفسرین اس سے مراد زکاۃ لیتے ہیں،کیوں کہ وہ بھی اصل مال کے مقابلہ میں با لکل تھوڑی سی ہی ہوتی ہے (یعنی ڈھائی فیصد)۔ اور بعض اس سے گھروں میں برتی جانے والی چھوٹی چھوٹی چیزیں مراد لیتے ہیں جو ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی سے عاریتا مانگ لیتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ گھر یلو استعمال کی چیزیں عاریتاً دے دینا اور اس میں کبید گی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے۔ اس کے برعکس بخل اور کنجوسی منکریں قیامت ہی کا شیوہ ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی:
"عن أبي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم يا أبا ذر إذا طبخت مرقة فأكثر ماءها وتعاهد جيرانك" (بخاری: 142)
" جب تم کوئی شوربہ دار چیز پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ملادو، اور اس سےاپنے پڑوسی کی خبر گیری کرو۔"
یعنی اس کے گھر بھی بھیج دیا کرو۔ اس سے آپس کے تعلقات استوار رہتے ہیں اور محبت میں زیادتی ہوتی ہے ۔ہدیہ اورتحفہ بھیجنا تو یوں بھی مسنون طریقہ ہے۔ البتہ گھر کے کھانے اور سالن میں سے بھی کچھ بھیج دینا محبت کو فروغ دینا ہے۔ اس سے رنجش ختم ہوجاتی ہے۔
عموماً کھانا بنانے اور سالن پکانے میں عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بلکہ وہی پکاتی ہیں اور وہی پورے گھر کے افراد کو کھلا تی پلاتی بھی ہیں؛ لہذا ان کو اپنے گھر میں جتنی ضرورت پڑسکتی ہے اس کا خوب اندازہ بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کے باجود اس حدیث میں حکم مردوں کو دیا گيا ہے۔ اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ عورتوں میں رنجش مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ عورت کادل اس حکم پر زیادہ مائل نہ ہو۔چونکہ عورت پڑوسن کی معمولی معمولی بات سے کبیدہ خاطر ہو جاتی ہے۔ اس لیے حکم مردوں کو دیا گيا۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ گھر کا مالک مرد ہوتا ہے اس لیے عموم کا لحاظ کرتے ہوئے اسی کو مخاطب کیاگيا ہے۔ ورنہ اس حکم میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں۔
تیسری حکمت یہ ہے کہ جب مرد، عورت کوکوئی حکم دیتا ہے تو اس کو بجالاناعورت کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔ مگر دوسری حدیث میں مقام ومحل کے اعتبار سے عورت کو مخاطب کیا گياہے۔
ارشار نبوی ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه: عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: يا نساء المسلمات لاتحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة"(البخاري: 2427)
"کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ دینے کے لیے بکری کا کھر ہی کیو ں نہ ہو۔"
اس حدیث میں عورتوں کو اس لیے مخاطب کیاگيا کیونکہ پڑوس میں عورتوں کا آپس میں زیادہ آنا جانا اور ملنا جلنا رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل مرد عموماً اپنے کاور بار میں گھر سے باہر رہتے ہیں۔ یامن جملہ یہ کہ کہیں مردوں کو مخاطب کیا گیا تو کہیں عورتوں کوتاکہ توازن برقرار رہ سکے۔ اگر ایک کی جانب سے پڑوسی کے حق ادا کرنے میں کوتا ہی ہو، تو دوسرا اس کو یاد دہانی کرائے اور یوں پڑوسی کے حقوق کی ادائےگی کا سلسلہ بدستور قائم رہے۔
وآخر دعونا أن الحمد للہ رب العالمین۔
http://www.minberurdu.com/" onclick="window.open(this.href);return false;باب_معاشرت/پڑوسی_اور_اس_کے_حقوق.aspx
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”