اردو ادب کے ارتقا میں علمائے دیوبند کا کردار
Posted: Wed Feb 17, 2010 7:18 pm
سخن اولیں
دارالعلوم دیوبند کا قیام سرزمین ہند کے لئے باعث صدافتخار ہے، جس نے ہندوستان کی بنجرزمین کو سرسبزی وشادابی عطا کی،چنانچہ اس ادارے نے مسلمانوں کی دینی وقومی روایات کو تحفظ فراہم کرکے، ہر قسم کی آلودگی سے پاک کیا، بدعات وخرافات کی تاریکیوں میں سنت کی مشعلیں روشن کیں، باطل کے مقابلے ہر اعتبار سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہزاروں مجاہد، عالم، مفسر، محدث، متکلم، فقیہ، مقرر، مناظر، حفاظ، قراء اور صوفیا کے ساتھ ساتھ عظیم شہسوارانِ قلم بھی پیدا کیے، جنھوں نے اپنی قلمی جولانیوں سے طوفانِ تندوتیز کا رخ پھیردیا، دارالعلوم کی اسی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا انیس الاسلام قاسمی فرماتے ہیں: سواسو سالہ طویل وقت میں دارالعلوم نے اردو ادب کی ایک وقیع اور پروقار خدمات انجام دی،اس میں شعروشاعری بھی ہے، انشاء و نثر نگاری بھی، تصنیف و تالیف بھی اور خطابت بھی، عربی کتابوں کا ترجمہ بھی، اور ماہانہ وہفتہ وار اخبار ورسائل بھی، مطالعہ بھی اور اشاعت کے انتظامات بھی۔(۱)
گلشن ادب پر بہار قاسمی
اس الہامی ادارے کے سپوت نے جہاں ایمانی و روحانی کیفیت میں جلا بخشنے کے لئے عربیت سے اپنا تعلق استوار کیا، وہیں عوام الناس تک پیغام خداوندی پہنچانے اوراحیائے اسلام کی غرض سے اردو زبان وادب میں بھی کمال پیدا کیا اور بعضوں نے اسی صحافت و ادب کو شعر وسخن کی نیرنگیوں سے ایسی رعنائی بخشی کہ جس سے ان کی تحریر میں غضب کی سحر انگیزی، موجوں کی روانی، نسیم سحر کی نزاکت، پھولوں کی مہک، کہساروں کی رفعت پیداہوگئی اور لوگوں کے ذہن ودماغ پر ایسا مقناطیسی اثر چھوڑا کہ ان کے دل، آپ سے آپ اسلام کی طرف کھینچ آئے۔ تاہم یہاں کا ادب خالص اسلامی رہا ہے، شعرانہ تخیل، کفر وزندقہ، فلسفیانہ موشگافیاں، بے وقت کی راگنی، مہمل داستانِ عشق، افسانہ نگاری، ناول نویسی، لطیفہ گوئی، تذکرئہ بادئہ نوشی، چنچل حسیناؤں کی خرمستیاں اور قاتل اداؤں سے پاک وصاف؛ بلکہ بے گرد وغبار ہے۔ یہاں کا ادب قال اللہ وقال الرسول کے مشک وعنبر سے معطرو روح پرور اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے لبریز ہے، نیز صحابہٴ کرام کی قربانی، جدوجہد اور حیرت انگیز واقعات کے انمٹ نقوش، رونق قرطاس بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نواز دیوبندی دارالعلوم کی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے میں سب سے موٴثر اور پائیدار ذریعہ تحریر ہے، فرزندانِ دارالعلوم نے اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، علمائے دیوبند کا تصنیفی سرمایہ، جو تعداد میں دسیوں ہزار کتابوں پر مشتمل ہے ان کی صلاحیت تحریر کا مظہر ہے، صحافت (ادب) میں علمائے دارالعلوم کے کارناموں سے ایک تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔(۲)
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جب علمائے دیوبند نے قلم اٹھایا تو شہنشاہِ ادب، صاحب تخلیق اور بے مثال انشاء پرداز کی شکل میں نمودار ہوئے، جب ان کی نگاہِ عارفانہ شعر وسخن پر پڑی تو کہنہ مشق شاعرو سخن پرور کہلائے، مگر تاریخ نے انصاف سے کام نہیں لیا اور ان بزرگوں کی بے لوث خدمات کو نظر انداز کردیا۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان بزرگوں کی اعلیٰ کارکردگی (جوعصبیت کے تودے میں دب کر رہ گئی ہے) سے نسلِ نو کو آشنا کرائیں۔
دارالعلوم اور شعروسخن
شاعری تحریر میں حسنِ ادا، زبان میں سلاست و برجستگی پیدا کردیتی ہے،اس کی اہمیت کی ادنیٰ سی جھلک علامہ انظرشاہ صاحب رحمة الله عليه کی تحریر میں نظر آتی ہے کہ ”بلاشبہ اسلام میں اس شاعری کی گنجائش نہیں، جس کے ڈانڈے،فحش گوئی، فحاشی، جذبات میں ہیجان انگیزی اورحسن و عشق کے ناروا مراحل کی عکاسی سے ملتے ہوں؛ لیکن اگر واقعی جذبات و خیالات کے حقیقت پسندانہ مضامین کی ترجمانی، شعری لب ولہجہ میں کی جائے تو اسلام اس کا مخالف نہیں۔(۳)
چنانچہ علمائے دیوبند کی شاعری کا محور، خالص وحقیقی رہا ہے، ان حضرات نے اس فن کو پیشہ نہیں بنایا، جیساکہ دنیا کا رواج ہے، بقول مولانا عبداللہ صاحب: ان حضرات (علمائے دیوبند) نے شعر کو اپنا پیشہ یا مخصوص فن نہیں بنایا؛ لیکن شعریت، ذکاوتِ حس اور ذہانتِ فکر کا فطری جوہر ہے، یہ حضرات، جن کو ذہانت وذکاوت کے بھرپور خزانے عطاہوئے تھے، شعریت سے تہی دامن کس طرح ہوسکتے تھے، چنانچہ غیراختیاری طور پر ان بزرگوں کی فکر رسا نے خاص خاص حالات اور خاص خاص موقعوں پر قصیدے، نظمیں اور غزلیں موزوں کیں۔(۴) اس کے باوجود ان حضرات نے خود کو کبھی شعراء کی فہرست میں شمار نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ حکیم الاسلام رحمة الله عليه ایک جگہ فرماتے ہیں: نہ میں شاعر ہوں اورنہ شعرگوئی اپنا مشغلہ؛ لیکن جذبات جب ابھر کر منصہ شہود پر آنے کے متقاضی بن جاتے ہیں تو ان کے لئے فن شاعری نہ شرط ہوتی ہے، نہ وہ اس کے پابند ہوتے ہیں۔(۵) تاہم علمائے دیوبند کی کہی ہوئی نظموں کے بحرِ بیکراں میں غوطہ لگانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر کیسے کیسے بیش بہا لعل وگوہر موجود ہیں۔ چنانچہ مولانا عبداللہ صاحب مزید فرماتے ہیں: مولانا محمد میاں صاحب رحمة الله عليه نے اپنی مشہور تصنیف ”علمائے حق“ جلد اوّل میں، تعلیمی اور سیاسی ماحول کے لحاظ سے علمائے دیوبند کے چند دور قرار دئیے ہیں، ہم ادبی نقطئہ نظر سے ہر ایک دور پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر ایک دور اپنی آغوش میں اردو کے بہترین ادیب، خطیب اور شاعر لیے ہوئے ہے۔(۶)
مذکورہ سطور میں علمائے دیوبند کے کردار پر اجمالی نظر ڈالی گئی ہے، اب علمائے دیوبند کا شعر وادب سے غیرمعمولی تعلق اور انفرادیت قدرے تفصیل کے ساتھ حوالہٴ قرطاس کیا جارہا ہے۔
حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمة الله عليه
خدا نے آپ کو ایک بڑے عالم، عظیم داعی اور بے باک مناظر کے ساتھ ساتھ فطری شاعر بھی بنایا تھا، بچپن ہی میں آپ کو یہ دولت ودیعت کردی گئی تھی، جیساکہ سوانح قاسمی شاہد ہے کہ مولانا لڑکپن ہی سے فطری شاعرتھے، طبع آزمائی اور فکر وسخن سے دلچسپی لیتے تھے، بقول مولانا یعقوب صاحب رحمة الله عليه: (مولانا) اپنے کھیل اور بعض قصے کو نظم فرماتے اور لکھ لیتے۔(۷) مولانا عبداللہ صاحب مزید لکھتے ہیں: خود مولانا مملوک علی صاحب رحمة الله عليه جو آپ کے سرپرست اور استاذ تھے، شعر وسخن پر قدرت رکھتے تھے اور مفتی صدرالدین صاحب آزردہ جن سے آپ نے ادب کی کتابیں پڑھی تھی، وہ غالب کے معاصر اور اردو کے نقاد تھے۔(۸) آپ کے شعروں میں جو گداز و تاثیر ہے اورجو کیفیت و انشراح ہے وہ قدیم اور کلاسیکی ادبی سرمایہ سے مکمل آگہی کا نتیجہ ہے۔(۹)
حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمة الله عليه
آپ دارالعلوم کے سب سے پہلے صدرالمدرسین تھے، جہاں آپ جامع العلوم والفنون اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے وہیں اپنے جذبات کو شعروسخن کے زیور سے آراستہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی کی منظر کشی مولانا عبداللہ صاحب کی تحریر سے یوں ہوتی ہے: آپ کو شعر وسخن سے بھی لگاؤتھا؛ بلکہ یوں کہئے ذوق تھا۔(۱۰) آپ کی بیاضِ یعقوبی اسی کی آئینہ دار ہے۔ آپ کے اسی سدابہار گلشن سے دو پھول سپرد قرطاس کیے جارہے ہیں:
(جس کو نہ سما سکا ہو یہ ارض وسما * اس جائے میں وہ کس طرح سے جائے سما)
نعتِ نبی صلى الله عليه وسلم میں بھی آپ کا طویل قصیدہ ہے، جس میں لطافتِ تخیل وسعتِ نظر، واقفیت، سادگی، شیرینی، جدت سب کچھ ہے:
(اسی ذات سے ظاہر ہوا یہ سب عالم * ملا ہے آپ کو اس بزم میں پہلا جام)(۱۱)
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه
گنجینہٴ علم وادب، سیاسی قائد، بے مثل محدث ومفسر، اسیرمالٹا، دوسری تحریک آزادی کے بانی وسربراہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه کی ذات گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں، تفسیر، حدیث، فقہ کے سرمائے میں اردو شاعری کا بھی اچھا ذخیرہ آپ کی یادگار ہے، موزونیت طبع، ذوقِ نظم اور شاعری کا مذاق، زمانہ طالب علمی سے تھا، بلند تخیل، لطیف تغزل، عمیق فلسفہ، جذبات کی صداقت، بیان کی ندرت آپ کے کلام میں جان ڈالتے ہیں۔(۱۲) شعروسخن میں آپ کی شخصیت کسی حذاق شاعر سے کم نہیں، جیساکہ اسیران مالٹا میں ہے: ”(آپ) جب کوئی اعلیٰ درجے کا شعر تالیف فرماتے تو طبقہ علماء تو درکنار حذاق شعراء بھی عش عش کرجاتے تھے۔(۱۳) اسی پر مولانا اسیرادروی صاحب مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ ”یہ شعروشاعری طبعی مناسبت کی وجہ سے تھی۔(۱۴) اسی طرح اردو میں نثری حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا عبداللہ صاحب یوں گویا ہیں: آپ کی عبارت صاف ستھری اور سلجھی ہوئی ہوتی ہے۔صفائی اور سلاست پر کہیں کہیں صنائع اور بدائع کی رنگینی، دلکشی و شیفتگی پیدا کردیتی ہے۔(۱۵) نثری نمونہ: میں نے پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پاتا ہوں۔ شعری آئینہ: نور خورشید چمکتا ہے ہر ذرّے میں # چشم بینا ہوتو ہر شئی میں ہے جلوہ تیرا۔(۱۶)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه
جہاں لوگ آپ کو شیخ الکل، مجدد ملت، مصلح امت سے جانتے ہیں تو دوسری طرف، آپ عظیم ترین مصنف اور قلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں۔ آپ اصلاح امت کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت تصنیف وتالیف میں منہمک رہتے تھے، چھوٹی بڑی ۸۷۷ کتابیں آپ کے قلم سے نکلیں اور مقبولِ عام وخاص ہوئیں۔(۱۷) آپ کی تمام کتابوں میں ”بیان القرآن“ بوستانِ اردو کی عظیم ادبی شاہکار ہے جس نے مخالفوں کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا، جس کی لطف وشیرینی کا اندازہ مطالعہ ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بقول علامہ کشمیری رحمة الله عليه: (میں) ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ اردو کا دامن علم و تحقیق سے خالی ہے؛ لیکن مولانا تھانوی رحمة الله عليه کی تفسیر کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اپنی رائے میں ترمیم کرنا پڑی اور اب سمجھتا ہوں کہ اردو بھی بلند پایہ علمی تحقیقات سے بہرہ ور ہے۔(۱۸) مولانا عبداللہ صاحب فرماتے ہیں: آپ کی تحریر میں عالمانہ رنگ اور جابجا ادب کی چاشنی ملتی ہے، مزید فرماتے ہیں: بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ محسنین اردو ادب میں آپ کا مرتبہ بلند ہے۔(۱۹)
علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه
آپ بوحنیفہٴ وقت اور ثانیٴ ابن حجر عسقلانی ہیں اور ذہانت و ذکاوت میں ضرب المثل ہونے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، اردو کے بہترین شاعر بھی تھے، جس کی منظر کشی علامہ انظر شاہ کشمیری رحمة الله عليه یوں کرتے ہیں: آپ نے پندرہ ہزار شعرکہے ہیں، جن میں سے گیارہ سو پچپن عربی میں ہے۔ علامہ اپنے والد کی شعری داستان یوں بیان کرتے ہیں: معلوم ہے کہ ان کا آبائی وطن کشمیر ہے، جہاں اونچے اونچے کوہسار، شاداب مرغزار، حسین وادیاں، بہتے ہوئے دریا، گرتے ہوئے آبشار،اودے اودے بادلوں کاہجوم، نرم ونازک نسیم سحر کے جھونکے،وادی میں بکھرا ہوا حسن جمالیاتی ذوق کو،اگر طبیعت موزوں ہے،بے اختیار ڈھلے ڈھلائے اشعار اور حسین ترنم کی راہوں پر ڈال دیتا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مرحوم کی موزونیٴ طبع؛ بلکہ شعری ذوق نے انہیں شاعر بنادیا۔(۲۰) نمونہٴ شعر: شاہِ جہاں باز اگر ہمارا ہے # کیا غم ہے جب کہ وہ ہمارا ہے۔(۲۱)
مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی رحمة الله عليه
آپ ایک عالم متبحر اور عربی، اردو کے بہترین ادیب تھے، چنانچہ مولانا عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ: آپ اپنے دور کے اہل قلم میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے،اس بات کے شاہد دارالعلوم کے دو مجلے ”القاسم“ اور ”الرشید“ ہیں،جو آپ کی ادارت میں منظر عام پر آتے تھے اور دونوں علمی حلقوں میں مقبول تھے۔(۲۲) آپ کی علمی اثاثہ میں اشاعتِ اسلام، تعلیمات اسلام، سیدالمرسلین، لامیة المعجزات وغیرہ لافانی یادگار ہیں، آپ کے مجموعہٴ مضامین ”اشاعت اسلام“ نے جومقبولیت پائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔(۲۳) جسے سیروتاریخ اور تراجم کے ہزاروں صفحات کی ورق گردانی کے بعد نہایت سلیقے سے مرتب کیاگیا ہے۔(۲۴)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه
یگانہ طرز تحریر اور شاندار ادیب ہونے کے باعث ہندوپاک کی مشہور شخصیت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ نثر میں ایک خاص طرز اور اسلوب کے موجد ومالک تھے، الفاظ اور تراکیب کے حسن اور اندازِ بیان سے عبارت میں ایک مخصوص رنگ جھلکتا ہے، آپ اردو کے ممتاز ادیب اور سحرالبیان خطیب تھے۔(۲۵) آپ کے مناقب میں ایک جگہ ہے کہ آپ بیان میں ہر موقع ومحل کے مناسب اور موضوع کے مطابق اندازبیان اختیار کرتے ہیں اور رنگ میں زور اور ہر مقام پر جدت وندرت پیدا کردیتے ہیں۔(۲۶) آپ کے ادبی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے مولانانورعالم خلیل امینی فرماتے ہیں: آپ زبان وقلم کے شہسوار، ممتاز انشا پرداز تھے اور اردو کے بلند پایہ اور سحرانگیز خطیب بھی تھے۔(۲۷)
دارالعلوم دیوبند کا قیام سرزمین ہند کے لئے باعث صدافتخار ہے، جس نے ہندوستان کی بنجرزمین کو سرسبزی وشادابی عطا کی،چنانچہ اس ادارے نے مسلمانوں کی دینی وقومی روایات کو تحفظ فراہم کرکے، ہر قسم کی آلودگی سے پاک کیا، بدعات وخرافات کی تاریکیوں میں سنت کی مشعلیں روشن کیں، باطل کے مقابلے ہر اعتبار سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہزاروں مجاہد، عالم، مفسر، محدث، متکلم، فقیہ، مقرر، مناظر، حفاظ، قراء اور صوفیا کے ساتھ ساتھ عظیم شہسوارانِ قلم بھی پیدا کیے، جنھوں نے اپنی قلمی جولانیوں سے طوفانِ تندوتیز کا رخ پھیردیا، دارالعلوم کی اسی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا انیس الاسلام قاسمی فرماتے ہیں: سواسو سالہ طویل وقت میں دارالعلوم نے اردو ادب کی ایک وقیع اور پروقار خدمات انجام دی،اس میں شعروشاعری بھی ہے، انشاء و نثر نگاری بھی، تصنیف و تالیف بھی اور خطابت بھی، عربی کتابوں کا ترجمہ بھی، اور ماہانہ وہفتہ وار اخبار ورسائل بھی، مطالعہ بھی اور اشاعت کے انتظامات بھی۔(۱)
گلشن ادب پر بہار قاسمی
اس الہامی ادارے کے سپوت نے جہاں ایمانی و روحانی کیفیت میں جلا بخشنے کے لئے عربیت سے اپنا تعلق استوار کیا، وہیں عوام الناس تک پیغام خداوندی پہنچانے اوراحیائے اسلام کی غرض سے اردو زبان وادب میں بھی کمال پیدا کیا اور بعضوں نے اسی صحافت و ادب کو شعر وسخن کی نیرنگیوں سے ایسی رعنائی بخشی کہ جس سے ان کی تحریر میں غضب کی سحر انگیزی، موجوں کی روانی، نسیم سحر کی نزاکت، پھولوں کی مہک، کہساروں کی رفعت پیداہوگئی اور لوگوں کے ذہن ودماغ پر ایسا مقناطیسی اثر چھوڑا کہ ان کے دل، آپ سے آپ اسلام کی طرف کھینچ آئے۔ تاہم یہاں کا ادب خالص اسلامی رہا ہے، شعرانہ تخیل، کفر وزندقہ، فلسفیانہ موشگافیاں، بے وقت کی راگنی، مہمل داستانِ عشق، افسانہ نگاری، ناول نویسی، لطیفہ گوئی، تذکرئہ بادئہ نوشی، چنچل حسیناؤں کی خرمستیاں اور قاتل اداؤں سے پاک وصاف؛ بلکہ بے گرد وغبار ہے۔ یہاں کا ادب قال اللہ وقال الرسول کے مشک وعنبر سے معطرو روح پرور اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے لبریز ہے، نیز صحابہٴ کرام کی قربانی، جدوجہد اور حیرت انگیز واقعات کے انمٹ نقوش، رونق قرطاس بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نواز دیوبندی دارالعلوم کی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے میں سب سے موٴثر اور پائیدار ذریعہ تحریر ہے، فرزندانِ دارالعلوم نے اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، علمائے دیوبند کا تصنیفی سرمایہ، جو تعداد میں دسیوں ہزار کتابوں پر مشتمل ہے ان کی صلاحیت تحریر کا مظہر ہے، صحافت (ادب) میں علمائے دارالعلوم کے کارناموں سے ایک تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔(۲)
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جب علمائے دیوبند نے قلم اٹھایا تو شہنشاہِ ادب، صاحب تخلیق اور بے مثال انشاء پرداز کی شکل میں نمودار ہوئے، جب ان کی نگاہِ عارفانہ شعر وسخن پر پڑی تو کہنہ مشق شاعرو سخن پرور کہلائے، مگر تاریخ نے انصاف سے کام نہیں لیا اور ان بزرگوں کی بے لوث خدمات کو نظر انداز کردیا۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان بزرگوں کی اعلیٰ کارکردگی (جوعصبیت کے تودے میں دب کر رہ گئی ہے) سے نسلِ نو کو آشنا کرائیں۔
دارالعلوم اور شعروسخن
شاعری تحریر میں حسنِ ادا، زبان میں سلاست و برجستگی پیدا کردیتی ہے،اس کی اہمیت کی ادنیٰ سی جھلک علامہ انظرشاہ صاحب رحمة الله عليه کی تحریر میں نظر آتی ہے کہ ”بلاشبہ اسلام میں اس شاعری کی گنجائش نہیں، جس کے ڈانڈے،فحش گوئی، فحاشی، جذبات میں ہیجان انگیزی اورحسن و عشق کے ناروا مراحل کی عکاسی سے ملتے ہوں؛ لیکن اگر واقعی جذبات و خیالات کے حقیقت پسندانہ مضامین کی ترجمانی، شعری لب ولہجہ میں کی جائے تو اسلام اس کا مخالف نہیں۔(۳)
چنانچہ علمائے دیوبند کی شاعری کا محور، خالص وحقیقی رہا ہے، ان حضرات نے اس فن کو پیشہ نہیں بنایا، جیساکہ دنیا کا رواج ہے، بقول مولانا عبداللہ صاحب: ان حضرات (علمائے دیوبند) نے شعر کو اپنا پیشہ یا مخصوص فن نہیں بنایا؛ لیکن شعریت، ذکاوتِ حس اور ذہانتِ فکر کا فطری جوہر ہے، یہ حضرات، جن کو ذہانت وذکاوت کے بھرپور خزانے عطاہوئے تھے، شعریت سے تہی دامن کس طرح ہوسکتے تھے، چنانچہ غیراختیاری طور پر ان بزرگوں کی فکر رسا نے خاص خاص حالات اور خاص خاص موقعوں پر قصیدے، نظمیں اور غزلیں موزوں کیں۔(۴) اس کے باوجود ان حضرات نے خود کو کبھی شعراء کی فہرست میں شمار نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ حکیم الاسلام رحمة الله عليه ایک جگہ فرماتے ہیں: نہ میں شاعر ہوں اورنہ شعرگوئی اپنا مشغلہ؛ لیکن جذبات جب ابھر کر منصہ شہود پر آنے کے متقاضی بن جاتے ہیں تو ان کے لئے فن شاعری نہ شرط ہوتی ہے، نہ وہ اس کے پابند ہوتے ہیں۔(۵) تاہم علمائے دیوبند کی کہی ہوئی نظموں کے بحرِ بیکراں میں غوطہ لگانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر کیسے کیسے بیش بہا لعل وگوہر موجود ہیں۔ چنانچہ مولانا عبداللہ صاحب مزید فرماتے ہیں: مولانا محمد میاں صاحب رحمة الله عليه نے اپنی مشہور تصنیف ”علمائے حق“ جلد اوّل میں، تعلیمی اور سیاسی ماحول کے لحاظ سے علمائے دیوبند کے چند دور قرار دئیے ہیں، ہم ادبی نقطئہ نظر سے ہر ایک دور پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر ایک دور اپنی آغوش میں اردو کے بہترین ادیب، خطیب اور شاعر لیے ہوئے ہے۔(۶)
مذکورہ سطور میں علمائے دیوبند کے کردار پر اجمالی نظر ڈالی گئی ہے، اب علمائے دیوبند کا شعر وادب سے غیرمعمولی تعلق اور انفرادیت قدرے تفصیل کے ساتھ حوالہٴ قرطاس کیا جارہا ہے۔
حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمة الله عليه
خدا نے آپ کو ایک بڑے عالم، عظیم داعی اور بے باک مناظر کے ساتھ ساتھ فطری شاعر بھی بنایا تھا، بچپن ہی میں آپ کو یہ دولت ودیعت کردی گئی تھی، جیساکہ سوانح قاسمی شاہد ہے کہ مولانا لڑکپن ہی سے فطری شاعرتھے، طبع آزمائی اور فکر وسخن سے دلچسپی لیتے تھے، بقول مولانا یعقوب صاحب رحمة الله عليه: (مولانا) اپنے کھیل اور بعض قصے کو نظم فرماتے اور لکھ لیتے۔(۷) مولانا عبداللہ صاحب مزید لکھتے ہیں: خود مولانا مملوک علی صاحب رحمة الله عليه جو آپ کے سرپرست اور استاذ تھے، شعر وسخن پر قدرت رکھتے تھے اور مفتی صدرالدین صاحب آزردہ جن سے آپ نے ادب کی کتابیں پڑھی تھی، وہ غالب کے معاصر اور اردو کے نقاد تھے۔(۸) آپ کے شعروں میں جو گداز و تاثیر ہے اورجو کیفیت و انشراح ہے وہ قدیم اور کلاسیکی ادبی سرمایہ سے مکمل آگہی کا نتیجہ ہے۔(۹)
حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمة الله عليه
آپ دارالعلوم کے سب سے پہلے صدرالمدرسین تھے، جہاں آپ جامع العلوم والفنون اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے وہیں اپنے جذبات کو شعروسخن کے زیور سے آراستہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی کی منظر کشی مولانا عبداللہ صاحب کی تحریر سے یوں ہوتی ہے: آپ کو شعر وسخن سے بھی لگاؤتھا؛ بلکہ یوں کہئے ذوق تھا۔(۱۰) آپ کی بیاضِ یعقوبی اسی کی آئینہ دار ہے۔ آپ کے اسی سدابہار گلشن سے دو پھول سپرد قرطاس کیے جارہے ہیں:
(جس کو نہ سما سکا ہو یہ ارض وسما * اس جائے میں وہ کس طرح سے جائے سما)
نعتِ نبی صلى الله عليه وسلم میں بھی آپ کا طویل قصیدہ ہے، جس میں لطافتِ تخیل وسعتِ نظر، واقفیت، سادگی، شیرینی، جدت سب کچھ ہے:
(اسی ذات سے ظاہر ہوا یہ سب عالم * ملا ہے آپ کو اس بزم میں پہلا جام)(۱۱)
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه
گنجینہٴ علم وادب، سیاسی قائد، بے مثل محدث ومفسر، اسیرمالٹا، دوسری تحریک آزادی کے بانی وسربراہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه کی ذات گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں، تفسیر، حدیث، فقہ کے سرمائے میں اردو شاعری کا بھی اچھا ذخیرہ آپ کی یادگار ہے، موزونیت طبع، ذوقِ نظم اور شاعری کا مذاق، زمانہ طالب علمی سے تھا، بلند تخیل، لطیف تغزل، عمیق فلسفہ، جذبات کی صداقت، بیان کی ندرت آپ کے کلام میں جان ڈالتے ہیں۔(۱۲) شعروسخن میں آپ کی شخصیت کسی حذاق شاعر سے کم نہیں، جیساکہ اسیران مالٹا میں ہے: ”(آپ) جب کوئی اعلیٰ درجے کا شعر تالیف فرماتے تو طبقہ علماء تو درکنار حذاق شعراء بھی عش عش کرجاتے تھے۔(۱۳) اسی پر مولانا اسیرادروی صاحب مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ ”یہ شعروشاعری طبعی مناسبت کی وجہ سے تھی۔(۱۴) اسی طرح اردو میں نثری حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا عبداللہ صاحب یوں گویا ہیں: آپ کی عبارت صاف ستھری اور سلجھی ہوئی ہوتی ہے۔صفائی اور سلاست پر کہیں کہیں صنائع اور بدائع کی رنگینی، دلکشی و شیفتگی پیدا کردیتی ہے۔(۱۵) نثری نمونہ: میں نے پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پاتا ہوں۔ شعری آئینہ: نور خورشید چمکتا ہے ہر ذرّے میں # چشم بینا ہوتو ہر شئی میں ہے جلوہ تیرا۔(۱۶)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه
جہاں لوگ آپ کو شیخ الکل، مجدد ملت، مصلح امت سے جانتے ہیں تو دوسری طرف، آپ عظیم ترین مصنف اور قلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں۔ آپ اصلاح امت کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت تصنیف وتالیف میں منہمک رہتے تھے، چھوٹی بڑی ۸۷۷ کتابیں آپ کے قلم سے نکلیں اور مقبولِ عام وخاص ہوئیں۔(۱۷) آپ کی تمام کتابوں میں ”بیان القرآن“ بوستانِ اردو کی عظیم ادبی شاہکار ہے جس نے مخالفوں کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا، جس کی لطف وشیرینی کا اندازہ مطالعہ ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بقول علامہ کشمیری رحمة الله عليه: (میں) ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ اردو کا دامن علم و تحقیق سے خالی ہے؛ لیکن مولانا تھانوی رحمة الله عليه کی تفسیر کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اپنی رائے میں ترمیم کرنا پڑی اور اب سمجھتا ہوں کہ اردو بھی بلند پایہ علمی تحقیقات سے بہرہ ور ہے۔(۱۸) مولانا عبداللہ صاحب فرماتے ہیں: آپ کی تحریر میں عالمانہ رنگ اور جابجا ادب کی چاشنی ملتی ہے، مزید فرماتے ہیں: بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ محسنین اردو ادب میں آپ کا مرتبہ بلند ہے۔(۱۹)
علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه
آپ بوحنیفہٴ وقت اور ثانیٴ ابن حجر عسقلانی ہیں اور ذہانت و ذکاوت میں ضرب المثل ہونے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، اردو کے بہترین شاعر بھی تھے، جس کی منظر کشی علامہ انظر شاہ کشمیری رحمة الله عليه یوں کرتے ہیں: آپ نے پندرہ ہزار شعرکہے ہیں، جن میں سے گیارہ سو پچپن عربی میں ہے۔ علامہ اپنے والد کی شعری داستان یوں بیان کرتے ہیں: معلوم ہے کہ ان کا آبائی وطن کشمیر ہے، جہاں اونچے اونچے کوہسار، شاداب مرغزار، حسین وادیاں، بہتے ہوئے دریا، گرتے ہوئے آبشار،اودے اودے بادلوں کاہجوم، نرم ونازک نسیم سحر کے جھونکے،وادی میں بکھرا ہوا حسن جمالیاتی ذوق کو،اگر طبیعت موزوں ہے،بے اختیار ڈھلے ڈھلائے اشعار اور حسین ترنم کی راہوں پر ڈال دیتا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مرحوم کی موزونیٴ طبع؛ بلکہ شعری ذوق نے انہیں شاعر بنادیا۔(۲۰) نمونہٴ شعر: شاہِ جہاں باز اگر ہمارا ہے # کیا غم ہے جب کہ وہ ہمارا ہے۔(۲۱)
مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی رحمة الله عليه
آپ ایک عالم متبحر اور عربی، اردو کے بہترین ادیب تھے، چنانچہ مولانا عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ: آپ اپنے دور کے اہل قلم میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے،اس بات کے شاہد دارالعلوم کے دو مجلے ”القاسم“ اور ”الرشید“ ہیں،جو آپ کی ادارت میں منظر عام پر آتے تھے اور دونوں علمی حلقوں میں مقبول تھے۔(۲۲) آپ کی علمی اثاثہ میں اشاعتِ اسلام، تعلیمات اسلام، سیدالمرسلین، لامیة المعجزات وغیرہ لافانی یادگار ہیں، آپ کے مجموعہٴ مضامین ”اشاعت اسلام“ نے جومقبولیت پائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔(۲۳) جسے سیروتاریخ اور تراجم کے ہزاروں صفحات کی ورق گردانی کے بعد نہایت سلیقے سے مرتب کیاگیا ہے۔(۲۴)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه
یگانہ طرز تحریر اور شاندار ادیب ہونے کے باعث ہندوپاک کی مشہور شخصیت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ نثر میں ایک خاص طرز اور اسلوب کے موجد ومالک تھے، الفاظ اور تراکیب کے حسن اور اندازِ بیان سے عبارت میں ایک مخصوص رنگ جھلکتا ہے، آپ اردو کے ممتاز ادیب اور سحرالبیان خطیب تھے۔(۲۵) آپ کے مناقب میں ایک جگہ ہے کہ آپ بیان میں ہر موقع ومحل کے مناسب اور موضوع کے مطابق اندازبیان اختیار کرتے ہیں اور رنگ میں زور اور ہر مقام پر جدت وندرت پیدا کردیتے ہیں۔(۲۶) آپ کے ادبی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے مولانانورعالم خلیل امینی فرماتے ہیں: آپ زبان وقلم کے شہسوار، ممتاز انشا پرداز تھے اور اردو کے بلند پایہ اور سحرانگیز خطیب بھی تھے۔(۲۷)