عشقِ ممنوع

دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ نیا، کچھ اچھوتا۔
Post Reply
بریٹا لعلوی
کارکن
کارکن
Posts: 75
Joined: Fri Jul 26, 2013 12:16 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

عشقِ ممنوع

Post by بریٹا لعلوی »

:bismillah:;

a.a

کیسےمزاج ہیں سب کے......کل مجھے ایک مہربان دوست کی جانب سے برقی خط کے ذریعے ایک مضمون موصول ہوا آپ لوگوں کے ساتھ شئیرکررہا ہوں امید ہے پسند آئے گا....

عشقِ ممنوع

اُردو وَن نے ترکی سے حاصل کیا۔ سیکولر ترکی سے آنے والے اس ڈرامے نے دیکھنے والوں کی آنکھیں ہی چندھا دیں۔ جن موضوعات پر کبھی کوئی شائستہ اطوار بات کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا تھا۔ کبھی ذکر بھی ہوتا ہو گا تو سات پردوں میں، وہ ذکر ٹی وی سکرین پر روز ہونے لگا۔ جس چینل کا کبھی ذکر نہیں ہوا تھا۔ کسی گنتی شمار میں نہیں تھا، ایک ڈرامے نے اسے دیکھتے ہی دیکھتے ڈرامے کے نئے رجحان کا امام بنا دیا۔ عشق ہمیشہ ممنوع ہوتا ہے۔

یہ الگ بات ہے اسے منع کرنے والے تھک جاتے ہیں اور کرنے والے سو راستے نکال لیتے ہیں۔ ملکوں معاشروں کی بنیاد، افکار سے زیادہ معاشرت اور اخلاقی فریم ورک پر ہوتی ہے جس میں ممنوع اور غیر ممنوع جلی الفاظ میں لکھے ہوتے ہیں۔ ذہنی پستی کے نہ رکنے والے سفر کا کوئی پڑائو نہیں ہوتا، پاکستانی ڈرامے نے محبت کے نام پر گزشتہ کئی سال سے ہر حد توڑنے کا کام سنبھال رکھا تھا۔ عشق ممنوع اس سے بھی ایک ہاتھ آگے چلا گیا۔ اپنے ہی چچا کی بیوی سے عشق، محترم رشتوں کی تذلیل کے لیے کبھی کبھی تو کہانیاں گھڑنی نہیں پڑتیں بلکہ لگاوٹ اور بدمستی کی ایک نگاہ ہی کافی ہوتی ہے۔

مگر عشق ممنوع نے تو کئی حدیں توڑ دیں۔بدمستی کو مستی بنا کر یوں پیش کیا گیا کہ ڈرامے کا ہر ہر کردار اپنی حدود توڑنے پر آمادہ رہنے لگا۔یہی سب کچھ نیا تھا، شاید روایت، اخلاق اور طے شدہ ضوابط کو کوئی خود توڑ نہ سکے تو دوسروں کو ایسا کرتے دیکھنے سے تسکین ہوتی ہو گی۔ وجہ کوئی بھی ہو، یہ ڈراما ہر جگہ موضوع بحث بن گیا۔ کیا یہ ڈراما ترکی کی نمائندگی کرتا ہے یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ڈراما ترکی کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر درمش بلوگر سے رابطہ کیا وہ استنبول سے لاہور آئے ہیں، پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج میں رومی چیئر کے سربراہ ہیں۔

وہ بولے:’’ ترکی میںایسا کلچر بے شک ہے مگر اس کی تعداد یا مقدار بہت کم ہے۔ یہ ڈراما جس ناول پر مبنی ہے وہ بھی کوئی سو سال پرانا ہے۔ اس پر پہلے فلم بھی بنی تھی۔ میں تو ہمیشہ اپنے جاننے والوں کو منع ہی کرتا رہا لیکن اس کو پسند کرنے والے تو موجود تھے۔‘‘ ان کا اصرار تھا کہ’’ ایسے ڈرامے بنانے والے معاشرے کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اسے دیکھنے والے بے شک ضرورہوتے ہیں مگر پسند اور ناپسند کرنے والوں میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔ترکی میں یہ فرق موجود ہے اور موجود رہے گا۔‘‘

ڈاکٹر درمش نے افسوس سے کہا : ’’میرا احساس ہے کہ اس ڈرامے نے ترکی کا امیج بری طرح متاثر کیا ہے۔‘‘

عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی پرنٹ میڈیا میں صرف ایک اخبار نے اس ڈرامے کے معاشرے پر منفی اثرات کو موضوع بنا کر خبریں دیں۔ ورنہ باقی تو عشق ممنوع کے ہیرو، ہیروئن کی خوبصورتی اور بے پناہ مقبولیت کی خبریں ہی دیتے رہے۔ خواتین کے ایک نئے میگزین نے تو بیتر کی شادی کے حوالے سے معلوماتی تحریر بھی شائع کر دی ہے کہ بہلول اور بیتر آج کے پاکستان کے نئے ہیرو ہیں۔ اے ایف پی کے حوالے سے آنے والی ایک خبر ہمارے ہاں شائع ہوئی ہے کہ ترک صدر عبداللہ گل نے اس ڈرامے کا نوٹس لیا ہے۔ اس خبر کے بعد سے اس محاذ پر خاموشی ہے نہ تو ترک سفارت خانے اور نہ ہی ترکی سے متعلق کسی سیاسی، سماجی یا کاروباری انجمن کا ہی کوئی بیان سامنے آیا ہے۔

عشق ممنوع ایک ناول نگار خالد ضیا اوشک کلیگل کے لکھے ہوئے ناول سے ماخوذ ہے۔ اس کی پروڈکشن، کردارسازی اور ماحول اس قدر خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے کہ یہ ڈراما جہاں جہاں بھی گیا، ایک سحر طاری کرتا گیا۔ ترکی کے اعلیٰ طبقے کا رہن سہن ہمیشہ سے لوگوں کو Fascinate کرتا ہے۔ لوگ اس ماحول میں جینے کے آرزومند ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں طبقہ امراء کے لیے بھی یہ خبر تھی کہ ترکی میں لوگ ان سے بھی بہتر زندگی جیتے ہیں۔

اس ڈرامے کی کامیابی پر ہمارا قومی ردعمل بہت ہی ’’شاندار‘‘ رہا۔ میڈیا نے ترکی کی طرف دوڑ لگا دی۔ تا کہ انہی اداکاروں کے مزید ڈرامے خریدے جا سکیں، جیو نے ’نور‘ خرید لیا جو وہاں پہلے ہی بے حد مقبول ہو چکا تھا۔ ایکسپریس نے ’مناہل اور خلیل ‘ کو پسند کیا۔ کم سے کم ۵ ڈرامے اس وقت آن ائر ہیں۔لاہور میں ایک پلازے میں کئی نئے سٹوڈیوز وجود میں آ گئے وہاں صرف ترکی ڈراموں کی ڈبنگ ہوا کرے گی۔ ایک ترکی فلم کی ڈبنگ ہو بھی چکی۔ ایس ٹی وی اُردو (STV) کے نام سے ترکی کے ایک چینل کو بھی منظوری مل گئی ہے۔

دوسرا ردعمل کراچی اور لاہور کے اداکاروں اور پروڈکشن ہائوس کے مالکوں کا تھا۔ انھیںدکھ اس بات کا ہوا کہ ہمارے بنائے ڈرامے کی ایک قسط ۵،۶ لاکھ میں بکتی ہے اور ترکی والے ڈرامے کی قسط ایک لاکھ میں دستیاب ہے۔ معاشی طور پرچینلز کو آسانی ہی نہیں بچت بھی ہو گی۔ یوں آنے والے دنوں میں یہ رجحان دنیا کے ہر اچھے برے ڈرامے کو یہاں لانے اور ڈبنگ کر کے دکھانے کی بنیاد بنے گا۔ یوں ان کو مالی نقصان ہو گا۔ ممکن ہے کسی دل والے نے ملک کی تہذیب، معاشرت یا اقدار کا بھی سوچا ہو مگر جو کچھ ان کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے وہ اس سوچ کی تو نفی کرتا ہے۔

سو لمحہ بھر کو آئی خوش گمانی ٹھہرنے کی جگہ نہیں ڈھونڈ پاتی۔ تیسرا ردعمل عوامی ہے اور وہ بے انتہا کمال کا۔انھیں نئے اور خوبصورت ہیرو ہیروئن مل گئے۔ اسپ(Gossip) کے لیے موضوع مل گیا اور دیکھنے کے لیے عمدہ اور خوبصورتی سے بنا ہوا ڈراما۔مقبولیت کے نئے ریکارڈ کیوں نہ قائم ہوتے؟ اس ساری صورت حال میں ایک بات بہت ہی اہم ہے کہ ثقافتی حملے میں یہ ہماری تیسری پسپائی ہے جو ہمیں بحیثیت قوم نصیب ہو رہی ہے۔

ان درآمدہ ثقافتوں سے اگر تو ملک و قوم کی کوئی بہت بہتری ہوئی ہوتی تو آج ہم بھی بام عروج پر پہنچے ہوتے اور دنیا کو اپنی ثقافت سے روشناس کرا رہے ہوتے۔ کہیں ہمارے ڈرامے چل رہے ہوتے۔ کہیں فلمیں پسند کی جا رہی ہوتیں، کہیں ہمارے مزاج و اطوار زیر بحث ہوتے۔ ہماری ثقافت کی خوبیاں اور خوبصورتیاں توجہ پا رہی ہوتیں تو یقینا اطمینان کا موقع ہوتا، مگر آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ ان ۶۵ برسوں میں بطور قوم ہم نے اپنی کیا ثقافت طے کی ہے؟ اپنی ثقافت کی کون سی خوبیاں اور خوبصورتیاں ہیں، جن پر متفق ہوئے ہیں اور جن کو پذیرائی بخشی گئی اور پھر جسے لے کر ادب پارے، ڈرامے، فلمیں، شاعری، نثر کے شہ پارے تخلیق کیے گئے۔

ادارے بنائے گئے۔ لاتعلقی اور بے نیازی کی حد تو یہ ہے کہ پاکستانی ثقافت پر کوئی تحریر پڑھنی ہو تو فیض احمد فیض کی دو تین تقریروں والے ایک کتابچے کے علاوہ ڈھنگ کی کوئی کتاب نہیں ملتی۔اہل علم و اہل فکر ہی نہیں اہل دانش اور برسوں سے ملک و قوم کی ثقافت کے مظہر اور استعارا بننے والے فنکار بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں بنے شاہین، آخری چٹان کے بعد کوئی تاریخی ڈراما تک نہیں بنا سکے۔

اچھے موضوع پہ فلم کا توسوچیے ہی نہیں، ہر قوم اپنی ثقافت، اقدار اور اطوار سے ہی اپنا کلچر طے کرتی ہے۔ مقامی ثقافتیں اور روایات اس میں شامل ہو کر اسے خوب تر بناتی ہیں۔ قوم کے مذہب کا مزاج اسے قبول صورت بننے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اہلیت کے سارے سوتے یہاں خشک ہو چکے ہیں۔ ہاں سوچنے سمجھنے اور آگے بڑھ کر کچھ کرنے کا وقت ہم بار بار گنوا چکے ہیں۔ ڈرنے یا قوم کو دوسری تہذیبوں سے ڈرانے کا وقت بھی جاتا رہا۔ اب اس پر شاید چار لوگ رک کر بات بھی نہیں سنتے۔

ترقی کے شوقین معاشرے، ترقی کی دوڑ میں جب پیچھے رہ جاتے ہیں تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ وہ اپنے آس پاس سے آگے نکلتی ہر قوم کو، اس کی عادتوں کو، اس کے لباس، مزاج اور اخلاقیات کو ہی ترقی کا زینہ سمجھ لیتے ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں نے گزشتہ چھ دہائیوں سے اس ملک میں بیسیوں مواقع پر شور مچایا اور اس کے بعد لمبا وقفہ اس لیے دیا تا کہ نئے سیاسی ایشو پر صف بندی کی جا سکے۔

شاید ہی کو ئی سماجی یا معاشرتی مسئلہ ایسا ہو جہاں انھوں نے کوئی ایسا حل دیا ہو جسے معاشرے میں قبول عام حاصل ہوا ہو۔معاشرے کی بد صورتی نہ صرف قائم رہی بلکہ اس میں روز افزوں اضافہ ہوا۔ کاش یہ لوگ مل کر ہی سہی کوئی دو چار ڈرامے سیریل، فلمیں ہی بنوا دیتے، اس موضوع پر راہنمائی کے لیے کتابیں لکھی جاتیں۔ کھلی بحثیں ہوتیںاور ایک قابلِ قبول اور پسند کیا جانے والا کلچر سامنے آتا، ہر بار یہ تو نہ سننا پڑتا کہ لباس بھی کسی اور کا، زبان بھی، انداز بھی اور اطوار بھی۔ کوئی قوم کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ بے زبان نہیں ہوتی۔

نہ اپنے ماضی سے کٹی اور خلا میں معلق ہوتی ہے کہ جہاں ہر طرف سے وہ ہر کلچر کی زد میں ہو۔ سکھوں نے یورپ جا کر نہ اپنی پگڑی چھوڑی نہ داڑھی نہ روایت۔ شادی بیاہوں پر ویسے ہی بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ جیسے امرتسر کی معاشرت میں بندھے ہوں۔اس سے وہ ہر جگہ پہچانے جاتے ہیں۔ ہم ڈراموں اور فلموں کو فوراً برا بھلا کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض ادا کر دیا ہے، ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا یہ غلط ہے۔

کہیں تو کسی چیز کی Replacement دی ہوتی۔ برا بھلا کہنے، الزام دینے میں ۶۰ برس گزر گئے خلا کو نہ پُر کیا۔ نہ کسی نے پُر کرنے کا سوچا، اب میڈیا پر جو آ رہا ہے، وہی کل سچ بن کر ڈسے گا۔معروف ماہر نفسیات ارشد جاوید کہنے لگے: ’’میرے پاس ایسے کتنے ہی نوجوان مریض آتے ہیں جنھوں نے انگریزی ناول پڑھے۔ وہاں محترم اور مقدس رشتوں پہ دست درازی یا آمادی کے ساتھ جنسی تعلق کی منظر کشی پڑھی اور پھر کسی کمزور لمحے اپنے ہی سگے رشتوں کے ساتھ ویسے کرنے کی کوشش کی۔

کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں ذہنی مریض بن کر پھر برسوں اپنا علاج کراتے ہیں مگر اس شرمندگی سے نہیں نکل پاتے۔‘‘ سیاسی و معاشی استحکام کے بعد دنیا پر ترک ثقافتی یلغار کیا رنگ لائے گی، اس کے اثرات ایک تجزیے میں سمیٹنے مشکل ہوں گے مگر یہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان میں ترکی کے لیے ہمیشہ سے موجود محبت اور احترام عشق ممنوع کے اخلاقیات و حدود قیود سے بے نیاز کرداروں کے باعث مجروح بھی ہوا ہے اور متاثر بھی۔ بے شک بہت سے عام لوگوں نے اس ڈرامے اور اس کے بعد آنے والے ڈراموں کو آسانی سے قبول بھی کر لیا ہے۔ اسے اشتہار بھی مل گئے ہیں اور مقبولیت بھی۔

یوں ترکی ڈرامے لانے والوں کا جو ٹارگٹ یا مقصد تھا وہ بہرحال آسانی سے پورا ہو چکا۔ اب ڈراموں کے بعد لوگوں کا باہم رابطہ ہو گا تو اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں والا معاملہ ہو گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ترکی کی عام زندگی بھی یورپ کی قربت یا اس کا حصہ ہونے کے باعث ہم سے بہت مختلف ہے بلکہ دس بیس سال آگے ہے۔
اس ڈرامے نے جہاں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ریٹنگ میں ڈراما اور چینل کہیں آگے نکل گئے۔نئے ترکی کے ڈرامے نے بہت کچھ پچھاڑ دیا۔ ایک ایسی ثقافتی یلغار کا آغاز ہوا ہے، جس سے سرمائے کی آمد جڑی ہوئی ہے۔ اسی لیے اسے یہاں سے اپنے وکیل بھی آسانی سے مل جائیں گے جنھیں یہ غرض نہیں ہو گی کہ ان کی آمدن معاشرے کا حلیہ کس حد تک بگاڑ دے گی۔

میڈیا کو آزادی ملنے کے بعد ہر پروڈکشن ہائوس نے ان موضوعات کو چنا، جن پر بات کرتے ہوئے کبھی کانوں سے دھواں نکلتا تھا۔وفا گالی بن کر حماقت ٹھہری اوربے وفائی ادا۔ شادی کے بعد بھی خوش شکل انسانوں سے جسمانی ذہنی تعلقات کو دلیلوں کی بنیادیں فراہم کی جانے لگیں۔ گلے ملنے، ایک بستر پر سونے اور ذو معنی جملوں کی وہ بہتات ہوئی کہ فیملی ڈرامے کے نام پہ مقبول ڈرامے کے ایک کردار کو اس کی بیوی نے اپنے بیٹے اور بہو کی موجودگی میں کہا، ’’اب کمرے میں چلیں آرام کرتے ہیں۔‘‘ تو شوہر نے خاموشی سے اٹھ کر چلنے کے بجائے اپنے معمول کے مطابق یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ’’کمرے میں جا کر ہم جو کچھ کریں گے اسے آرام کہتے ہیں؟‘‘

آپ اگر اس پورے منظر نامے سے واقف نہیں ہیں تو سچ کہوں آپ کا یہ روداد پڑھ کر دل پھٹنے کو آ جائے گا۔ ہمارا آج کن کے سپرد ہے اور ہم نے اپنے کل کی حفاظت کے لیے کن کو تیار کیا ہے؟ یہ کسی ایک دن کا شاخسانہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اتفاقی حادثہ اور واقعہ ہے۔ جیسے ’جگ سا پزل‘ میں ایک تصویر مکمل نہیں ہوتی جب تک اس کے سارے حصے جو بخرے بخرے ہوتے ہیں، مکمل نہ لیے جائیں، ساتھ رکھے ہوئے نہ ہوں تو تصویر سامنے ہی نہیں آتی۔ترکی جیسے سیکولر ملک سے ڈرامے لانے، ان کو ڈب کرنے اور اس قوم کو اس تہذیب سے متعارف کرانے کا کارنامہ کرنے والے کسی اور ملک سے تو نہیں آئے ہوں گے۔

انھیں اس میں آسانی سے حاصل ہونے والی آمدن نظر آئی جو انھوں نے حاصل کر لی۔ اس کے جواب میں قوم کو کیا ملا۔ اس پر بات نہیں کرتے، اس مائنڈ سیٹ کو ضرور دیکھیے کہ ملک کے ہر چینل کی سربراہی پہ بیٹھے اعلیٰ دماغوں نے فوری طور اسے ایک Opportunity پایا اور ترکی سے نئے ڈرامے لانے کے لیے کود پڑے۔ شام کوٹی وی لگائیے تو ہر چینل پر ترکی چہرے اپنے کلچر کے لباسوں، عادتوں کے ساتھ اُردو میں سب کچھ مفت میں عطا کر رہے ہوتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا۔ رات شملہ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ صبح چھ بجے اٹھ کر ٹی وی آن کیا تو یہ بھی تصدیق ہو گئی کہ پسندیدہ ملک والے ہمارا کوئی چینل بھی اپنے لوگوں کے لیے مفید نہیں سمجھتے۔ ڈرامے تو دور کی بات بے ضرر خبروں والے چینل بھی موجود نہیں تھے۔ ہاں ان کے ۱۸ چینل میں نے بدل بدل کر دیکھے۔ سب پر اپنے اپنے الگ الگ پنڈت، پروہت اور مردوخواتین پجاری گیتا پڑھ رہے تھے۔

ہندو دھرم اور انسانیت پر درس دے رہے تھے۔ ان کا کوئی چینل بھی ایسا نہ تھا جو اس وقت مذہبی نشریات کے علاوہ وقت پورا کرنے کے لیے کوئی گانا، ڈراما، ری ٹیلی کاسٹ (Repeat) نہیں کر رہے تھے۔ اگر میں ان کی اس ادا کی تحسین نہ کروں تو زیادتی ہو گی۔ انھوں نے میڈیا کے طوفان میں اپنے دھرم کو نہ تو خود روندا ہے نہ کسی کو روندنے کی اجازت دی ہے۔

مہا بھارت سے لے کر گیتا کی تعلیمات تک ڈرامے بنتے ہیں، ابھی حال ہی میں کامیاب ہونے والے شیوا سیریل کے علاوہ ہر ڈرامے، سوپ سیریل کو اس خوبصورتی سے مذہبی روایات، مندر، پنڈت سے جوڑا ہے کہ ان کی نئی نسل سے زیادہ ہماری نئی نسل شادی بیاہ سے لے کر مرنے تک کی تمام رسموں اور اشلوکوں سے واقف ہو چکی ہے۔ ہر کردار تھوڑی دیر بعد گھر کے مندر میں ہی ماتھا ٹیک رہا ہوتا ہے۔ دفتر جاتے ہوئے پرشاد لے اور دے رہا ہوتا ہے۔

اس طرح کے کسی سین پر اضافی پیسے خرچ نہیں ہوتے ہاں لکھنے والے اور بنانے والے کی اپنے مذہب، دھرم اور اس کی اخلاقیات سے مضبوطی سے جڑے رہنے کا ضرور پتا چلتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی نے بہت کیا تو خواتین کے رسالوں سے خواتین رائٹر کو لیا اور ان کی طویل مختصر کہانیوں اور ناول پر ڈرامے بنا لیے۔ وہ تحریریں گھر کے کاموں سے تھکی ہاری خواتین کے وقت گزاری کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔ سماج کی بہتری یا کسی واضح پیغام کی اس سے توقع ہی کم کی جاتی ہے۔

ابھی تو اور ڈرامے آئیں گے ممتاز تجزیہ نگار فرخ سہیل گوئندی جو ۳۸ مرتبہ پاکستان سے ترکی جانے کا ایک منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کی رائے بالکل ایک مختلف منظر دکھاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ترکی میں بننے والے ڈرامے عرب دنیا، روس، مشرقی یورپ اور دیگر ممالک میں اپنی منڈیاں بنا رہے ہیں۔ ان کی برآمد سے ترک میڈیا اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ ان کے اس عمل سے ان کا نہ ایمان متزلزم ہوتا ہے اور نہ ہی عقیدہ کیونکہ وہ بلند اور مضبوط عقیدوں کے لوگ ہیں۔‘‘

ابھی تو ایک دو ڈرامے آئے ہیں پھر اور بھی آئیں گے۔ پہلے ہم کہتے تھے کہ مغرب کی یلغار ہے۔ یہود و ہنود کے کلچر سے بچیں۔ جو قومیں علمی، فکری اور نظریاتی طور پر کمزور ہوتی ہیں وہ ہمیشہ بیرونی نظریات کے خطرات سے دو چار رہتی ہیں۔ ہم نے شاعری اور ادب میں کتنے نجیب عمر پیدا کیے ہیں، کتنے محمود درویش اور اور مان پیدا کیے ہیں۔

ترکوں اور عربوں نے ادب اور شاعری میں بہت ترقی کی ہے۔ آج ہم انھیں صفائی کرنے کے لیے بلا رہے ہیں، اب ان کے ڈرامے بھی آ گئے۔ یہ پہلے ہی ڈرامے ملین ڈالر کما چکے ہیں۔میں آپ کو بتائوں ان کی وار ان بس یا میٹروبس آ گئی تو آپ کو اپنی ڈیوو بس بھی نیازی بس جیسی لگے گی۔ ہم اپنے شہر کی صفائی کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ نظریات کی حفاظت کیا کریں گے؟

ترکی ہمیں اگر آٹو موبائیل کی ٹیکنالوجی دیتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔ اصل میں ہمPsychological Colonialismکا شکارہیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ پڑھا لکھا وہ ہے جو انگریزی بولے، کم پڑھا لکھا وہ ہوتا ہے جو اُردو بولے اور ان پڑھ وہ ہوتا ہے جو پنجابی بولے۔ طیب اردگان ترکی میں بولتا ہے جب کہ ہمارا وزیر اعظم چاہے انگریزی نہ بھی آئے تو بھی انگریزی میں لگا ہوتا ہے۔ میںاگر وزیر اعظم بنوں تو مجھے انگریزی آتی بھی ہو تو اُردو میں بولوں گا۔ قوم بے زبان تو نہیں ہوتی۔ آج دنیا کا مسئلہ معاش ہے۔
آپ لوگوں کو روٹی دے دو لوگ کہیں گے پاکستان اچھا ہے، روٹی ترکی والے دے دیں وہ کہیں گے ترکی اچھا ہے۔ آپ پاکستان کو ایسا بنائو کہ کل بھارت والے کہیں کہ ہمیں پاکستان بنا دو۔

میں اللہ کا شکر گزار ہوں۔ میں خود کو Extra ordinary ذہین نہیں سمجھتا مگر مجھ میں Clarity of ideas ہے۔ اس کی وجہ مطالعہ اور مشاہدہ ہے۔ کتاب سے ترکی پڑھا اور آنکھ سے دیکھا۔ میں ترکوں کا دوست ضرور ہوں لیکن پہلے میںپاکستانی ہوں۔ میں نے بھارت میں کہا تھا کہ میں بھارت سے دوستی پاکستان کے لیے چاہتا ہوں بھارت کے لیے نہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحیح کہا کہ رینٹل پاور والے کیس میں کیا ہم ترکوں کو پاکستان بیچ دیں۔ میں نے ترکوں، عربوں سے سیکھا ہے کہ اپنے وطن سے محبت کیسے کرتے ہیں؟

ہم تحریک خلافت کے زمانے سے ترکی کے ساتھ ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے قبرص میں ترکوں کی حمایت کی۔ ہم پاکستانیوں نے سائپرس پر بلندِ اجوت کو سپورٹ کیا۔ ہمارا وزیر اعظم نواز شریف جب ۹۸ء میں ترکی میں زلزلہ آیا تو خود جہاز میں ساتھ گیا۔ہم بے شک ترکی سے جڑے ہوئے ہیں مگر اپنا نقصان نہیں کرانا۔

آج کا ترکی

آج کا ترکی جس کی جڑیں بے شک اس کے ماضی میں پیوست ہیں مگر اس کی آنکھوں میں بہت دور کے خواب سمائے ہیں۔ اس کی ثقافتی یلغار کو سمجھنے سے پہلے نئے ترکی کی تفہیم بے حد ضروری ہے۔ ہمارے جو دوست وہاں کے اسلامی انقلاب سے شدید متاثر تھے، بار بار ایسے مواقع آ رہے ہیں کہ ان سے جواب نہیں بن پاتا۔ یہ مشکل ترکی نے پیدا نہیں کی، خود انھوں نے اپنے آپ کو اس مشکل میں ڈالا ہے۔

ترک وزیراعظم نے گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں مصر کا دورہ کیا تو ارشاد فرمایا ’’یہ ایک سیکولر ملک کے مسلمان وزیر اعظم کا مشورہ ہے۔ ‘‘ وہ مصری صدر کی اپوزیشن سے بڑھتی ہوئی دوریوں اور شکوک وشبہات کے پس منظر میں بات کر رہے تھے۔یاد رہے کہ برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں ۳۴۷ نشستیں ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں بنی اس پارٹی نے ۲۰۰۲ء میں ۳۲۷ سیٹیں جیتیں۔ عبد اللہ گل وزیر اعظم بنے۔ ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں ان کو مزید سراہا گیا۔ سیٹیں ۳۴۱ ہو گئیں، جے ڈی پی اچھی سوچ کی ایک پرو یورپ پارٹی ہے۔ پارٹی برسراقتدار کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ عام لوگوں کی زندگی اور پسند ناپسند بھی بدل جائے۔

ممتاز سیاسی کارکن اور مصنف ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کچھ عرصہ پہلے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ترکی نے اس ڈرامے کے ذریعے جو پیغام بھیجا ہے۔ آپ تک تو وہ نہیں پہنچا ہو گا؟ وہ باخبر تھے اور پریشان بھی ان کا کہنا تھا حکومت ابھی بہت سی سطحوں پر بے بس ہے۔

پاکستان میں سرمایہ کاری

ترکی پاکستان میں پہلی بار سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پنجاب میں ۷ بڑے منصوبے ایسے ہیں جس پر ترکی کم سے کم ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ وہ کسی طرح کا رسک نہیں لے رہا، حکومتی سطح پر اگر روابط میں تسلسل اور مشاورت کا مسلسل عمل جاری ہے تو نچلی سطح پر People to People contact کا موثر سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے پاک ترک بزنس ایسوسی ایشن کا کردار بڑا نمایاں اور موثر ہے۔

اس کے چیف ایگزیکٹو سعدی یلدررم ہیں اور سیکرٹری تنرَ کوچیت۔ یہ ایسوسی ایشن دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرمایہ کاری معاشی و اقتصادی کو زیادہ گہرائی اور وسعت دینے پر کام کر رہی ہے۔ ان کی دعوت پر کئی ترک کمپنیاں یہاں آئیں اور بزنس کرنے کے لیے باہمی معاہدات کیے گئے۔ گزشتہ سال ۲۹ نامور کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے داروں نے پاکستان کا ۴ روزہ دورہ کیا۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول ترکی کا خواب کہ وہ ۲۰۱۳ء میں تیز تیز ترقی کے ساتھ دنیا کے دسویں بڑی معاشی طاقت بن سکے۔

اس کے آثار بہت واضح ہیں کہ گزشتہ ۱۰ برسوں میں معاشی استحکام اور ترقی کے باعث ترکی اس وقت دنیا کی ۱۵ویں بڑی معیشت قرار دی جا رہی ہے۔ یورپ جس لمحے معاشی بدحالی کی زد میں تھا۔ یہ ترکی ہی تھا جو اس سے بچا رہا۔ مسلم دنیا کی ۱۰۰ بڑی کمپنیوں میں ۲۴ کا تعلق ترکی سے ہے۔ ترک ایئرلائن، زراعت، بینک، ہوٹل، انڈسٹری، پٹرول آفس، اش بینک، اک بینک، وس ٹل، اردیمیر، نیکا ہولڈنگ، فنانس بینک، گولڈاش، ان کمپنیوں میں شامل ہیں۔ جو آنے والے وقت دنیا میں ترقی کے زینے طے کرتی ہوئی زیادہ برتر مقام پر ہوں گی۔

دنیا کی ۱۰۰ بڑی کمپنیوں میں بھی ترکی کی کئی کمپنیاں شامل ہیں، جیسے بوئے وک ہولڈنگ، سبان جی ہولڈنگ، ووش ہولڈنگ، کوچ ہولڈنگ، دوان ہولڈنگ اور اولکر۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی اور پاکستان نہ صرف جی ایٹ G-8 کے ممبر ہیں بلکہ اقتصادی تعاون کی تنظیم (ای سی او) کے باعث بھی دونوں ممالک کئی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

اس وقت پاکستان ترکی کو چاول، لیدر، تِل، ٹیکسٹائل فیبرک، کھیلوں کا سامان اور طبی آلات بھجوا رہا ہے جب کہ ترکی پاکستان کو گندم، چنے، دالیں، ڈیزل، کیمیکل، ٹرانسپورٹ وہیکل، مشینری اور توانائی سے متعلقہ مواد بھجوا رہا ہے۔ ترکی کی کئی بڑی کمپنیاں پاکستان میں تعمیراتی، ہائی وے پراجیکٹ، پائپ لائنوں اور نہروں کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ۲ بلین ڈالر تک کی تجارت ہو رہی ہے۔ لاہور اور انقرہ کے درمیان ہوائی سفر کے علاوہ ٹرین کے سفر پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔

مقامی کرنسی میں تجارت، فری ٹریڈ زون اور ڈیوٹی کم کرنے پر بڑی سنجیدگی سے غور فکر ہو رہا ہے۔ پنجاب کی حد تک پاک ترک بزنس مین ایسوسی ایشن بڑی سرگرم ہے۔ لاہور میں جوہرٹائون آفس کے علاوہ کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور میںبھی اس کی برانچیں کھولنے کے انتظامات ہو چکے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل اسلم بھٹی جو پی ٹی بی اے کے ڈپٹی سیکرٹری بھی ہیں۔ گزشتہ ۱۳ سال سے ترک دوستوں سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے تصدیق کی ہے کہ پنجاب میں ۷ بڑی کمپنیاں جن منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ ان میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ، لاہور پارکنگ، ٹریننگ سسٹم کی مکمل تبدیلی و اصلاح، ٹرانسپورٹ، توانائی کے متبادل ذرائع، ووکیشنل ٹریننگ کے علاوہ پولیس ٹریننگ شامل ہے۔وہ چونکہ آفیشل ٹرانسلیٹر بھی ہیں جو ہر معاہدے اور ملاقات میں شامل ہوتے ہیں۔

وہ ترک سرمائے کی پاکستان آمد کے حوالے سے بے حد پُرامید تھے۔انھوں نے ہمیں نجم الدین کیراولو سے ملوایا، وہ استنبول اور ازمیر کی ٹریفک پارکنگ کے منتظم رہے اور اب ان کی کمپنی UCS parking لبرٹی میں ماڈل پارکنگ کا نظام متعارف کرا چکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے ۲۰ لاکھ ڈالر اپنی طرف سے لگا کر یہ نظام بنایا ہے اور ۳ ۲۱ سے چلا رہے ہیں۔ اس سے پہلے فرانس کی ایک کمپنی نے تو ۵ ملین ڈالر لیے مگر وہ کوئی نظام پارکنگ بنانے میں ناکام رہی۔

انھوں نے کہا کہ ہم Sharing of Technology بھی کر رہے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ Free of cost اس منصوبے کی کامیابی کے بعد لاہور میں ۵۰۰ مزید جگہوں پر یہ ماڈل پارکنگ کا نظام لاگو ہو گا اور بے ہنگم ٹریفک میں ایک خاموش تبدیلی آتی محسوس ہو گی۔ ہماری کمپنی کا لوگو ہے Dozanlee d Govenlee محفوظ اور صاف ستھری پارکنگ مسکراہٹ کے ساتھ۔ ہم پیسا کمانے نہیں، پاکستانی عوام کو اپنا نظام دینے آئے ہیں۔

اس سے پہلے لاہور کے ماڈل سلاٹر ہائوس میں چلنگ سسٹم لگا کر دیا ہے۔ نجم الدین کیراولو نے ایک بڑی اہم بات بتائی کہ موجودہ وزیر اعظم طیب اردگان استنبول کے ۸ سال کے میئر رہے۔ اس گندے شہر کو انھوں نے اپنی ٹیم کی مدد سے بہت خوب صورت بنا دیا۔ اسی دوران انھوں نے مستقبل کی صورت گیری کی اور اپنی ٹیم کا انتخاب کیا کہ کون کون کیا کیا کرے گا۔ اپنے عمدہ کاموں کی وجہ سے عوام میں حکومت کی مقبولیت تیسری ٹرم میں بھی ۲ ۱ ۵۱ فیصد سے زیادہ ہے۔

عشق ممنوع کے سوال پر وہ مسکرائے اور بتایا کہ یہ ڈراما وہاں ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۸ء میں دو بار چلا۔ اسی طرح کے ڈرامے وہاں عام کلچر کا حصہ ہیں۔ سرکاری ٹی وی TRT پر نہیں آتے۔ ملک کے کلچر میں مثبت تبدیلیوں کے لیے فتح اللہ گولن کی تحریک نے ۸ نئے ٹی وی اسٹیشن قائم کیے ہیں اور ۴ نیوز پیپرشروع کیے ہیں تا کہ موجودہ حکومت کی سوچ کو عوام تک اچھے انداز میں پہنچایا جا سکے۔ یرمجک ٹی وی بچوں کے لیے الگ سے آ رہا ہے۔ مہتاب ٹی وی کلچرل ٹی وی ہوگا، ترکی میں ان دنوں جو ڈراما بہت مقبول ہے وہ ہے ’’ویوک بلوشی‘‘ دیکھیں اُردو پیرہن میں آنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔

ترکی کی موجودہ معیشت

ترکی کی موجودہ معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ گزشتہ ۱۰ برسوں میں ترقی کی شرح نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ متاثر کن بھی ہے۔ ترکی چین کے بعد دنیا کی دوسری بڑی برق رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشت ہے۔ فی کس آمدن ۱۵۰۰۰ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ جس نے اندرون ملک بیروزگاری کے خاتمے، صنعت کی بحالی اور ترقی۔
ترکی اپنی برآمدات کو ۵۰۰ بلین تک بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کا جی ڈی پی ۸۰۰ بلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔

ترکی اپنے جہاز بنانے کے منصوبے پر کام شروع کر چکا ہے۔ یورپ کی چھٹی مضبوط معیشت بن جانے والے ترکی اس وقت یورپی یونین میں سب سے زیادہ بسیں بنانے والا ملک ہے۔ ترکی کی اس تیز رفتار صنعتی ترقی کا ساتھ دینے کے لیے ترکی کے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہر سال ۵ لاکھ طلبہ و طالبات کو فارغ التحصیل کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ ۱۰ برسوں میں ترکی نے ۱۰۰۰ فیصد سے زائد ترقی کی ہے۔

ہر سال ۳۰ ملین سیاح ترکی آ رہے ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ گزشتہ ۴ سال میں نہ صرف پورے یورپ میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کی ہے ساتھ میں سب سے کمرشل وہیکلز تیار کر کے الگ سے نام کمایا ہے۔ صرف افریقہ سے ۱۶ بلین کا بزنس کیا ہے۔ اسی وجہ سے امریکی کامرس سیکرٹری جوہن بری سن نے ترکی کی بڑھتی ہوئی معیشت اور معاشی ترقی کی تعریف کرتے ہوئے اسے شاندار ترقی کہا اور توقع ظاہر کی ہے کہ ’’ترکی اس رفتار سے ترقی کرتا رہا تو چند برسوں میں دنیا کی ۱۰ویں بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔‘‘

خطے میں بڑھتا ہوا ترک کردار

ابھی حال ہی میں ترکی کے شہر انقرہ میں ہونے والے سہ ملکی سمٹ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں پاکستان، ترکی اور افغانستان کے صدور نے شرکت کی، بظاہر یہ ایک عام سی خبر تھی۔ مگر یہ کانفرنس اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ امریکا افغانستان سے انخلا کے جس پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اس میں روس کی طرح واپسی کے بعد خلا کی گنجائش نہ چھوڑنے کی ابھی سے منصوبہ بندی جاری ہے۔ ترکی امریکا کا ہمیشہ قابل اعتماد دوست رہا ہے۔

اسلامی دنیا میں ترکی اورملائیشیا نہ صرف سوفٹ چہرے کے حامل ہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر آسانی سے قابل قبول بھی ہیں۔ افغانستان کے معروضی حالات اور پاکستان سے اس کے تعلقات کے پس منظر میں یہ سوچنا بالکل بے جا ہو گا کہ پاکستان کا بھی وہاںکوئی کردار ہو گا۔ دونوں ممالک بد اعتمادی کی جس خلیج کے کناروں پر کھڑے ہیں وہاں کسی موثر سیاسی، سماجی، کاروباری یا فوجی کردار کے بظاہر کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ ایسے میںامریکا ایک ایسے اتحادی کو آگے لانے کا متمنی ہو گا، جو اس کے مفادات کا بخوبی تحفظ بھی کرے اور افغانستان کے لیے قابل قبول بھی ہو۔

ترکی افواج نیٹو کا بڑا اہم حصہ ہیں اور شروع سے اس کے فوجی دستے افغانستان میں موجود ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد ترکی زیادہ بڑے ایجنڈے اور مرتبے کے بعد علاقے میں بروئے کار ہو گا۔وقت وقت کی بات ہے ایک زمانہ تھا ترکی خلافت کو بچانے کے لیے برصغیر میں تحریک خلافت برپا تھی اور لوگ اپنا زیور تک انھیں بھجوا رہے تھے۔ ترکی کے لوگ اس تعلق اور محبت کو آج تک نہیں بھولے مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔

اب مدد ترکی کی طرف سے آ رہی ہے، چاہے معاشی ہو یا ثقافتی۔ اس سال عید قربان پر ۵ ہزار گایوں کا گوشت تک وہاں سے آیا، جس کی خادم اعلیٰ نے بڑی تعریف کی، بے شک ترکی کا وژن بڑا ہے۔ سوچ بڑی دور کی ہے۔ بقول جناب رئوف طاہر، ’’وہ وہاں بڑی مفاہمت اور احتیاط سے چل رہے ہیں۔ ان سے توقع نہ کریں کہ ضیاء الحق کے دور جیسے عمدہ ڈرامے بنائیں گے۔ وہ سوسائٹی بہت آزاد خیال ہے ہاں اچھے مناظر ابھر رہے ہیں مگر ان کی رفتار دھیمی ہے۔‘‘

ایک موثر طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ موجودہ ترکی کی ثقافتی لہر کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے یہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ جس میں ترکی کے مذہبی کرداروں کو اجاگر کرنے کے بجائے سیکولر چہرے کو نمایاں کیا گیا ہے چونکہ عام لوگ اسی کو پسند کرتے ہیں۔ثبوت مانے ہے کہ کس قوت اور شدت کے ساتھ لوگ اس کی تہذیبی برتری اور خوبی کے قائل اور گھائل ہو گئے ہیں۔ترکی کی طرف سے یہ حربہ اس سے پہلے یورپ، افریقہ اور عرب دنیا پر آزمایا جا چکا ہے اور وہاں اس نے کامیابی سے دونوں اہداف حاصل کیے ہیں۔ کاروباری وسعت بھی ہوئی ہے اور معاشرے میں مقبولیت بھی ملی ہے۔ ڈرامے بھاری قیمتوں پر فروخت ہوئے اور ترکی کے لیے ہر جگہ ایک نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔

ہم برسوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے زمانہ بدلتا دیکھ رہے ہیں، کبھی پاکستان عالم اسلام کا لیڈر ہوتا تھا۔ آج یہ مقام ترکی کے پاس ہے اور ہر آنے والا دن اس کی قیادت اور راہنمائی پر مہرِتصدیق ثبت کر رہا ہے۔ دنیا میں فیصلے مذہب کی بنیاد پر نہیں معیشت کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا طاقت کی بنیاد پر۔ دوسرے لفظوں میں فیصلے طاقت کرتی ہے یا بھوک۔ آج بڑی طاقتیں بھوک دِکھا کر فیصلے کراتی ہیں۔ ممکن ہے ترکی کا معاملہ ایسا نہ ہو۔ ان کی ہم سے محبت بے لوث ہو۔

ان کی معاشی سرگرمیاں بھی ہمارے فائدے کے لیے ہوں مگر یہ تو کسی طور لازم نہیں کہ ۲۰۱۳ء کی اس بڑی معاشی طاقت کی تحسین کے ساتھ ساتھ اس کی ثقافتی یلغار کے سامنے بھی خاموشی اختیار کر لی جائے۔ بیچاری ڈراما انڈسٹری ہی نہیں پاکستانی اقدار اور اخلاقیات کو بھی بے موت مرنے دیا جائے۔ ہار ماننے کی کوئی حد تو ہونی چاہیے۔
’’دنیا میں کوئی ایسا شخص‌نہیں‌جو 360 دن علی الصباح اٹھتا ہواور وہ اپنےگھرانے کو مالدار نہ بنا سکے۔‘‘
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: عشقِ ممنوع

Post by اضواء »

w.a


شئیر کرنے پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: عشقِ ممنوع

Post by رضی الدین قاضی »

بہت عمدہ

شیئرنگ کے لیئے شکریہ
[center]Image[/center]
Post Reply

Return to “دنیا میرے آگے”