فکر ِ اقبال اور قیام پاکستان

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

فکر ِ اقبال اور قیام پاکستان

Post by اعجازالحسینی »

رانا عبدالباقی ـ
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کی سوچ کا اگر وسعتِ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانی کے خاتمے کیساتھ ساتھ اُنیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے زوال نے فکر اقبالؒ کو مہمیز دی تاکہ بیداریء فکر کے ذریعے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کا پھر سے اِحیا کیا جائے ۔ علامہ اقبالؒ کیلئے ملتِ اسلامیہ میں فرقہ واریت اور بٹی ہوئی قومیتوں کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی گروہ بندی اور مسلم معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اُن کیلئے تازیانے کی حیثیت رکھتی تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ امت مسلمہ خواب غفلت سے جاگے اور نہ صرف مغربی تہذیب و تمدن کے منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنے آپکو تیار کرے بلکہ اپنے اندر آزادی کی امنگ کو بیدار کرکے مغرب کی غلامی سے راہ نجات حاصل کرے‘ علامہ اقبالؒ کی اِسی حکیمانہ سوچ نے جرأت رندانہ ، اور کلیمانہ جذب وکیف سے کام لیتے ہوئے مسلم دنیا اور بالخصوص بّرصغیر ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنی شاعری کے ذریعے آزادی کی اُمنگ سے ہمکنار کرنے کیلئے مسلمانوں کے جذبہ ہستی کو بیدار کیا ۔ اپنے اشعار کے ذریعے اُن کا کہنا تھا … ؎
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوزِ پنہاں سے
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
مسلمء خوابیدہ اُٹھ ہنگامہ آراء تو بھی ہو
وہ چمک اُٹھا افق ، گرمِ تقاضہ تو بھی ہو
دراصل اقبالؒ کی پیغامی شاعری نے نہ صرف اسلامیانِ ہندوستان کے قومی محسوسات کو بیدار کیا بلکہ اُنکے دلوں میں موجزن جذبوں کو ایک ناقابلِ شکست قومی ویژن میں ڈھال کر رکھ دیا جس کی تائید وحدتِ ہندوستان کے نام پر اکھنڈ بھارت کے داعی اور ہندو انڈیا کے بانی لیڈر، جواہر لال نہرو کے خیالات سے بھی ہوتی ہے جب وہ اپنی کتاب تلاشِ ہند میں کہتے ہیں کہ مسلمان عوام اور متوسط طبقے خصوصاً نوجوانوں کو متاثر کرنے میں علامہ اقبال کا اہم حصہ ہے ، اقبال نے اُردو میں پُر زور قومی نظمیں لکھیں ( شکوہ و جوابِ شکوہ ) جو بہت مقبول ہوئیں ۔ اِسی کتاب میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ، یوں تو اُنکی ہردلعزیزی اُنکی کمال شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اُسکا بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے کتاب تلاش ہند کے مطالعہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ نہرو ، وحدت ہندوستان کے ہندو مشن میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ اسلامی تہذیب کے حوالے سے فکرِ اقبال کو ہی گردانتے تھے کیونکہ علامہ اقبال اپنی شاعری میں اسلامی اصلاحی فکر و نظر کے حوالے سے گفتگو کرکے مسلم قوم کو زوال اور مایوسی کے منظر نامے سے نکال کر اُنہیں آزادی کی نئی اُمنگ سے روشناس کرانا چاہتے تھے جس کی تائید علامہ کے اِن اشعار سے بھی ہوتی ہے … ؎
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو !
جواہر لال نہرو نے درست ہی لکھا تھا کیونکہ ہندو کانگریس کی وحدت ہندوستان کی تحریک فکرِ اقبال کے سامنے ماند پڑ گئی کیونکہ اقبال نے قوم کو جگانے کا ابتدائی کام اپنی شاعری کے ذریعے کرنے کے بعد 1930 میں الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امتِ اسلامیہ کے جذبے کو ایک قومی ویژن میں ڈھال دیا جب اُنہوں نے مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلمانانِ ہند کیلئے شمال مغرب میں ایک مسلم ریاست کی تشکیل کو مستقبل کی اہم سیاسی ضرورت کے طور پر پیش کیا ۔ قائداعظم 1929 کے واقعات کے بعد مسلم اتحاد کی کوششوں سے مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے لہذا ، علامہ اقبال کو نہ صرف اسلامی سیاسی خیالات کو عملی شکل دینے کا موقع ملا بلکہ الہ آباد کے خطبے میں پہلی مرتبہ ایک ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کے تصور کو بھی مہمیز دینے کا موقع ملا۔یہی وجہ ہے کہ 21 اپریل 1938 کو علامہ اقبال کی وفات پر فکر اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے وضاحت سے فرمایا کہ علامہ اقبالؒ کی رحلت مسلم ہندوستان کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ، جب تک اسلام زندہ ہے وہ بھی زندہ رہیں گے ۔ اُن کی عظیم شاعری مسلمانِ ہند کے جذبات کی صحیح عکاسی کرتی ہے ، وہ ہمیشہ ہمارے اور آنیوالی نسلوں کیلئے جوش اور ولولے کا سرچشمہ رہیں گے ۔ بلا شبہ مسلمانانِ ہند کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے میں علامہ اقبال کی فکری نظموں شکوہ و جواب شکوہ جو اُمت اسلامیہ کے زوال کے تناظر میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے کیلئے لکھی گئیں ہیں کو تحریک پاکستان سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اِن نظموں نے مسلمانانِ ہندوستان کے نصب العین کے تعین میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ مسلمانوں میں اپنی ذات کے تعین اور جرأت رندانہ پیدا کرنے کیلئے اُن کے یہ اشعار جذبِ کلیمانہ کے طور پر اپنا ثانی نہیں رکھتے…. ؎
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
حقیقت یہی ہے کہ علامہ اقبالؒ نے ایک علیحدہ مملکت کے حوالے سے جس قومی ویژن کو اپنی جرأت رندانہ سے برطانوی حکومت ہند کے زمانے میں پیش کیا ، وہی فکرِ حکیمانہ 1937 میں تحریک پاکستان کی بنیاد بنی اور اِس ویژن کو 1940 میں قراردادِ لاہور (قرارداد پاکستان ) کے ذریعے قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد نے عملی شکل سے ہمکنار کیا ۔گو کہ علامہ اقبال قرارداد پاکستان کی منظوری سے دو برس قبل ہی رحلت فرما گئے تھے لیکن تحریک پاکستان کے خد و خال مئی 1936 سے نومبر 1937 میں جناح اقبال تحریری مشاورت کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچ چکے تھے ۔ علامہ اقبال نے 28 مئی 1937 میں قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ ایک لمبی مدت تک غور و فکر سے مطالعہ کرنے کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک آزاد مسلمان ریاست یا ریاستوں کے بغیر مسلم شرعی نظام کو لاگو نہیں کیا جا سکتا جس میں ہر شخص کو اسلامی قوانین کیمطابق روزی بہم پہنچاناممکن ہو، لہذا، ایک پُرامن ہندوستان اور مسلمانوں کیلئے روزی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اِس نظام کو ایک آزاد مملکت میں ہی قائم کیا جا سکتا ہے ۔ قائداعظم نے اِسی فکر کی تائید میں 26 مارچ 1948 میں چٹاگانگ کے شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کیلئے جدوجہد اِسلئے ضروری تھی کیونکہ برّصغیر میں اخوت اور مساوات کے حوالے سے ہمیں اپنی مذہبی ، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی پامالی کا خطرہ تھا، ہم نے دو صدیوں کے غیر ملکی تسلط اور ذات پات کے نظام کے بوجھ تلے محسوس کیا کہ مسلمان بحیثیت قوم معدوم ہو جائینگے لہذا ، ہم نے پاکستان حاصل کیا تاکہ دنیاوی اور دینی امور اپنی روایات اور طرز فکر کیمطابق چلاسکیں ۔ 21 جون 1937 کو علامہ اقبال نے قائداعظم کے نام اپنے خط میں لکھا کہ مسلم صوبوں کی ایک علیحدہ فیڈریشن ہی ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو تسلط سے نجات دلا سکتی ہے ،اِس لئے کیوں نہ شمال مغرب اور بنگال کے مسلمانوں کو بھی ایسی ہی قوموں میں شمار کیا جائے جو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر حق خود ارادیت کی مستحق ہیں ۔
علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے قائداعظم نے 1943 میں " جناح کے نام اقبال کے خطوط " کے پیش لفظ میں لکھا " میرے خیال میں یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ، خاص طور پر وہ خطوط جن میں اقبال کے خیالات واضح طور پر مسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں " ۔
صد افسوس کہ ماضی میں تحریک پاکستان کیلئے علامہ اقبال کا قومی ویژن اور قائداعظم کی عملی جدوجہد کے برعکس آج کا پاکستان ، بانیانِ پاکستان کی عظیم جدوجہد کی نفی کرتا نظر آتا ہے ۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ، پاکستانی سیاسی کلچر میں فرقہ واریت ، مذہبی و لسانی گرہ بندی ، دہشت گردی اور کرپشن کی اُبھرتی ہوئی تصویر نے پاکستان کے خدوخال کو ایک مرتبہ پھر دھندلا کر رکھ دیا ہے ۔ فکر اقبال اوربانیانِ پاکستان کی تعلیمات کے برخلاف ملک کے جمہوری تشخص اور پاکستان کی اساس کو نقصان پہنچانے کیلئے منظم اندرونی و بیرونی تخریب کاری کو ہوا دی جا رہی ہے جبکہ اقتدار کی غلام گردشوں سے اچھائی کی آواز بلند ہونے کے بجائے عوام کو کہا جا رہا ہے کہ آمریت کو برداشت کیا ہے تو جمہوریت کو بھی برداشت کرو ؟ صد افسوس کہ فکر اقبال کے قومی ویژن اور قائداعظم کی خواہشات کے برخلاف پاکستان میں بدانتظامی ، بے انصافی ، کرپشن ، بدعنوانی اور کنبہ پروری زوروں پر ہے فکرِ اقبال کا عوامی حکومت کا اسلامی ویژن ریزہ ریزہ ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ آئیے ملک کو مایوسی کے اِس دور سے نکالنے کیلئے فکر اقبال کی جانب واپس لوٹیں اور ملک میں فرقہ واریت ، دہشتگردی اور کرپشن سے پاک اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کرنے نئے سرے سے عوامی جدوجہد کو منظم کریں کہ اِسی میں ملک کی فلاح اور بھلائی ہے ۔
نوائےوقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: فکر ِ اقبال اور قیام پاکستان

Post by چاند بابو »

جزاک اللہ،
اچھی شئیرنگ ہے واقعی اگر اقبال نا ہوتے تو شاید پاکستان نا ہوتا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: فکر ِ اقبال اور قیام پاکستان

Post by اعجازالحسینی »

آپکا بھی شکریہ
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “پاک وطن”