سمندری جھاد کا اعزازپانے والی صحابیہ رضی اللہ عنھا

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
مجیب منصور
مشاق
مشاق
Posts: 2577
Joined: Sat Aug 23, 2008 7:45 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی۔خیرپور۔سندہ
Contact:

سمندری جھاد کا اعزازپانے والی صحابیہ رضی اللہ عنھا

Post by مجیب منصور »

قبرص ایک خوبصورت جزیرہ ہے ۔اس جزیرے میں بعض صحابہ کرام کی قبریں ہیں ۔ ان میں سب سے اہم نام آنحضور کی صحابیہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ کاہے ۔ اس صحابیہ کی بڑی شان بیان کی گئی ہے ۔ چونکہ ان کا تعلق خاندان بنو نجار سے تھا اور بنو نجار آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالملطلب کے ننھیال تھے اس لیے آنحضور اس خاندان سے خصوصی محبت و شفقت کا اظہار کرتے تھے ۔
اس صحابیہ کی قبر جزیرہ قبرص میں ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دن آنحضور ان کے گھر تشریف لے گئے جو قبا کے قریب تھا ۔ اس گھر میں آپ نے کھانا کھایا پھر لیٹ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد آپ نیند سے بیدار ہوئے تو چہرہ مبارک متبسم تھا۔ آپ نے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کو سمندر میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفر کرتے دیکھاہے ۔ خاتون صحابیہ نے عرض کیا ” یارسول اللہ میرے لیے بھی دعا فرمائیے کہ اس جہاد میں شرکت کا اعزاز مجھے مل جائے ۔ “
آپ نے اس وقت تو کچھ نہ کہا۔ بستر پر لیٹے ہوئے تھے کہ تھوڑی دیر بعد آپ کی آنکھ پھر لگ گئی ۔ جب دوبارہ بیدار ہوئے تو آپ کے چہرے پر پہلے کی طرح تبسم تھا اور آپ نے پہلے والا خواب پھر بیان فرمایا ۔ جب صحابیہ نے پھر اپنی درخواست پیش کی تو فرمایا ” تمہیں مبارک ہو کہ تم بھی اس جہاد میں شریک ہو ۔“ حضرت ام حرام یہ بشارت سن کر بہت مسرور ہوئیں ۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا۔
حضرت ام حرام کو آنحضور کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کا شرف حاصل ہوا لیکن جس جنگ کی بشارت دی گئی تھی اس کا موقع حضور کی حیات طیبہ اور شیخین کے دور خلافت میں نہ آیا ۔ حضرت ام حرام کے خاوند حضرت عمر و بن قیس اور بیٹے قیس بن عمرو جنگ بدر میں شریک ہوئے اور خوب داد شجاعت دی ۔ ایک سال بعد جب احد کا معرکہ ہوا تو پھر دونوں باپ بیٹے میدان جہاد میں تھے ۔ اس معرکے میں دونوں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ۔ ظاہر ہے حضرت ام حرام کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا لیکن انہوں نے بڑی ہمت اور صبر سے غم کے اس پہاڑ کا مقابلہ کیا ۔ ان کے ایک بیٹے عبداللہ بن عمرو زندہ تھے ۔ آنحضور ان کے گھر میں اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے کیونکہ خاوند اور بیٹے کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حرام بن ملحان بھی4 ھ میں بئر معونہ کے اندوہناک واقعہ میں دیگر تقریباً ستر صحابہ کے ساتھ شہید ہو گئے تھے ۔
پے در پے صدموں کی وجہ سے آنحضور اپنی صحابیہ کو تسلی دینے کے لیے ان کے ہاں اکثر تشریف فرما ہوتے تھے ۔ حضرت ام حرام کا دوسرا نکاح معروف انصاری صحابی حضرت عبادہ بن صامت سے ہوا ۔ ان سے اللہ نے انہیں ایک خوبصورت بیٹا عطا فرمایا جس کا نام محمد تھا ۔حضرت عثمان بن عفا ن کے دور خلافت میں حضرت ام حرام اور ان کے خاوند حضرت عبادہ بن صامت عمر رسیدہ تھے اور رومی سلطنت کے مقابلے پر جہاد کے دوران مدینہ سے شام منتقل ہونے کے بعد وہیں پر مقیم تھے ۔ اس زمانے میں خلیفہ ثالث کی اجازت سے شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ نے قبرص اور دیگر علاقوں کو فتح کرنے کے لیے ایک جنگی بحری بیڑہ تیار کیا ۔ جو صحابہ اس جہاد میں شریک تھے ان میں حضرت عبادہ بن صامت کا نام بھی تھا ۔
حضرت ام حرام نے بھی اس جہاد پر جانے کا رادہ ظاہر کیا تو ان کے خاوند نے بحری سفر کی مشکلات کا تذکرہ کیا ۔ آنحضور کی یہ عظیم المرتبت صحابیہ تو اس دن کے انتظار میں سالہاسال سے سراپا شوق تھیں ۔ فرمانے لگیں مجھے تو آنحضور نے اس جہاد میں شرکت کی خوش خبری سنائی تھی ۔ اب کون انکار کر سکتا تھا۔ چنانچہ اپنے خاوند کے ساتھ وہ بھی اس جہاد میں شریک ہوئیں ۔ اللہ نے اسلامی لشکر کو فتح دی اور قبرص پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا ۔ مہم کی کامیابی کے بعد جب واپسی کا سفر شروع ہوا تو ام حرام اپنی سواری پر سوار ہوئیں ۔ ان کا گھوڑا کسی چیز سے بدکا اور حضرت ام حرام زمین پر گر گئیں ۔ انہیں سخت چوٹیں آئیں ۔ انہی زخموں سے وہ وفات پا گئیں ۔ یوں سرزمین قبرص کو یہ شرف حاصل ہواکہ آنحضور کی محبوب صحابیہ، شہدا کے خاندان کی عظیم خاتون اور آنحضور کی میزبان یہاں آسودہ خواب ہیں ۔
صحابہ اور صحابیات تو جہاد کی اہمیت بھی معلوم تھی اور شہادت کے عظیم مرتبے سے بھی مکمل آشنائی تھی ۔ وہ جہاد کے میدانوں میں جانا اپنے لیے باعث سعادت اور غلبہ اسلام کے لیے ضروری اور فرض سمجھتے تھے ۔ دور انحطاط میں امت نے جہاد تقریباً ترک کر دیاتھا اسی کے نتیجہ میں زوال کے تباہ کن ماہ و سال طوالت پکڑتے چلے گئے ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ آج جہاد کا جذبہ پھر زندہ ہواہے لیکن بدقسمتی سے جہاد کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والی قوتیں بھی پوری طرح سرگرم عمل ہیں ۔
امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ صحابہ و صحابیات کے دور سعید کو حرز جاں بنائیں ۔ یہ ایمان افروز واقعات نوجوان نسل کو سنائے جائیں تو ان کے دلوں میں بھی اللہ کے دین سے محبت اور جذبہ ایثار و قربانی پیداہوتاہے ۔ دیکھا گیاہے کہ قرآن و سنت کے بعد سیرت رسول اور سیرت صحابہ سے ایمان میں جس قدر بالیدگی اور دلوں میں جتنی رقت پیدا ہوتی ہے اس کا موازنہ کسی دوسرے موضوع اور لوازمے سے ممکن نہیں ۔ قبرص کے ترک مسلمان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کی سرزمین پر آنحضور کے محبوب صحابہ کی قبریں ہیں ۔ ہم قبر پرست امت نہیں مگر بزرگوں کے آثار تاریخ میں جو اہمیت رکھتے اس کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

مجیب بھیا اتنی اچھی معلومات شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”