بیٹا ایک کہانی سنو

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

بیٹا ایک کہانی سنو

Post by میاں محمد اشفاق »

بہت پرانی کتاب تھی۔
بچوں کی کہانیوں کی کتاب !کتاب میں شامل کہانیاں اتنی دلچسپ تھیں کہ وہ ایک دو تین کہانیاں پڑھتا گیا۔
ہر کہانی کو پڑھنے کے بعد اس پر غور کرتا۔ اس کہانی میں کردار سازی کے پہلو تلاش کرتا۔ اس میں نصیحت کا عنصر تلاش کرتا۔ دونوں چیزیں تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں ان میں موجود تھے۔ اور دلچسپی تو جیسے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ قارئین اگر پہلی سطر پڑھتے تو پوری کہانی پڑھے بنا چین نہیں پائے۔
تین کہانیاں پڑھ لینے کو بعد اسے اپنی بیوقوفی پر ہنسی آئی۔
’’وہ بے وقوف بچوں کی کہانیاں پڑھ رہا ہے ؟ کیا اس کی عمر بچوں کی کہانیاں پڑھنے کی ہے ؟اب وہ بچوں کی کہانیاں پڑھنے کی عمر میں نہیں بچوں کو کہانیاں سنانے کی عمر میں قدم رکھ چکا ہے۔ ‘‘
’’بچوں کو کہانیاں سنانے کی عمر؟ ‘‘اپنی ہی سوچی بات پر وہ پھر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
’سچ مچ یہ میری بچوں کو کہانیاں سنانے کی عمر ہے۔ اس عمر میں میرے والد، دادا، چاچا، نانا، نانی،دادی، چاچی اماں وغیرہ مجھے کہانیاں سنا تے تھے۔ جب میں بچہ تھا۔ میرے پاس کہانیوں کا خزانہ ہے یہ کہانیاں میں نے بچپن میں اپنے والد، دادا، دادی، نانی س چاچا وغیرہ سے سنی تھیں۔ اس عمر تک ہزاروں کتابیں پڑھیں۔ ان کتابوں میں ایسی کئی کہانیاں تھیں جو میرے ذہن پر نقش ہو کر وہ گئی۔ جو مجھے یاد ہے۔ میں وہ کہانیاں بچوں کو سنانا چاہتا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ بچے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہانی سنانے کی فرمائش کرے۔ جس طرح بچپن میں وہ اپنے بز رگوں سے کہانیاں سنانے کی فرمائش کر تھا ضد کرتا تھا۔ ‘‘
اور ان سے ایک کے بعد ایک کئی کہانیاں سنتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی کہانیوں کا ذخیرہ ختم ہو جا تا تھا۔ لیکن میری کہانیاں سننے کی پیاس نہیں بجھتی تھی۔۔
لیکن زمانہ بدل گیا ہے۔
جب وہ اپنے بزرگوں سے کہانی نہ سن پاتا تھا تو وہ انسے ناراض ہو جتا تھا۔ روٹھ جاتا تھا۔ اور غصے میں اپنی ناراضگی ا ظہار کر نے کے لئے رونے لگتا تھا۔
اسے روتا دیکھ کر ہرکسی کا دل پسیج جاتا تھا۔ اور وہ اسے پیار سے اپنے قریب کر تے ہوئے کہتے تھے۔
’نہیں میرے بچے ناراض کیوں ہوتے ہو! تم کہانی سننا چاہتے ہونا۔ تو لو ! میں ابھی تمھیں کہانی سناتا ہوں۔ ‘‘
’نہیں سننی ہے مجھے کہانی۔ ‘‘غصے سے روتا وہ چیخ اٹھتا تھا۔
’’نہیں بیٹے اس طرح ضد نہیں کرتے۔ ہاں تو سنو کہانی۔۔ ‘‘
اور اس کے بزرگ کہانی شروع کر دیتے تھے۔ اور کہانی کی پہلی سطر کے ساتھ ہی اس کا غصہ غائب ہو جا تھا اور وہ ہمہ تب گوش ہو کر کہانی سننے لگتا تھا۔
ان کہانیوں میں ایسا جادو تھا کہ ان کو بار بار سننے کو دل چاہتا تھا۔
اس کے بزرگ اسے جو بھی کہانیاں سناتے تھے وہ تمام کہانیاں اس نے پہلے سے سن رکھی ہوتی تھی۔۔ اسے یاد ہوتی تھی۔
لیکن پھر بھی اس کا دل ان کہانیوں کو سننے کو بار بار چاہتا تھا۔
اور وہ اپنے بزرگوں سے فرمائش کر کے کہانیاں سنتا تھا۔
’لال پری اور لنگڑے دیو کی کہانی سنائیے۔
’کسان کے سات بیٹوں کی کہانی سنائیے !
لالچی لکڑہارے کی کہانی سنائیے !
لیکن آج جب وہ کہانیاں سنانے کی عمر میں داخل ہو چکا تھا تو کوئی بھی اس سے کہانی سننے کو تیار نہیں تھا۔ نہ تو اس کا بیٹا اس سے کہانی کی فرمائش کر تا تھا نہ اس کے بھائی کے بچے،نہ پڑوسیوں، محلے کے بچوں نے کبھی اس سے کوئی کہانی سنانے کی فرمائش کی تھی۔۔
ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس زمانے کے بچوں کو کہانیاں سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
رات میں سو تے وقت وہ اپنی ماؤں سے نہ تو کہانیاں سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور نہ ہی لوریاں سنانے کی۔ مائیں جیسے لوریاں بھول گئی ہیں۔ اور یہ بھی بھول گئی ہے بچپن میں ان کی مائیں انھیں لوریاں گا کر سلایا کرتی تھیں۔ اور وہ سب لوریاں انھیں یاد ہو گئے ی تھیں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے کیونکہ یہ سرمایہ تو سینہ در سینہ منتقل ہو تا ہے۔۔
لیکن ان کو اپنے بچوں کو لوریاں سنانے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔
بچے ٹی وی پر یا میوزک سسٹم پر پاپ راک کے بے ہنگم گانے سنتے انھیں گنگناتے خود ہی سو جاتے ہیں۔
اس کے اندر سینکڑوں کہانیاں ہیں وہ کہانیاں باہر آنے کے لئے مچل رہی ہیں اس کا ذہن ان کہانیوں کو سنانے کے لیے الفاظ کا انتخاب کر چکا ہے۔
اس کا گلا ان الفاظ کی ادائیگی کے لئے آواز اورسروں کا انتخاب کر چکا ہے۔ اس کے ہونٹ ان کہانیوں کے الفاظ کو بیان کر نے کے لیے کونسی شکلیں ہونٹوں کو دی جائیں اس طے کر چکے ہیں۔
لیکن پھر بھی کوئی بھی کہانی اس کے اندر سے باہر نہیں آتی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے اسنے اپنے ۸ سالہ بیٹے سے کہا۔
’بیٹا آؤ تمھیں ایک کہانی سناتا ہوں۔
’کہانی! یہ کیا ہوتی ہے ڈیڈی۔
’تم کہانی نہیں جانتے ؟
’’نہیں ڈیڈی !‘‘
ارے وہی جو تمھاری کتابوں میں ہوتی ہے۔ لالچی کتا، خرگوش اور شیر،بندر اور مگر مچھ۔۔۔ ‘‘
’لیکن ڈیڈی وہ کہانیاں کہاں ہیں۔۔ وہ تو اسباق ہیں۔۔ ‘‘
بیٹے کی بات سن کر وہ پریشان ہو گیا۔ اب اسے وہ کس طرح بتائے کہ کہانی کیا ہوتی ہے۔
’’ٹھیک ہے بیٹے ! اگر وہ اسباق ہیں تو ایک نیا سبق ہی سن لو۔۔ ‘‘
’نو ڈیڈی نہیں۔۔ بیٹا ہاتھ جوڑ کر بولا ’’مجھے پہلے ہی اسکول میں اتنی کتابیں اور اسباق پڑھنے پڑھتے ہیں کہ مجھ میں ایک اور سبق سننے کی طاقت نہیں ہے۔ ‘‘
اور وہ ایک لمحہ بھی اسکے سامنے نہیں رکا بھاگ کھڑا ہوا۔
اس کے اندر سے جو کہانی باہر نکلنے کے لئے بیتاب تھی اسے اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنا پڑا۔
کئی بار وہ اپنے بیٹے کو کہانی سنانے کی اس طرح کی کوشش کر چکا تھا۔
’ڈیڈی! آپ نے ٹی وی پر دیکھا۔ سند باد کی کہانی دلچسپ موڑ پر پہونچ گئی ہے۔ ‘‘اس دن بیٹے نے اس سے کہا تھا۔
’سند باد کی کہانی تو مجھ اچھی طرح یاد ہے۔ بچپن میں میرے دادا مجھے یہ کہانی سنایا کرتے تھے۔ پھر جب میں اسکول جانے لگا تو میں نے یہ پوری کہانی ’’الف لیلہ‘‘ میں پڑھی تھی۔ الف لیلہ بڑی دلچسپ کتاب ہے۔ اس میں ہزاروں دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔۔ ‘‘
’’تو ڈیڈی بتائیے نا! کیا سند باد جادوگرنی کو ختم کر دے گا؟ اس کے بیٹے نے اس سے پوچھا۔
’’سند باد کی کہانی میں جادو گرنی۔۔۔ اسے حیرت ہوئی لیکن مجھے جو سند باد کی کہانی یاد ہے۔ میں نے جو سند باد کی کہانی پڑھی اس میں تو کسی جادوگرنی کا ذکر نہیں ہے ؟‘‘
’’لیکن ٹی وی پر تو جو سند باد کی کہانی بتائی جا رہی ہے وہ ایک جادو گرنی کے گرد گھومتی ہے۔ ‘‘
’’ٹی وی کی کہانی اور الف لیلہ کی کہانی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔۔۔ ‘‘
’’مجھے تو ٹی وی والا سند باد پسند ہے۔۔ ‘‘بیٹا بولا۔۔ ’’مجھے کتاب میں کہانی پڑھنے یا کہانی سننے میں مزہ نہیں آتا ہے۔ جو کچھ کہانی میں بیان کیا جاتا ہے اسے سوچ کر تصور کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹی وی تو ہر چیز اس طرح پیش کی جاتی ہے جیسے سارے واقعات آنکھوں کے سامنے ہو رہے ہیں۔
بیٹے کی بات سن کر وہ بے بسی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ یہ طے کر نہیں پا رہا تھا کہ کتابوں میں شائع دلچسپ کہانیوں پڑھ کر دل بہلانا مفید ہے یا۔ ٹی وی کے رنگین پر دے پر خوبصورت مناظر، دلکش موسیقی اور دل کو لبھانے والے چہروں کی اداکاری کے ذریعے پیش کی جانے والی کہانی دیکھنا۔
بیٹا اس کی ماں پڑوس کی ایک دو عورتیں دیر رات تک ٹی وی کے سیریل دیکھتے رہتے ہیں۔ اور وہ بیزار سا اپنے کمرے میں جلد سوجاتا ہے یا کتابیں اخبارات پڑھ کر اپنا وقت کاٹتا ہے۔
بیوی ٹی وی سیریل کی اداکاراؤں کے ملبوسات کو غور سے دیکھ کر ان کے ڈیزائن اپنی کاپی میں نقل کرتی ہے اور دوسرے دن پڑوس کی عورتوں سے ان ملبوسات ان کی قیمت ان کے میڑیل وغیرہ پر زور دار بحث کر تی ہے۔
اور لڑکا اکثر ایم ٹی وی یا چینل وی جیسے میوزک چینل لگا کر ان کے بے ہنگم دھنوں پر تھرکتا رہتا ہے۔
کبھی کار ٹون کے چینل دیکھ کر کارٹون کے کردارپوکے مان وغیرہ سے کھیلتا ہے تو کبھی اس سے کارٹون کے کھلونے بے بیلٹ لانے کے لئے ضد کرتا ہے۔ اور ان کھلونوں کے مل جانے کے بعد پڑوس کے بچوں کے ساتھ اسی انداز میں وہ ان کھلونوں کے ساتھ کھیلتا ہے جس انداز میں کارٹون چینل کے کارٹون سیریل میں بتا یا گیا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا ڈسکوری چینل دیکھے۔ نیشنل جوگرافک چینل باقاعدگی سے دیکھے لیکن چینل سرچ کرتے ہوئے جب بھی ٹی وی کے پردے پر یہ چینل ابھر تے ہیں وہ تیزی سے آگے بڑھ جاتا ہے۔
ہاں وہ ڈبلیو ڈبلیو ایف باقاعدگی سے دیکھتا ہے۔
اکثر اس پروگرام کے لئے ماں اور بیٹے میں جنگ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ٹین اسپورٹس یا کسی اور چینل پر جب بھی یہ پروگرام آ رہا ہو تا ہے اسی وقت دیگر چینلس پر خواتین کے لیے بھی دلچسپ پروگرام آ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بیوی اور گھر میں جمع دوسری عورتیں ان پروگرام کو دیکھنا چاہتی ہیں لیکن بیٹا ڈبلیو ڈبلیو ایف دیکھنے کے لے ضد کر تا ہے۔
اور اس بات پر ماں بیٹے میں جنگ ہو جاتی ہے اور ماں بیٹے کو دو تین تھپڑ جڑ دیتی ہے۔
آخر میں دونوں میں سمجھوتہ اس بات پر ہوتا ہے کہ بریک کے دوران بیٹا ڈبلیو ڈبلیو ایف دیکھے گا اور عورتیں سیریل۔۔
اس نے اپنے بیٹے کو اکثر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پہلوانوں کے اسٹائل میں لڑتے دیکھا ہے۔
وہ کسی پر ہاتھ بھی ان پہلوانوں کے انداز میں اٹھاتا تھا۔ یہاں تک اس نے اکثر دیکھا تھا اس کا بیٹا پلنگ کے تکیے کے ساتھ ریسلنگ کر رہا ہے۔
وہ تکیوں کو کسی مد مقابل پہلوان کی طرح پکڑ کر اس کے ساتھ مد مقابل پہلوان کی طرح حرکتیں کر تا۔ تکیے کو بار بار زمین پر یا پلنگ پر پٹکتا ہے او ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پہلوانوں کی طرح منہ سے آوازیں نکالتا ہے اور کبھی کبھی تو عجیب و غریب الفاظ اور آواز میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کامینٹیٹروں کی طرح کامینٹری کرنے لگتا ہے پھر بھلا اسے کہانیوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ایک دو بار اس نے بچے میں پڑھنے کا شوق جگانے کے لیے ٹی وی کے کرداروں پر مبنی کامکس لا کر دیں۔
کہ اس طرح اس میں پڑھنے کا شوق جاگے گا۔ پارو پاس گرلز، اسپائڈرمیں پوپائی وغیرہ کے کرداروں پر جو بھی کامکس کی کتاب ملی وہ لے آیا اور لا کر اسنے بیٹے کو دیا۔
’’دیکھو بیٹا میں نے تمھارے پسندیدہ کارٹون کے کرداروں پر مبنی کامکس لائی ہیں۔ انھیں پڑھو تمھیں بڑا مزہ آئے گا۔۔‘‘
اسے پورا یقین تھا جب اس کا بیٹا یہ کامکس پڑھے گا تو اس میں پڑھنے کا شوق جاگے گا اور اس کے پاس جو ڈھیر ساری کتابیں ہیں ایک دن وہ ان کتابوں کے ڈھیر میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرے گا اور انھیں پڑھے گا۔ اور اس کی ان کتابوں فین بن جائے گا۔۔
لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
بیٹا مشکل سے ایک آدھ کامکس کی کتاب پوری پڑھ پایا تھا۔
اس نے جب بیٹے سے پوچھا تھا۔
’بیٹا!میری لائی ہوئی کامکس کی کتابیں پڑھیں ؟‘‘
نہیں ڈیڈ!
’مگر کیوں۔۔ ؟
’بہت بور کام ہے۔ ان بور کتابوں کو پڑھنا بہت بور کام ہے۔ اس سے تو اچھا ہے ٹی وی پر ان کرداروں پر مبنی سیریل اور کارٹون فلمیں دیکھی جائے۔۔۔
اسے اس بات کا بہت دکھ ہوتا تھا کہ اس کے بچے کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔
لیکن جب وہ اپنے بیٹے کے روز کے معمولات کو دیکھتا تو اسے محسوس ہوتا بچے پر پڑھائی اتنا بوجھ ہے کہ وہ دوسری کتابیں پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتا ہے۔
سویرے اسکول جاتا ہے دوپہر میں دو جگہ ٹیوشن،کھیلنے کے لئے اسے مشکل سے ایک گھنٹہ مل پاتا ہے۔ پھر ہوم ورک کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اور باقی تھوڑا سا وقت مل گیا تو اس میں ٹی وی نہیں دیکھے گا تو کیا کریگا۔ ؟
اس کے پاس پڑھنے کے لئے وقت کہاں ہے۔
یہی کیا کم تھا کہ پڑوسی کمپیوٹر لے آیا۔
اب اس کے بیٹے کا زیادہ تو وقت پڑوسی کے کمپیوٹر پر گزرنے لگا۔
وہ پڑوس کے لڑکے کے ساتھ کمپیوٹر گیم کھیلنے لگا۔
وہ کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں اتنا کھو جاتا تھا کہ اسے کسی بھی بات کی سدھ نہیں ہوتی تھی۔ نہ کھانے کی نہ پینے کی اور نہ کسے اور بات کی۔
کمپیوٹر سے اٹھانے پر وہ اٹھانے والے کے ساتھ جھگڑا کرنے لگتا یا پھر آ کر اس سے ضد کرنے لگتا۔
’ڈیڈی مجھے بھی کمپیوٹر لا کر دیجئے نا۔۔۔ ‘‘
کمپیوٹر خریدنے کے وہ بھی خلاف نہیں تھا۔ اسے کمپیوٹر گھر لانے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن بیوی اس کے بے حد خلاف تھی۔
’اس گھر میں کمپیوٹر نہیں آئے گا۔ اگر گھر میں کمپیوٹر آ گیا رو یہ لڑکا پڑھنا لکھنا چھوڑ کر رات دن کمپیوٹر گیمس کھیلنے میں مصروف رہے گا۔ اس کی پڑھائی کا نقصان ہو گا۔۔ ‘‘
اس لیے کمپیوٹر گھر تو نہیں آ سکا لیکن اسے محسو س ہوا گھر میں کمپیوٹر کے بجائے اس سے خطرناک ایک چیز آ گئی ہے۔
اس کا سیل فون۔
اس کے پاس ایک اچھا موبائل فون تھا۔ وہ جب بھی گھر آتا تھا اور اس کا بیٹا گھر میں ہوتا تھا۔ تو جھپٹ کر اس کا موبائل لیتا تھا اوراس کے موبائل میں گیمس کھیلنے لگتا تھا۔ اس کے موبائل میں کتنے گیم ہیں۔ اور ان کو کس طرح کھیلا جاتا ہے اسے اس بات کا علم نہیں تھا لیکن اسے اس بات کا علم تھا اس کا بیٹا آئے دن موبائل سروس دینے والوں کی ویب سائٹ یا دیگر ویب سائٹ سے نئے گیم ڈاؤن لوڈ کر کے انھیں کھیلتا تھا جس کی وجہ سے اکثر اسکے سیل فون کا بیلنس کم ہو جاتا تھا۔
ان کی بڑی عجیب زندگی تھی۔
ایک چھت کے نیچے وہ رہتے تھے۔ لیکن ہر کسی کی الگ دنیا تھی۔
وہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے لیکن ان کے خیالات کہیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔
بیٹے کی اپنی الگ دنیا تھی۔ وہ جو حرکتیں اور باتیں کرتا تھا اسے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔
بیوی کی الگ دنیا تھی۔ ٹی وی کے سیریل، کپڑے،زیورات سیر سپاٹا سہیلیاں وغیرہ۔
اور اس کی ایک الگ دنیا تھی۔
اصول، آدرش، روایتوں،علم ریاضت کی دنیا۔
ان کا بیوی اور بیٹے کی زندگی میں کوئی مقام نہیں تھا۔
لیکن پھر بھی وہ ایک گھر میں ایک چھت کے نیچے جی رہے تھے۔
سمجھوتے کر کر کے، یا ایک دوسرے سے بالکل لاتعلق سے ہو کر ایک دوسرے کے جذبات، احساسات، خیالات کو بنا سمجھے۔
وہ جب بھی بیٹے سے کہتا۔
’’بیٹا ایک کہانی سنو۔ ‘‘
بیٹا جواب دیتا تھا۔
’ڈیڈی میرے پاس کہانی سننے کے لیے وقت نہیں ہے۔ مجھے کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔ مجھے کہانی سننے میں مزہ نہیں آتا ہے۔۔۔ ‘‘
تو اسے محسوس ہو تا جس کام میں اس کے بیٹے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسے اس پر وہ کام کرنے کے لیے زور ڈالنا نہیں چاہئے۔
کہانی دکھانے کا کام ٹی وی، ویڈیو، کمپیوٹر،موبائل کر رہے ہیں۔ تو انھیں اپنا کام کرنے دینا چاہئے آ ج کے دور میں جب وہ دادا، دادی، نانا، نانی،،چاچا، چاچی بن گئے ہیں اور بچوں کو کہانیاں سنانے کے بجائے دکھا رہے ہیں۔
تواسے، اس جیسے انسانوں کو بزرگ بننے کی کیا ضرورت ؟
بزرگوں کا کام شاید مشینوں کو سونپا جا چکا ہے۔

[link]https://www.facebook.com/urdunama[/link]
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: بیٹا ایک کہانی سنو

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
شاہین اعوان
دوست
Posts: 292
Joined: Sat May 12, 2012 11:08 pm
جنس:: عورت

Re: بیٹا ایک کہانی سنو

Post by شاہین اعوان »

v;g v;g
کتاب اور کہانی انسان کے دیرینہ دوست لیکن مشینی ایجادات نے دونو ں کی اہمیت ھی ختم کر دی اور انسان خود بھی ایک مشین بن گیا- مشینیں بنانے اور خریدنے والی مشین
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”