نماز کی اہمیت اور اس کی تشریعی حکمت (حصہ اول)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
العلم
کارکن
کارکن
Posts: 32
Joined: Sat Dec 21, 2013 12:34 pm
جنس:: مرد

نماز کی اہمیت اور اس کی تشریعی حکمت (حصہ اول)

Post by العلم »

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذبالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،أمابعد!
فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
(وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ) (الروم:31)
" اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔"
وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "بنی الإسلام علی خمس: شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ، وإقام الصلاۃ وإیتاء الزکاۃ، وصوم رمضان، وحج البیت من استطاع إلیہ سبیلا" (متفق علیہ)
حاضرین کرام! اگر اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ پورا اسلام دوحصوں پر مشتمل ہے؛ایک دل ودماغ سے یقین کرنے اور سچ جاننے والا حصہ، جس کو عقیدہ سے تعبیر کرتے ہیں، اور جو دوسرے حصے کی قبولیت کی بنیاد ہے۔اور دوسرا حصہ وہ ہے جو جوارح یعنی ہاتھ اور پاؤں سے انجام دیا جائے،یعنی وہ عمل جو پہلے حصے کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔
تو اس دوسرے حصے کے تمام مشمولات (اعمال صالحہ) میں سب سے پہلا مقام اور درجہ نماز کا ہے۔ جیسا کہ فرمان نبوی ہے:
"بنی الإسلام علی خمس:شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ، وأن محمدا رسول اللہ، وإقام الصلاۃ وإیتاء الزکاۃ، وصوم رمضان، وحج البیت من استطاع إلیہ سبیلا" (متفق علیہ)
نماز کا درجہ اعمال صالحہ میں ٹھیک اسی طرح پہلا ہے، جیسے ایمانیات یعنی چھ ایمان لانے والی باتوں میں اللہ پر ایمان کا درجہ ہے۔ سلف صالحین کا جو یہ عقیدہ ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں، تو ان اعمال سے سارے (یعنی ستر۷۰) اعمال صالحہ مراد نہیں ہیں۔یا تو صرف نماز مراد ہے، یا نماز کے ساتھ اس حدیث میں مذکور بقیہ تین اور اعمال مراد ہیں۔ عبد اللہ بن شقیق (تابعی) کی روایت کے مطابق صحابۂ کرام، اعمال میں سے کسی عملکے ترک کو کفر قرار نہیں دیتے تھے،سوائے نماز کے (رواہ الترمذی ومحمدبن نصر المروزی فی تعظیم قدرالصلاۃ، صححہ الألبانی فی صحیح الترغیب رقم:564)
اس اثر صحابہ سے واضح ہوگيا کہ تمام اعمال میں نماز ایک ایسا عمل ہے، جس کا ترک ایمانیات کے چھ اجزاء میں سے کسی ایک جزؤ کے ترک کی طرح کفر کو لازم کرتا ہے۔
حاضرین ! یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صحابہ ؓکے نزدیک بھی بےنمازی کافر ہے۔اس کا دین سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ ان صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ علیہم) کے اقوال ملاحظہ فرمائيں:
۱۔ حضرت عمر فاروق: "لاحَظ فی الإسلام لمن لا صلاۃ لہ" "اس آدمی کا اسلام میں کچھ بھی حصہ نہیں، جس کے پاس نماز نہیں)
اسی طرح ان کا ایک قول ہے:
"لا إیمان لمن لاصلاۃ لہ" "اس کے پاسایمان ہی نہیں، جس کے پاس نماز نہیں۔"
۲۔ابن مسعود: "من لم یصل فلا دین لہ" "جو نماز نہیں پڑھتا، اس کے پاس دین ہی نہیں۔"
یہ سب اقوال؛ "تعظیم قدرالصلاۃ لمحمد بن نصر المروزی" میں مروی ہیں۔
حاضرین! صحابہ کرام قرآن وسنت کے اوّلین اور بزبان رسالت مآب دین کے معتبر شارحین ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نماز کی بابت ارشاد باری تعالیٰ اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہی میں صحابہ نے ترک نماز پر مذکور ہ حکم لگا یا ہے۔
ارشاد باری یہ ہے:
(وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ) (الروم:31)
اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔"
اگر اس آیت سے بےنمازی کو کافر نہ بھی قرار دیں تب بھی اتنا تو ثابت ہی ہوتا ہے کہ ترک نماز مشرکین ہی کا شیوہ ہے۔
اور اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لیس بین العبد وبین الکفر إلا ترک الصلاۃ" (صحیح مسلم، کتاب الإیمان: 35)
"بندے اور کفر کے درمیانفاصل نماز کا ترک ہی ہے۔"
نیز ارشاد ہے:
"العھدالذی بیننا وبینھم الصلاۃ،فمن ترکھا فقد کفر" (سنن النسائی، کتاب الصلاۃ باب:8) الترمذی،کتاب الإیمان باب:9 عن بریدۃ)
" ہمارے (مسلمانوں) اور ان کے (یعنی مشرکین کے) درمیان نماز ہی حد فاصل ہے۔پس جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا"
اسلام میں نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے نماز کوایمان کہا ہے، ارشاد ہے:
(وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ) (البقرۃ: 143)
"اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا۔"
یعنی جو لوگ بیت المقدس کی طرف نماز پڑ ھتے ہوئے وفات پاگئے، اب خانۂ کعبہ کی طرف تحویل قبلہ ہو جانے سے ان کی نمازوں کو اللہ تعالیٰ برباد نہیں کرےگا۔ (صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب الصلاۃ من الایمان)
نماز کو لفظ "ایمان"سے تعبیر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اعمال صالحہ (جو ایمان میں داخل ہیں)میں نماز کو اوّلین درجہ حاصل ہے۔
دیگر اعمال صالحہ کے مقا بلے نماز کویہ بھی حیثیت حاصل ہے کہ نماز نہ ہونے کی صورت میں اللہ کے نزدیک کوئی بھی نیک عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکےگا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"إن أول مایحاسب لہ بہ العبد لصلاتہ، فإن صلحت فقد أفلح وأنحج، و إن فسدت فقد خاب وخسر" (نسائی، کتاب الصلاۃ، بابالمحاسبۃ علی الصلاۃ:465، الترمذی، کتاب الإیمان باب:189)
یعنی بندے سے حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں پرسش ہوگی۔ اور اگر نماز ہی بےکار رہی، تو وہ خائب وخاسر ہوگا۔ یعنی نہ تو اس کا روز ہ قبول ہوگا، نہ حج اور نہ زکاۃ۔ امام ابن قیم الجوزیہ نےاس حدیث سے بےنمازی کے کافر ہونے پر استد لال کیاہے۔ (کتاب الصلاۃ لابن قیم الجوزیۃ)
اس حدیث کو فارسی شاعر نے یوں تعبیر کیا ہے۔اور یہ شعر اکثر مساجد کے دروازوں اور محرابوں پر لکھا ہو تا ہے:
روز محشر کہ جان گداز بود اوّلین پرسش نماز بود
یعنی محشر کے دن جب نفسی نفسی کا عا لم ہوگا،بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائےگا۔
اسلام میں نماز کی اہمیت اور مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی ہو تا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت،اور جان کنی کے عالم میں، جو آخری وصیت امت کو کی تھی، وہ نماز ہی کی وصیت تھی۔ آپ پر جان کنی کی حالت طاری تھی، اور آپ فرما رہے تھے: "الصلاۃ الصلاۃ" یعنی نماز کا خیال رکھنا ، نماز کا خیال رکھنا۔
اور اللہ کے سب سے پیا رے رسول کو اس دنیا ئے فانی کے اسباب واموال میں جو چیز سب سے زیادہ عزیز تھی، ان میں عورتیں اور خوشبو تھی۔ مگر آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہی میں تھی، فرماتے ہیں:
"حبب إلی من دنیاکم: النساء والطیب، وجعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ: (النسائی عشرۃ النساء، حدیث رقم:3391)
"مجھے دنیاکی چیزوں میں عورتیں اور خوشبو بہت محبوب ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں کردی گئی ہے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی گھبراہٹ کا سامنا ہوتا تھا، تو آپ فوراً نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ (د/الصلاۃ:312، ح1319/حسن)
قرآن میں بھی ایسی حالت میں نماز سے استعانت کا حکم دیا گیا ہے، ارشاد باری ہے:
(اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ) (البقرۃ:45)
"اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔"
نماز اگر حقیقی معنوں میں نماز ہو، تو نمازی کو ہر طرح کی برائیوں اور فحاشیوں سے روک دیتی ہے۔ارشادباری ہے:
(إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ) (العنکبوت: 45)
"یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔"
آج ساری دنیا میں جرائم کا دور دورہ ہے۔ حکومتیں،قانون ساز ادارے، عدالتیں، سی آئی ڈی، سب حیران وپریشان ہیں۔ مگر "مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی" کامعاملہ ہے۔ اس سلسلے میں مذکورہ ارشاد ربانی کی روشنی میں نماز بہت ہی ممددومعاون ہے۔ بشرطیکہ خلوص دل سےادا کی جائے۔ایمان اور عقیدہ کے بعد اعمال میں نماز سب سے پہلا فرض ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ایک آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس پر بےشمار دنیوی واخروی فوائد اور انعامات سے بھی نواز تا ہے۔ دنیوی فوائد میں یہ کیا کم ہےکہ نماز سے آدمی کے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ وہ سکون جس کا موجودہ انسان حد درجہ متلاشی ہے؛ مگر حاصل نہیں کر پاتا۔ کیونکہ وہ اسے، الہٰی اسباب کے سوا دوسرے اسباب میں تلاش رہاہے۔ جبکہ انسان کے خالق کا فرمان ہے:
(أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ) (الرعد: 28)
"یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔"
اور اللہ کے ذکر میں، سب سے بڑا ذکر نماز ہی ہے۔
اور اُخروی فوائد میں سے ایک فائدہ تو وہ ہے، جسے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا:
(قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ) (المومنون:1-2)
"یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔"
اس کے بعد فلاح پانے والوں کے چند اوصافبیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
(وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ۔ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ) (المومنون:9-10)
"جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یہی (جنت کے) وارث ہیں۔"
حاضرین کرام!لیکن یہ سارے دنیوی واُخروی فوائد اسی وقت حاصل ہوں گے، جب نماز کو اس کے شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔ صحت اور کمال نماز کی شرطوں میں ظاہری اور باطنی دونوں شرطیں ہیں۔اور دونوں کا لحاظ کیے بغیر نماز فائدہ نہیں دیتی۔
ظاہری شرطیں تو وہ ہیں، جن کے بغیر نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوتی۔ جیسے؛چھو ٹی بڑی پاکی، جسم اور جگہ کی پاکی،سترپوشی اور استقبال قبلہ اور سنت کے مطابق ادائیگی وغیرہ۔ او رباطنی شرائط میں سب سے پہلی شرط؛ اخلاص ہے، اور دوسری شرط: خشوع وخضوع ہے، جو در اصل نمازکی بار گاہ الہیٰ میں قبولیت کی اہم ترین شرطیں ہیں۔خشوع وخضوع کی ظاہری علامت تعدیل ارکان ہے۔ اور باطنی کیفیت یہ ہے کہ نماز اس طرح پڑھی جائے کہ جیسے نمازی اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ کیفیت نہ پیدا ہو سکے، تو کم از کم یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ اللہ نمازی کو دیکھ رہاہے۔ اسی مفہوم کو حدیث جبریل میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے:
"الإحسان أن تعبد اللہ کأنک تراہ، فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک" (متفق علیہ)
"احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کروکہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو، تو کم از کم یہ کیفیت تو پیدا کرو کہ اللہ تم کو عبادت کرتے ہوئےضرور دیکھ رہاہے۔"
اس بابت حدیث "مسی الصلاۃ" کونظر میں رکھنا ضروری ہے۔وہ حدیث یہ ہے کہ ایک بار ایک صحابی نے مسجد نبوی میں نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کے بعد اللہ کے رسول کے پاس جا کر سلام کیا۔ آپ نے فرمایا: "إرجع فصل فإنک لم تصل" "جاؤدوبارہ نماز پڑھو۔کیونکہ تم نے (کماحقہ) نماز نہیں پڑھی"
اس طرح تین بار ہوا۔ تو صحابی نے عرض کیا:اللہ کےرسول! میں اس سے بہتر نماز پڑھ نہیں سکتا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا صحیح طریقہ ان کو بتایا۔ جس میں آپ نے خاص بات یہ بتلائی کہ قیام، رکوع، قومہ،سجدہ، جلسہ بین السجدتین ، جلسۂ استراحت، سب کے سب خوب اطمینان سے ادا کرو۔ (متفق علیہ)
لیکن افسوس کہ فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت گویا نماز میں کبوتر کے دانہ چگنے کی طرح اُٹھک بیٹھک کرتی ہے۔ اور اس پریہ غرہ کہ ہم نمازی ہیں، اس کے باوجود وعدۂ الہٰی سے محروم ہیں؟ تو ایسے نمازيوں سے عرض ہے کہ تمہاری نمازتو تمہارے منہ پر مار دی جار ہی ہے۔تو پھر کیسے وعدۂ الہٰی پورا ہوگا؟
اَخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گوہیں کہ دم آخریں تک ہمیں صحیح طریقے سے نماز ادا کرتے رہنے کی توفیق دے اور سابقین اوّلین جو نبوی طریقہ پر نماز ادا کرتے ہوئےاس دنیا سے رخصت ہو گئے انہی کے ساتھ قیا مت کے دن ہمارا حشر ونشر ہو۔ "وحسن أولئک رفیقا"۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین .
http://www.minberurdu.com/" onclick="window.open(this.href);return false;باب_عبادات/نماز_کی_اہمیت_اور_اس_کی_تشریعی_حکمت.aspx
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”