بیسویں صدی کی ایک قد آور سیاسی شخصیت نیلسن مینڈیلا

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

بیسویں صدی کی ایک قد آور سیاسی شخصیت نیلسن مینڈیلا

Post by میاں محمد اشفاق »

[center]Image[/center]
رنگ و نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ میں طویل جدوجہد کرنے والے قابل احترام رہنما اور بیسویں صدی کی ایک قد آور سیاسی شخصیت نیلسن مینڈیلا پچانوے برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

تقریباً تین دہائیاں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد نیلسن مینڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا تین مہینے تک ہسپتال میں پھیپھڑوں کے انفیکشن کا علاج ہوا اور وہ ستمبر سے انہیں گھر منتقل کردیا گیا تھا، جہاں ان کی دیکھ بھال اور علاج جاری تھا۔

مینڈیلا کے گھر والوں نے ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ان کی حالت بگڑتی جارہی تھی اور پھیپھڑے کے انفیکشن میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیلسن مینڈیلا کے انتقال کا اعلان جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے خود ٹیلی ویژن پر براہِ راست کیا، وہ یہ اطلاع دیتے ہوئے رو رہے تھے، انہوں نے کہا کہ منڈیلا ہمیں چھوڑ کر جاچکے ہیں، اب وہ امن میں ہیں۔

جیکب زوما نے کہا ”ہماری قوم نے اپنے عظیم فرزند کو کھو دیا ہے۔“

انہوں نے کہا ”جنوبی افریقہ کے دوستو! نیلسن منڈیلا نے ہمیں متحد کیا اور ہم سب ساتھ مل کر انہیں الوداع کریں گے۔ تب تک ہمارا قومی پرچم سرنگوں رہے گا ۔“

نیلسن منڈیلا دنیا کے بہترین سیاستدانوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کی جگہ ایک جمہوری کے قیام کے لیے طویل جدوجہد کی اور اس کی خاطر انہیں 27 سال جیل میں گزارنے پڑے۔

ملک کے پہلے سیاہ فام صدر کا عہدہ سنبھالتے ہوئے انہوں نے کئی دیگر کوششوں کے ساتھ ساتھ امن کی بحالی کو اولیت دی اور اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا ۔ انہیں 1993 میں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا۔

منڈیلا کے انتقال پر دنیا بھر کے موجودہ اور سابق رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔

امریکی صدر بارک اوبامہ نے نیلسن مینڈیلا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا: ”انہوں نے اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کیں، جن کے بارے میں کوئی فرد توقع کرسکتا ہے۔“

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ”ایک عظیم روشنی دنیا سے دور چلی گئی۔“

اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کہا ”انہوں نے اپنی شخصیت کے ذریعے ہماری زندگیوں گہری سطح تک متاثر کیا ہے۔“

برطانوی شہزادے پرنس ولیم کے تاثرات تھے ”ہمیں یاد رکھنا ہے کہ وہ کس قدر غیر معمولی انسان اور متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔“

مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے کہا ”ان کی دلکش شخصیت اور ان کی جرأت نے دنیا کو بدل ڈالا، آج کا دن بہت اُداس ہے۔“

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ سلیل شیٹی نے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ”ان کی جرأت مندی سے ہماری پوری دنیا کو تبدیل ہونے میں مدد ملی۔
آج ساری دنیا جس عظیم انسان کو خراجِ تحسین پیش کررہی ہے، ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے، جب امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی طاقتیں اور سیاستدان اسے ایک خطرناک شخصیت قرار دیتے تھے۔ مارگریٹ تھیچر کی کنزرویٹیو حکومت کے نزدیک منڈیلا اور ان کی سیاسی جماعت افریقن نیشنل کانگریس دہشت گرد تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خالصتان کے ایک لیڈر کو پرزنر آف کانشس قرار دیا تھا، لیکن منڈیلا کو نہیں کیونکہ ان کی افريقن نیشنل کانگریس مسلح تحریک چلا رہی تھی۔

امریکہ نے 1991ء میں جاکر اپنی سرکاری فہرست سے نیلسن منڈیلا کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کیا تھا۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب لندن میں پارلیمنٹ اور ویسٹ منسٹر ایبے کے قریب نیلسن منڈیلا مجسمہ نصب کیا گیا۔ یاد رہے کہ اسی میدان میں سرونسٹن چرچل کا بت بھی نصب ہے، گوکہ نیلسن منڈیلا کا مجسمہ چرچل کے مجسمے کے مقابلے میں چھوٹا ہے، لیکن اگر ان کی جدوجہد کے حوالے سے دیکھا جائے تو پھر منڈیلا کی ایک ایسی انفرادیت نظر آئے گی، جو انہیں ہرایک سے ممتاز کرتی ہے۔

1964ء میں جیل جانے کے بعد نیلسن منڈیلا دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے ایک علامت بن گئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نسل پرستی کے خلاف ان کی مخالفت اس سے کئی سال پہلے شروع ہو چکی تھی۔

نسل پرستی کی جڑیں جنوبی افریقہ میں یورپی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی موجود تھیں، لیکن 1948ء میں نیشنل پارٹی کی پہلی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نسل پرستی کو قانونی درجہ دے دیا گیا۔ اس انتخاب میں صرف گوری رنگت والی نسل کے لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے تھے ۔

سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لیے افریقن نیشنل کانگریس 1912ء میں قائم ہو گئی تھی۔ نیلسن منڈیلا اس سے 1942ء میں منسلک ہوئے۔

نوجوانوں کے گروپ کے ساتھ مل کر منڈیلا نے آہستہ آہستہ اس جماعت کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کرنا شروع کیا۔ نیشنل پارٹی کی حکومت کے اقدامات پر افریقن نیشنل پارٹی کا جواب سمجھوتہ سے انکار تھا۔ 1949 میں سفید فام قوموں کے قبضہ کو ختم کرنے کے لیے بائیکاٹ، ہڑتال، سول نافرمانی اور عدم تعاون کا اعلان کیا گیا ۔

اسی وقت افریقن نیشنل کانگریس میں نئی قیادت اُبھر کر سامنے آئی۔ اسی دوران منڈیلا پارٹی کی قومی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل ہوئے ۔

گزشتہ صدی کے پانچویں دہائی کی ابتداء میں نیلسن منڈیلا نے افریقن نیشنل کانگریس کی ایک مہم کے تحت ملک بھر کا دورہ کیا۔ اس سفر پر حکومت نے ”کمیونزم مخالف قانون“ کا استعمال کرتے ہوئے منڈیلا کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی۔ اس کے بعد ان کی عوامی جلسوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ اس دوران انہیں چھ ماہ کے لیے جوہانسبرگ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

منڈیلا نے افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کے لیے ایک نئی منصوبہ بندی تیار کی جسے ایم پلان کا نام دیا گیا۔ اس منصوبہ کےذریعے اے این سی کو زیر زمین گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

سال 1955 میں منڈیلا نےافریقن نیشنل کانگریس کا ”فریڈم چارٹر“ لکھا۔ جس میں انہوں نے قرار دیا کہ ”جنوبی افریقہ ان تمام کا افراد ہے جو یہاں رہتے ہیں۔ سیاہ فام اور سفید ۔ اور کوئی بھی حکومت اقتدارکے حق کا اس وقت تک دعویٰ نہیں کر سکتی جب تک وہ جنوبی افریقہ کے تمام لوگوں کی مرضی سے تشکیل نہ دی گئی ہو ۔“

اگلے سال 156 سیاسی کارکنوں سمیت منڈیلا پر فریڈم چارٹر کی حمایت کرنے کے لیے غداری کا کیس بنا کر گرفتار کر لیا گیا ۔ لیکن ایک طویل مقدمے کے بعد تمام ملزمان کو 1961 ءمیں رہا کر دیا گیا تھا۔

حکمران نیشنل پارٹی نے 1958ء میں ایک قانون نافذ کر دیا جو مخلوط نسل اور سیاہ فام لوگوں کو کچھ جگہوں پر جانے سے روکتا تھا ۔

دو سال بعد اس قانون کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں، جس سے 69 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ 'شارپولے قتل ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے نو دن بعد جنوبی افریقہ کی حکومت نے افریقن نیشنل کانگریس پر پابندی لگاتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اورنیلسن منڈیلا سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل بھیج دیا گیا ۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”