ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

Post by میاں محمد اشفاق »

مولانا اعجازالرحمن شاہین قاسمی

ایڈیٹر ماہنامہ ”سروشانتی “دہلی

جیل سے ایڈیٹر ماہنامہ ”سروشانتی “دہلی کے نام ایک نومسلم کا خط جو ابھی جیل میں سرگرم داعی ہے اور اب تک اکیس لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن چکا ہے

آج ہماری صفوں میں انتشار کیوں ہے ؟ اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ہم بے وزن کیوں ہیں؟ ہر طرف کیوں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ؟ ہمارے دینی شعائر داڑھی ،برقعہ اور مذہبی شخصیتوں کا مذاق کیوں اڑایا جا رہا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جومسلم عوام کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں ؛ اور یہ وہ حالات ہیں جن سے امت مسلمہ کا ہر طبقہ جوجھ رہا ہے۔

آج امت کی پستی اور بدحالی کا سبب یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے اصل کام کو چھوڑ چکی ہے ،اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ چکی ہے۔ آج اسلام کی طرف دعوت دینے کے بجائے مسلک کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن وحدیث کی بلا واسطہ نشرواشاعت کے بجائے مسالک کے قالب اور حلیے میں اسلام کو پیش کیا جا رہا ہے۔ آج کفروشرک کی تردید و تکفیر کی جگہ ایک مسلک دوسرے مسلک کی تردید و تکفیر پر اپنا پورا سرمایہ اور طاقت صرف کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری صفوں میں انتشار ہے اور اسی رویہ نے ہمیں دشمنوں کے لیے اور زیادہ لقمہ تر بنا دیا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے بنا کسی تاخیر کے دعوت کا کام شروع کر دیں، سب کے لیے دعائيں کريں اور کسی مسلک کو نشانہ بنا کر جنگ وجدال کا ذريعہ نہ بنائیں ،اللہ رب العزت سے اصلاح کے لیے دعا کریں۔ ہم دنیا میں جنگ و جدال اور فساد پیدا کرنے کے لیے نہیں آئے، ہمارا کام دنیا سے جنگ و جدال اور فساد کو ختم کرنا تھا، ہم نے جب یہ کام چھوڑ دیا تو ہم خود ہی اختلاف کے شکار ہو گئے۔ ہمارا کام دنیا کو کفر و شرک ، زنا، جھوٹ، چوری اور دوسری برائیوں سے بچانا تھا ،ہم نے جب یہ کام چھوڑ دیا تو ہم خود ہی ان برائیوں کے شکار ہو گئے۔ ہمارا مشن ،ہمارا مقصد اور ہمارا کام صرف اور صرف ایک ہے ۔ اسلام کی دعوت ، اسلام کی ضیافت ، اسلام کی اشاعت۔

ذیل کایہ خط ایک ایسے غیر مسلم قیدی کاہے جو جیل سے ہمارے ہندی ماہنامہ’ سرو شانتی‘ کے دفتر ميں لکھا گیا ہے۔ ہندوستان کے جیلوں میں بند مسلم وغیرمسلم قیدیوں کو بڑی تعداد میں یہ ہندی ماہنامہ بھیجا جاتا ہے اورہمیں ان کے تاثرات بھی موصول ہوتے رہتے ہیں، جو ہمیں شدت کے ساتھ اس بات کا احساس کراتے ہیں کے ہمیں دعوت الی اللہ کا کام اورزیادہ تیزی سے کرنا چاہیے۔ کاش امت مسلمہ اس کام کی اہمیت وضرورت اوراسکی حکمت کو سمجھتی اور اس کے لیے اپنی زندگی اور وسائل کو وقف کر دیتی۔(اعجازالرحمن شاہین قاسمی)

اورنگ آ باد جیل سے پون کمار کيوٹ کی طرف سے ہندی ماہنامہ’ سرو شانتی‘ کے ایڈیٹر مولانا اے آر شاہين قاسمی صا حب اور نگرا ں حضرت مولانامحمد کلیم صدیقی صاحب کی خدمت میں تسلیمات!

ایڈیٹرصاحب! آپکاہندی ماہنامہ’ سرو شانتی‘ اس جیل میں شا ہد انصا ری بھائی کے پاس آتا ہے،اللہ کے کرم سے مجھے پڑھنے کے لیے شاہد بھائی بھيج ديتے ہیں۔ يہ رسالہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔لوگوں کو دین دنيا کی سچائی کی پہچان کرانے کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔اس لیے میں اپنی سچی کہانی لکھ کر بھیج رہا ہوں تاکہ جولوگ سچ جاننے کی کوشش میں لگے ہیں انہیں سچائی کی پہچان ہو سکے۔

میرا نام پون کمار کیوٹ ہے ، میں یوپی میں مہارراج گنج ضلع کا رہنے والا ہوں، میری پیدائش ایک کیوٹ خاندان کے ہندودھرم میں ہوئی ہے ۔ میں اپنی کہانی جیل سے شروع کررہاہوں، میں اپنے دھرم کا کٹر تھا ، ہندودھرم کے حساب سے ہر دیوی دیوتا کو بھگوان کے روپ میں مانتا تھا لیکن سب سے زیادہ بجرنگ بلی کی پوجا کرتا تھا ۔ ہر منگل کو اپواس (روزہ ) بھی رکھتا تھا۔ مسلمانوں کے رویے کی وجہ سے مجھے اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت تھی ۔ اسکے پہلے میں ہندو یووا وا ہنی کا ممبر بھی تھا ۔

2005ءمیں جیل میں آیا،میرے اوپر ڈکیتی کے کئی کیس تھے ۔ایک دن جیل میں اپنے دوست وجے کے ساتھ گھوم رہاتھا کہ دیکھا سبھی مسلمان قیدی اکٹھے ہورہے ہیں،پتہ لگانے پر معلوم ہوا کہ آج ان کی عید کا دن ہے ،دل نے کہا تم بھی ان کے ساتھ شریک ہوجاو ،پھر اپنے دل کی بات اپنے دوست وجے سے بتادی ۔وہ بھی تیارہوگیا،ہم دونوں وہاں گئے،ان میں سے ایک مسلمان جس کا نام نواب تھا اس سے ہم نے نماز میںشرکت کی خواہش ظاہر کی تو اس نے کہا:کیوں نہیں ضرور شریک ہوسکتے ہو۔ میں نے کہا :مجھے توپڑھنا نہیں آتا۔ انہوں نے کہا: پڑھا تو بہت کچھ جاتا ہے ،لیکن آپ لوگ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنااور اس کا مطلب بھی بتایا جواچھا لگا۔اس طرح ہم ان کے ساتھ شریک ہوگئے ،ایک مولاناتقریرکرنے کے لیے آئے تھے ، ان کی باتیں سن کر کچھ مسلمان رو بھی رہے تھے ۔ان کی باتیں مجھے بہت اچھی لگ رہی تھیں ،اس سے پہلے میں نے ایسی باتیں نہیں سنی تھیں ۔

نماز کے بعد سب لوگ شیر خرمہ پینے لگے ،ایک کٹوری میں تین تین لوگ جھوٹا کرکے کھاتے تھے ،مجھے تھوڑی دیر کے لیے یہ منظر اچھا نہیں لگا پھر دل میں خیال آیا کہ ان میں کتنی محبت ہے کہ اونچ نیچ اور چھوت چھات نہیں دیکھتے چنانچہ میں نے بھی شیر خرمہ پی لیا ۔

نواب بھائی سے میں نے سوال کیا کہ مسلمان کتنی طرح کے ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا:مسلمان ایک ہی طرح کا ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کا حکم مانتا ہے ۔

اب میں زیادہ تر نواب بھائی کے ساتھ گھومتاتھا ۔ نواب بھائی نماز پڑھتے تو میں ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور قرآن پڑھتے تو میں بھی سنتا تھا ۔ مجھے نماز اور قرآن پڑھنے کا یہ منظر بڑا اچھا لگتا تھا ۔

قریب ایک مہینہ تک میں اسلام سے متعلق جانکاری لیتا رہا ۔ ایک دن میں نے نواب بھائی سے کہا : مجھے مسلمان بننا ہے ، یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے ،میں نے کہا: میرا ختنہ کرادو ، تو بولے : ختنہ کرانے سے کوئی مسلمان نہیں بنتا ہے ۔ بلکہ سچے دل سے گواہی دینے سے مسلمان بنتا ہے کہ ” اللہ ہی عبادت کے لائق ہے اس کے سواکوئی لائق عبادت نہیں اور محمد صلى الله عليه وسلم اللہ کے رسول ہیں‘ ‘ ۔

نواب بھائی نے مجھے نہلایا ‘ پھر کلمہ پڑھا دیا اورمیرا نام محمد عمر رکھا اور کہا تمہاری کہانی حضرت عمر رضي الله عنه سے ملتی جلتی ہے۔ اس ليے تمہارا نام عمر مناسب ہے۔ اسلام قبول کرنے کا وہ دن میری زندگی ميں بہت اہم دن ہے ۔ ميں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اسلام کی گرانقدر دولت سے نوازا ہے۔ 2006ءميں پھر اورنگ آباد جیل ميں آگیا ۔ اللہ کے کرم سے یہاںنماز پانچوں وقت کی ہوتی تھی۔ ميں نے الحمدللہ یہاں پر تین بار قرآن معنی کے ساتھ پڑھا ۔ قرآن کے مطالعہ سے مجھے بہت ساری معلومات ہوئیں،بہت ساری سچائیوں کی جانکاری ملی ۔ تاہم اس وقت تک ميں داعی نہيں تھا ۔اسلام پر عمل کرتااوربس۔ لیکن اس وقت میری زندگی میں اہم موڑ آیا جب ميں نے محمد صلى الله عليه وسلم کی سیرت پاک پڑھی، مجھے بہت رونا آیا کہ انہوں نے اسلام پھیلانے کے ليے کتنی تکلیفیں سہیں تب جاکر اسلام پوری دنیا ميں پھیلا۔ بالآخراللہ تعالی اس گنہگار بندے سے بھی اپنے دین کا کام لینے لگا ۔ ميں نے جیل ميں اسلام کی دعوت کھلے عام دینا شروع کردیا ۔ میرا مقصد اتنا تھا کہ ميں اپنے رب کا دین لوگوں تک پہنچا دوں۔ ایک دن ميں پانچ پانچ ‘ چھ چھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا ،پھر شام تک ان سے جواب مانگتا ۔ جب ان ميں سے کوئی ایمان نہيں لاتا تو ميں اسے صرف اتنا کہتا کہ گواہ رہنا :ميں نے تم تک اللہ کا پیغام پہونچا دیا۔ رفتہ رفتہ میری باتوں کا لوگوں پر اثر ہونے لگا ۔ لوگ ایمان لانے لگے ،لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے موقع اور وقت مانگتے تھے ۔ ميں نے سوچا کہ اسلام قبول کرنا کوئی کھیل نہيں ہے چنانچہ ميں ٹائم دینے لگا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ 21 لوگوں نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کیا (تازہ رپورٹ کے مطابق مزید2 کا اضافہ ہوا ہے )۔ ان21 لوگوں ميں بہت سے ایسے لوگ تھے جومیرے قبولِ اسلام کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتے تھے ۔جب کوئی مجھ سے اسلام کے تعلق سے سوال کرتاہے توميں اسے یہی کہتا ہوں کہ اگر تم سچے ہندو ہو تو کم سے کم اپنے دھرم کے وید وں اورپُرانوں کی باتوں کو تو مانوجس میں واضح طورپربتایا گیا ہے کہ اللہ (ایشور) ایک ہے، صرف وہی پوجا کے لائق ہے۔ اسلام دھرم ہمارا بھی دھرم ہے۔ محمد صلى الله عليه وسلم ہمارے بھی رہبر ہيں۔

آج بھی ميں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، ليکن يہاں ایسا ماحول ہو گیاہے کہ اگر کوئی ہندو میرے ساتھ بيٹھتا یا بات کرتا ہے تومتعصب قسم کے لوگ اس کے ذہن میں طرح طرح کے وساوس ڈالتے ہیں” پون کے پاس مت بیٹھوورنہ وہ تمہيں مسلمان بنا دے گا“ ۔ یہاں تک کی اسلام کی کتابيں بھی پڑھنے سے منع کرتے ہيں۔ کیونکہ انہيں معلوم ہے کہ اگر پون کے ساتھ دس دن رہا تو ضرور اسلام قبول کر لیگا، متعددبار ایسا ہوا کہ ان کے منع کرنے کے باوجود بھی کئی لوگ ميرے پاس بیٹھتے رہے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔

اسلام سچا دھرم ہے، اس لبے ميں اسکے بارے ميں بتانے سے کسی سے نہيں ڈرتا اگر ميرے دل ميں آیا کہ فلاں آدمی کو اسلام کی دعوت دینا ہے تو ميں اسے اچھے اخلاق کے ساتھ دعوت دیتا ہوں۔ ميں نے اپنے گھر والوں کو بھی خط کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی ہے۔ ميرے گھر والوں کو سمجھ ميں آیا ہے۔ ميری امی کہتی ہے: تیرے آنے کے بعد ہم سوچیں گے۔ امید ہے کہ میرے گھروالے اسلام قبول کر ليں گے۔اللہ انہيں ہدایت دے۔( آمین)

میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کی اسلام کوئی نیا دھرم ، یا صرف مسلمانوں کا دھرم نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ہی سناتن دھرم ہے محمد صلى الله عليه وسلم صرف مسلمانوں کے پیغمبر نہیں ہیں بلکہ ہر ہندو کے رہنما اور پیغمبر ہیں اس بات کی تصدیق ویدوں اور پرانوں نے کیاہے ۔ اگر میری بات جھوٹ لگ رہی ہو تو ڈاکٹرایم اے شری واستو کی کتاب ”حضرت محمدصلى الله عليه وسلم اور بھارتیہ دھرم گرنتھ “پڑھ سکتے ہیں سچائی خود بخود ہر ہندو کے سامنے آجائے گی۔

مجھے اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے زیادہ مسلمانوں سے تکلیف پہونچی ہے۔ ميں سوچتا ہوں کہ محمد صلى الله عليه وسلم کے زمانے ميں اسلام قبول کرنے والوں کو غیروں سے تکلیف پہونچتی تھی‘ لیکن آج مسلمانوں سے تکلیف ہو رہی ہے۔ خیر مجھے صبر اس بات سے ہے کہ جن مسلمانوں سے تکلیف ہورہی ہے ‘ انہيں اسلام کے بارے ميں علم نہيں ہے۔ قرآن ميں کیا لکھاگیا ہے‘ نبی صلى الله عليه وسلم نے کیا کہا ہے ؟ یہ بھی انہيں پتہ نہيں ہے۔ اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ايسے مسلمان بہت کم ملے ہيں۔ زیادہ تر سچے مسلمان ہی ملتے ہيں۔ انہيں مجھ سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ میری ہر مسلمان سے گذارش ہے کہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ قرآن کو ترجمہ و تشریح کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں۔اور نبی صلى الله عليه سلم کی حدیثوں کابھی مطالعہ کریں، غیر مسلموں اور نومسلموں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں، نومسلموں کی مدد کریں۔ا نہیں پناہ دیں‘ انہیں اپنا بھائی سمجھیں اوراللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچائیں

میرے لیے اللہ سے دعا کریں۔ اللہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے (آمین)

اللہ حافظ

پون کمارکیوٹ عرف محمد عمر
Last edited by میاں محمد اشفاق on Sun Aug 05, 2012 12:24 am, edited 1 time in total.
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

Post by میاں محمد اشفاق »

سونیا جین!!!

میرا نام سونیا جین تھا، چاندنی چوک دہلی میں جین مت کے ایک مذہبی گھرانے میں۲جون ۱۹۷۵ء کو میں پیدا ہوئی ۔ میری ماں مومنہ خاتون (سابقہ نرملا جین) کا قبول اسلام کے بعد دو سال قبل انتقال ہوا۔ ( اللہ تعالی اپنے سایہ رحمت میں ان کو جگہ دے۔آمین)جب کہ میرے والد پون کمار جین میرے بچپن ہی میں چل بسے تھے۔ میری بہن انورادھا جین جو فی الحال گجرات میں اپنے بال بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، ان پر بھی اسلام کی سچائی واضح ہوچکی ہے۔ اس کا وہ بار بار اظہار کر چکی ہیں ، لیکن اپنے شوہر کی وجہ سے پس و پیش میں ہیں۔ اللہ تعالی انہیں جلد ہی ہدایت کی توفیق دے۔ آمین ہم سب ان کے ليے دعا کر رہے ہیں۔ میرا ایک بھائی بھی ہے جس کا نام پلے پارول کمار گپتا تھا، اب مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد محمد عمران ہے۔ میں نے چاندنی چوک کے جین اسکول میں بارہویں پاس کی۔ اس کے بعد تعلیم ترک کردی، البتہ گھر پر رہ کر کچھ کچھ پڑھ لیا کرتی تھی۔ میں اپنی ماں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ جین مندر بھی جایا کرتی تھی، جہاں ہم سب پاٹھ میں شرکت کرتے، پوجاکرتے، پری کرما کرتے،(پھیرے لگاتے) ۔

ہمارا ماحول اس وقت پورا جینی تھا۔ کسی دوسرے ماحول کی ذرا بھی جانکاری نہیں تھی، جین مندروں میںجب ہمارے رشتہ دار بالکل ننگے سادھوﺅںکے چرنوںکو چھوتے تومیں ہمیشہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی۔ میری نگاہیںشرم کے مارے زمین میں گڑجایا کرتی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کرتا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ لیکن چونکہ ہمارے رشتے دار ایسا کرتے تھے اور ہم دیکھتے آرہے تھے، اس ليے میں چپ سادھ لیتی۔

اسی طرح زندگی کے دن گزرتے رہے حتی کہ میں ۱۹ سال کی ہوگئی۔ میری ماں ان دنوں ایک کمپیوٹر ڈیزائننگ اینڈ پروسیسنگ کمپنی میں کام کرتی تھیں۔ اس کمپنی کے پروپرائٹر محترم عشرت صاحب تھے، جو اب میرے رفیق حیات ہیں۔ عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے ساتھ مساویانہ تھا۔ وہ سارے اسٹاف کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر لنچ کیا کرتے تھے، جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی شامل ہوتے تھے۔ ان میں شاکا ہاری ( سبزی خور)بھی تھے اور مانساہاری(گوشت خور)بھی۔ ہم لوگ شدھ شاکاہاری ( خالص سبزی خور) تھے، لیکن میری ماں نے سب کے ساتھ کھانے پر کمپرومائز کرلیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہاں ایک آسامی نکلی تومیری ماں نے مناسب سمجھا کہ میں بھی ان کے ساتھ کام کروں ۔ یہ جنوری ۹۵ ۱۹ءکی بات ہے ، جب میں پہلے روزوہاں کام کرنے آئی تو میری ماں اس بات پر کافی پریشان تھیں کہ میں کس طرح سب کے ساتھ مل کر لنچ کروں گی ؟ جبکہ وہاں دوسرے اسٹاف مانساہاری( گوشت خور)بھی ہیں، اس ليے انہوں نے سب سے پہلے عشرت صاحب سے بات کی کہ میں تو آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کھالیتی ہوں ،لیکن میری بیٹی سونیا جین بڑی مذہبی ہے اور شدھ شاکاہاری( خالص سبزی خور ) ہے، وہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے کے ليے رضامند نہیں ہے، اس ليے وہ الگ تھلگ کھالیا کرے گی۔ عشرت صاحب نے ان کی بات سن کر مجھے آفس میں طلب کیا اور پوچھا :

آپ کو گوشت یوں ہی نا پسند ہے یا آپ کے نزدیک یہ پاپ ہے ؟

” یہ تو بہت بڑا پاپ ہے “۔ میں نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا، جو میں اپنے پرکھوں سے سنتی آئی تھی۔

” اگر یہ پاپ دنیا سے ختم ہوجائے اور سارے ہی لوگ سبزی کھانے لگیں تو کیسا رہے گا ؟ “۔عشرت صاحب نے پوچھا

” یہ تو بہت اچھا رہے گا۔ “ میں نے جواب دیا: انہوںنے کہا: ” اچھا یہ بتاﺅ کہ اس وقت آلو کا کیا بھاﺅ ہے ؟ “ میں نے کہا : ” یہی کوئی چار پانچ روپے کلو۔ “ انہوںنے کہا : ” اگر سب لوگ گوشت خوری ترک کردیں اور ساگ سبزی کھانے لگیں تو آلو سو روپے کلو ہوجائے گا، کیوں کہ۵ ۹ فیصد لوگ مانساہاری( گوشت خور ) ہیں، پھر بتا ئيے کہ سب کے جیون (زندگی) کی گاڑی کیسے چلے گی اور لوگ کس طرح سے اپنا پالن پوسن (گزر بسر) کریں گے ؟ “

ان کی بات سن کر میری عقل کی پرتیں کھل گئیں اور میری سمجھ میں آگیا کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں صحیح کہہ رہے ہیں۔ یہی میرا ٹرننگ پوائنٹ تھا ‘جب میں نے عقیدت سے نہیں عقل سے سوچا۔ میں نے اسی دم سب کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے حامی بھر لی اور اتنا ہی نہیں ، بلکہ جب کھانے پر بیٹھی تو عشرت صاحب کے ٹفن میں سے مرغ کی ٹانگ بھی حلق سے اتر گئی۔

عشرت صاحب اس کے بعد وقتاً فوقتاًمجھے اسلام کے بارے میں بتاتے رہے اور میں ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتی اور اپنی عقل کااستعمال کرتی تو عقل بھی انہیں کی باتوں کی تصدیق کرتی ۔دھیرے دھیرے اسلام کے ليے میري دلچسپی میں اضافه ہونے لگا۔ ایک دن عشرت صاحب نے دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر بتایا کہ مکہ دنیا کا مرکز ہے ، جہاں سے اسلام کی روشنی برابر دنیا کے کونے کونے میںپہنچتی ہے، جس طرح کمرے کے سنٹر میں بلب روشن ہوتواس کی روشنی کمرے کے ہر جانب برابر جاتی ہے، اس کے بر عکس جین دھرم صرف ہندوستان میں محصور ہے اور اس کا پھیلاﺅ ممکن نہیں۔ یہ بات میرے دل کو چھوگئی۔ پھر میرا ضمیردن بہ دن مجھے کچوکے لگانے لگاکہ میں غلطی پر ہوں اور اسلام ہی اصل سچائی ہے ۔ جب بھی عشرت صاحب مجھے کوئی بات بتاتے تووہ اس سلسلہ میں عقلی اور منطقی استدلال ﭘﯾﺶ کرتے اور یہی وہ بات تھی، جس کے آگے مجھے ڈھیر ہونا پڑا۔ دوسری بات یہ تھی کہ خود عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے ساتھ بڑا نرم تھا۔ وہ سب کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھتے اور ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے۔ ان کا اخلاق بڑا کریمانہ تھا۔ انہوںنے جین دھرم میں مہاویر سوامی کی پرتیما(مورتی) کی جو تشریح کی ‘میںاس سے بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خود کا پہناواننگ (عریانیت)تھا اور وہ دوسرے لوگوں کو کپڑے پہننے کے ليے کہہ رہے ہیں۔ یہ قول و عمل کا تضاد میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان سب وجوہات کی بناءپر میرا دل اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔

۴۱ مارچ۱۹۹۵ءمیری زندگی کا وہ مبارک دن تھا، جب میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ عشرت صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر جمعہ کو آفس بند کرکے سورئہ کہف كي تلاوت کرتے تھے۔ میرے اندر تجسس ابھر ا کہ وہ اتنے اہتمام سے کیا پڑھتے ہیں ؟ جب میں نے ان کو سورئہ کہف کی تلاوت کرتے سنا تو میرے دل کی اندرونی کیفیت کچھ عجیب سی ہوگئی۔ ایک طرح کی بیداری پیدا ہوگئی۔ پھر عشرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم آگ کا ایندھن بننے سے کب بچوگی ؟ میں نے از خود رفتگی میں کہا کہ بہت جلد انہوںنے کہا کہ کیا خبر ، یہ سانس جو تم لے رہی ہو ، آخری ہو ؟ پھر اچانک میں بڑے جوش میں بولی کہ ابھی اور اسی وقت ! پھر عشرت صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میں مسلمان ہوگئی۔ میں نے اسی دم یہ دعا کی ” اے اللہ! جس طرح تو نے مجھے آگ سے بچایا ہے، اسی طرح میری ماں اور میرے بھائی کو بھی بچالے “۔ اللہ تعالی کے یہاں میری یہ دعا بھی قبول ہوگئی۔ شروع میں تو میری ماں اور بھائی دونوں نے میری مخالفت کی ۔ میرا بھائی تو عشرت صاحب کا جانی دشمن ہوگیا، لیکن جب میں نے ان کو خود اسلام کے بارے میں کچھ معلومات دیں اور بتایا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھا یا ہے ، پھر ان کے سامنے نماز وغیرہ پڑھنے لگی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے ہی اللہ کے فضل سے اسلام قبول کرلیا۔

میری ماں نے میری شادی عشرت صاحب سے کردی، جن کی بیوی کا کینسر کے مرض میں شادی کے تین چار سال بعد انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ ان بچوں سے مجھے جو پیار ملا اور کہیں نہیں ملا۔ میرا ان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ میں اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی ہوں کم ہے ۔ میری ابھی ایک بچی ہے، جس کا نام ناز ہے اور میں اسے اسلام کی اشاعت کے ليے تیار کر رہی ہوں ، کیونکہ جب میں نے اسلام قبول کرلیاتو اب ایک بہت بڑی ذمہ داری کو قبول کیا ہے اور اپنے اوپر اسلام کی تبلیغ کو فرض کرلیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ لوگ حلقہ اسلام میں زیادہ سے زیادہ آئیں۔ ہم اپنے اخلاق سے،اپنے کردار سے قرآن کا مکمل نمونہ بنيں تاکہ لوگوں میں اسلام کی سچائی جاگزیں ہو۔ میں اسلام سے متعلق مختلف کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں ۔ قرآن مجید کو میں نے سمجھ کر پڑھا اور مجھے لگا کہ حقوق العباد پر اسلام کا بہت زور ہے اور یہی حقوق العباد اسلام کا دائرہ وسیع کرنے میں بھی بہت معین ہے۔ ہمیں اپنی دعوت میں خوش اخلاقی کو مقدم رکھنا چاہيے۔ ا ب تک اللہ کے فضل سے میری ماں اوربھائی کے علاوہ تین اور لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ یہ میمونہ خاتون(سنینا کپور) محمد یوسف (راجن کپور) اور محمد زید( ستیش کمار ) ہیں ۔ میری اپنی کوشش ہے اور تمام لوگوں سے استدعا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص داعی بنے اور دعوت کو جاری رکھے، اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کرے تاکہ وہ اسلام کے داعی بن کر ابھریں۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

Post by میاں محمد اشفاق »

میرا تعلق نیپال کے ترائی علاقے کے ضلع بارا سے ہے ، پیدائشی نام کدار ناتھ کھریل ہے، برہمن طبقہ کے کھریل خاندان میں پیدا ہوا ، خاندانی روایات کے مطابق مذہبی طورطریقے پر میری پرورش ہوئی،سترہ سا ل کی عمرمیں آٹھویں جماعت کاطالب علم تھاکہ نیپالی فوج میں ملازمت مل گئی،چنانچہ میں نے نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی ،اسی بیچ میٹرک کے ا، آئی اے کیا اور سترہ سال تک محکمہ افواج میں ملازمت کرتا رہا ۔ وہاں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعدایک سال تک ذاتی کاروبار کیا، پھر مجھے 2004 کے اوائل میں ملازمت کے لیے کویت آنے کا موقع ملا جہاں مجھے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔

میرے قبول اسلام کا قصہ بڑاعجیب ہے، میرا ایک بنگلادیشی ساتھی تھا جو تلاوتِ قرآن کی بیحدپابندی کرتا تھا اور گاہے بگاہے مجھے بھی بٹھا کرقرآن سنایا کرتا تھا ، میں نے ایک دن اس سے پوچھا : ” تم لوگ کس کی پوجا کرتے ہو ؟ “اس نے مجھے مختصرلفظوںمیں بتایا کہ ” ہم مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں کسی مورتی کی پوجا نہیں کرتے“ ۔یہ محض اس کا جواب نہیں تھا بلکہ میری زندگی کے لیے پہلا ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔

ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی نیک صفت بزرگ مجھے کہہ رہے ہیں:” تم اسلام میں آجاؤ“ ، میں نے جواب دیا : ”میںہندو ہوں اور میرے گھر والے اس سے راضی نہیں ہوسکتے“ ، اس نے کہا : ”تم پہلے اپنی فکرکرو اور سچائی قبول کرلو“۔ اسی کے بعد میرے اندر ایک طرح کا تجسس پیدا ہوگیا ،مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا گویامیری کوئی شے کھوچکی ہے ،میں بار بار مسلم دوستو ں سے اسلام کے بارے میں پوچھتا رہتا ،جب مجھے اسلام کے تئیں بالکل اطمینان ہونے لگا تو ایک دن میں نے ایک کویتی سے کہا کہ ”میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں“ ، اس نے بلاتاخیر مجھےipc پہنچا دیا ، یہاں میری ملاقات مولانا صفات عالم محمد زبیرتیمی صاحب سے ہوئی ،ان سے میں نے اپنا پورا قصہ سنادیا ، اولاً تو انہوں نے مجھ سے عرض کیا کہ محض خواب کی بنیاد پر اسلام قبول کرناکوئی معنی نہیں رکھتا ،بلکہ پہلی فرصت میں آپ کو اسلام کی کھوج کرنی چاہیے کیونکہ اسلام ہی آپ کا دھرم ہے جسے آپ کے خالق ومالک نے آپ کے لیے اورساری انسانیت کی رہبری کے لیے آخری شکل میں اتارا ہے، اسلام قبول کرنا دھرم بدلنا نہیں بلکہ اپنے پیدائشی دھرم کو پانا ہے ۔

پھر انہوں نے سنہرے انداز میںمیرے سامنے اسلام کا تعارف کرایا ، ان کی ایک ایک بات میرے دل میں اترتی گئی بالآخرمیں نے ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد اسی وقت اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔

اس کے بعد میں ہمیشہ مولانا صفات عالم صاحب سے استفادہ کرتا رہا ،ہفتہ واری دروس میں حاضر ہوتا اور دیگراوقات میں بھی‘جب کبھی کسی طرح کااشکال پیدا ہوتا فوراً مولانا سے رابطہ کرکے تشفی بخش جواب حاصل کرلیتا ۔جب مولانا کرم اللہ تیمی صاحب ipc میں بحیثیت نیپالی داعی تشریف لائے توایک عرصہ تک ان سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا، میں آئے دن اپنی معلومات میں اضافہ کرتا رہا ، میری دعوتی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ipc کے ذمہ داران نے مجھےipc میں کام کرنے کا زریں موقع فراہم کیا ،چنانچہ میںنے کمپنی چھوڑ دی اور تقریباً تین سال سے ipc میں بحیثیت داعی کام کررہاہوں ۔ فللہ الحمد والمنة

اس اثناءمیں نے اپنی اہلیہ کومتعدد بار اسلام کی دعوت دی، بالخصوص جب دوسال قبل دوماہ کے لیے گھر گیاتو پہلی فرصت میں ‘میںنے ان کواسلام بتایا اور انہوں نے اسلام قبول بھی کرلیا لیکن جب دومہینہ گزرنے کے بعدکویت آیا تو میرے سسر نے اس پر دباؤ ڈالا اور قسم کھالی کہ جب تک وہ اسلام سے نہ پھرے گی تب تک میں اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتا ،حتی کہ وہ میرا مردہ منہ بھی نہیں دیکھ سکتی ۔ اب کیاتھا،وہ اپنے شیطان باپ کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے مرتد ہوگئی، اس بیچ میںنے بارہا کوشش کی کہ وہ اسلام کو اپنالے لیکن اب وہ ماننے کو تیارنہ تھی حالانکہ میں اس سے بےحد محبت کرتا تھا۔میرے پاس ایک سترہ سال کی لڑکی ہے جو نرسنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے، ایک بیٹا آٹھویں جماعت میں زیرتعلیم ہے جبکہ دوسرا بیٹا ابتدائیہ میں پڑھتا ہے ، میری ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ میرے گھر والے اسلام کو گلے لگالیں لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے کوشش کے باوجود ناکام رہا ۔

ایک ماہ قبل میں سفرپرگیا اس امید کے ساتھ کہ میرے اہل خانہ اسلام قبول کرلیں گے کیونکہ ان کی باتوں سے مجھے توقع بندھنے لگی تھی ،حالانکہ انہوں نے منظم پلاننگ کے ساتھ مجھے بلایا تھا تاکہ دوبارہ کویت نہ لوٹ سکوں۔ جس روز گھر پہنچا، بیوی اور بچوں کوبٹھا کر دو گھنٹہ تک سمجھایا لیکن بیوی اپنی بات پر مصر رہی کہ وہ اسلام میں نہیں آے گی بالآخر میںنے اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ رات گذاری، صبح میں بھی میں نے اہلیہ کو سمجھایا اور تاکید کی کہ اسلام نے ہم دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی ہے، ازدواجی زندگی گذارنااسی وقت ممکن ہے جب تم اسلام میں آجاؤ ، میںدومہینہ کی فرصت لے کرگیاتھالیکن معاملہ اس قدر پیچیدہ ہوا کہ تقریبا ً ہفتہ عشرہ کے بعد ہی مجھے گھر سے نکلنا پڑا ۔ پہلے ہی دن میری سترہ سالہ بچی نے اپنی ماں کے اشارے پر میرے موبائل سے کویت کے سارے نمبرات ڈیلیٹ کردی ، میری بیوی خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ،اس کے ایک بھائی امریکہ میں اور ایک بھائی بلجیم میںرہتے ہیں ، میرے سسرال والوں کی پلاننگ تھی کہ کسی طرح میں ان کے دھرم میں لوٹ آؤں اور دوبارہ کویت نہ آسکوں ، امریکہ میں مقیم میرے نسبتی برادر نے مجھے سبز باغ دکھانے کی کوشش کی کہ چند سالوں تک گھر پرآرام کروں اوروہ مجھے اس اثناءکویت کی میری سالانہ آمدنی سے کہیںزیادہ رقم مہیا کریںگے ،پھر اس کے بعد مجھے امریکہ بلا لیں گے ،لیکن میں نے ان کی بات کو خاطر میں لائے بغیر دوٹوک جواب دیا کہ ایسا قطعاً ممکن نہیں ہے ،میں نے اسلام کو گلے لگایا ہے تو تادم حیات اس پر قائم رہوں گا اور کوئی طاقت مجھے اسلام سے پھیر نہیں سکتی۔

اسی بیچ دسہرہ کا تہوار آگیا اور میرے گھر والے مجھ پر زور ڈالنے لگے کہ میں بھی ان کے تہوار میں شرکت کروں، میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں کسی صورت میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا، اِدھر بیوی رو رہی تھی تو اُدھر بچے رو رہے تھے،بلکہ سب نے کھانا تک نہیں کھایا لیکن میں اپنی بات پر اٹل رہابالآخر تھک ہار کر سب نے دوسرے دن کھانا کھا یا ۔

ہفتہ عشرہ تک میں نے دسیوں بار اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی ، اپنی محبت کا واسطہ دیا اور علیحدگی کی صورت میںمعاشرتی بگاڑ اور بچوں کے مستقبل کی بربادی سے ڈرایا لیکن میری بیوی اپنے بھائیوں اور باپ کے بہکاوے میں آکر دین میں میرا ساتھ نہ دے سکی، جب مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ میرے خلاف یہ لوگ سازشیں کررہے ہیںکیونکہ دو سال قبل مجھے اس کا تجربہ ہوچکا تھاکہ چندشرارت پسندوں نے میری بیوی کی بیوقوفی سے مجھے جسمانی اذیت پہنچانی چاہی تھی‘ لیکن اسی وقت میرا ایک دیرینہ دوست پہنچ گیا جس سے میں بال بال بچ گیا، اس بار بھی اس طرح کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں ایک دن خفیہ طور پر استعمال کے کپڑے لیے ،گھر سے نکل پڑا اور چند کلو میٹر دور میرے ایک دوست کا گھر ہے جہاں ایک ہفتہ چھپا رہا ، اس بیچ ٹکٹ کا انتظام کیا اور دو بارہ کویت آگیا ۔

واقعہ یہ ہے کہ میرے سسرال والوں نے ہی سارامعاملہ خراب کیا ہے جن کی میرے اہل خانہ کو پوری پشت پناہی حاصل ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ میں اپنے اہل خانہ اور اولاد سے بچھڑ گیا ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اسلام سے محروم رہ گئے ہیں ۔اخیرمیں قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ اللہ تعالی سے میرے اہل خانہ کی ہدایت کے لیے دعا کریں ۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا شکریہ ...
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

Post by میاں محمد اشفاق »

Image
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ہم مسلمان کیوں ہوئے؟

Post by میاں محمد اشفاق »

ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”