وہ عدو جو آئے تھے کل یہاں
جو چُھپے ھوئے تھے نقاب میں
دبے پاوں آئیں نہ پھر کہیں
میرے شہرِ خانہ خراب میں
یہ عبادتیں یہ سعادتیں
یہ شعادتیں ہیں انہی کا حق
جُکھے سر خدا کی جناب میں
تو ھوں پاوں جنکے رقاب میں
جو جوانی آکے گزرگئ
تمہیں اس کا رنج بجا سہی
مگر ان کا حال بھی تو پوچھ لو
جو بیوہ ھوئی تھیں شباب میں
کبھی یہ سوال بھی تو اُٹھے گا
تمہاری فتح کے باب میں
جو بکھر گیا ھے گلی گلی
وہ لہو ھے کس کے حساب میں
کہیں جنگ فکر وغنا کی ھے
کہیں رنگ و نسل کی ھے کشمکش
یہ اسی کے کرشمے ہیں
جو پڑھایا تھا تم نے نصاب میں
شاہ جی شاعر ھے دیوانہ سا
جو کہہ دیا کہا برملا
کہاں ھونگے ایسے ھنر کہیں
کسی اور خانہ خراب میں
-----------------------------
سید مہتاب شاہ
ھزارہ پروڈکشن ہاوس،کراچی
شاعری
استاد احمد فراز
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہ ظلمت_ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے شمع تو جلاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہ ظلمت_ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے شمع تو جلاتے جاتے