دقیانوسیت
Posted: Thu Jul 24, 2008 6:00 pm
[center]دقیانوسیت[/center]
’’ہربات کی حدہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب تم یوں ہی بے دھیانی کو اوڑھنابچھونابنالوگے تو جینا مشکل ہوجائے گا‘‘
اماّں بی نے اوندھے منہ پڑے علی احسن سے کہاتو وہ تکیہ ایک طرف اُچھالتے ہوئے ایک دم سے اُٹھا اور انھیں اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ ۔ ۔
’’چل ہٹ!۔ ۔ ۔ اب خوشامدیں نہ کر ‘‘
’’تو کیا اپنی پیاری سی امّاں بی سے محبت کرناخوشامدہے ؟‘‘
’’اچھا اچھا۔ ۔ ۔ چھوڑمجھے اور جلدی سے تیارہوکر نیچے آ جا۔ ۔ ۔ سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں ‘‘
’’جی آپ چلیے ۔ ۔ ۔ میں آیا‘‘
سلطانہ ڈھیلے قدموں واپس لوٹ آئیں ۔ ۔ ۔ ماربل کی چکنی سیڑھیوں سے اُترنا ان کے لیے پل صراط طے کر نے سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا۔ ۔ ۔ سیڑھیوں کے ساتھ لگے ہوئے آہنی پائپ کو اگرپکڑنہ رکھیں تو ایک سیڑھی نہ اُترسکیں ۔ ۔ ۔ ہال میں لگے فانوس کی سارے بلب روشن تھے ۔ ۔ ۔ ٹی وی بھی چل رہا تھا۔ ۔ ۔ باہرلان میں فوارہ بھی اپنے جوبن پرتھا۔ ۔ ۔ لان کے چاروں اور گنبدنمابلبوں نے رات کو دن میں بدل رکھا تھا۔ ۔ ۔ مین گیٹ کے اُوپر دونوں جانب تیزروشنی والے بلب ضیاتابی کا عنواں بنے ہوئے تھے ۔جب وہ حمنہ کے کمرے کے قریب سے گزر رہی تھیں تو وہ اپنے کمپیوٹرپرکسی سے وائس چیٹنگ میں مصروف تھی۔ ۔ ۔ اے ئر کنڈیشن آن تھامگر۔ ۔ ۔ ا س کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔
’’کس قدرلاپروا اور بے دھیان ہے یہ مخلوق؟‘‘
سلطانہ نے خودکلامی کی۔ ۔ ۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ صحن تک آ گئی جہاں ریٹائرڈپروفیسرعبدالصمداپنے چاروں بیٹوں اور بہوکے ساتھ پہلے سے بیٹھے تھے ۔
’’میاں صاحب زادے نہیں آئے آپ کے ساتھ؟‘‘
پروفیسرصاحب نے سلطانہ سے پوچھا۔ ۔ ۔ مگروہ خاموش رہیں
’’اَجی ہم سے کیابھول ہو گئی جو جناب کا مزاج نا آشنا ہو گیا ہے ؟‘‘
عبدالصمدنے اپنی بیگم کوکچھ مضطرب دیکھ کر کہا
’’پروفیسرصاحب!یہ سب کیادھرا آپ کا ہے ۔ ۔ ۔ اچھی گزر رہی تھی گاؤں میں ، مگرآپ کی ضد ہمیں یہاں لے آئی۔ ۔ ۔ نہ کوئی ادب آداب ہی سیکھ پایا ہے اور نہ ہی نفع نقصان کی پروا ہے کسی کو۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں ہزاروں یونٹ بجلی ضائع کر نے کی کیاضرورت ہے ؟بہورانی آپ کے پہلومیں بیٹھی ہیں ، مگران کے کمرے کا اے ئرکنڈیشن اور بلب بے کار چل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ حمنہ اور علی احسن کے کمروں کا بھی یہی عالم ہے ۔کوریڈور اور ہال سمیت صحن کی حالت بھی مختلف نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بجا ارشادفرمایا آپ نے ۔ ۔ ۔ ہم نے اس بٹا لین کا انچارج آپ کو بنا دیا تھا، تو یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ سپاہیوں سے مناسب کام لیتیں ۔‘‘
شرارت کے سے انداز میں پروفیسرصاحب گویا ہوئے تو سلطانہ بیگم کو جیسے موقع مل گیا ہو ۔ ۔ ۔ وار کر نے کے لیے
’’خوب سمجھتی ہوں آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کی بٹا لین کو۔ ۔ ۔ کہے دیتی ہوں اب مجھ سے مزیدیہ چونچلے برداشت نہیں ہوں گے ۔ ۔ ۔ سیدھی طرح سے اپنی عادتیں بدل ڈا لیے ، ورنہ میں بھائی صاحب کے ہاں گاؤں لوٹ جاؤں گی۔‘‘
فیصلہ کن اندازسے جب انھوں نے کہاتو سب نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔بہونے گھبراتے ہوئے کہا
’’امّاں بی!بس آخری موقع دے دیں ۔ ۔ ۔ ان شاء اللہ کل سے ویساہی ہو گاجیسا آپ چاہتی ہیں ۔‘‘
تب تک سلطانہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھیں ۔
’’ٹھیک کہتی ہیں سلطانہ بیگم۔ ۔ ۔ بجلی کم خرچ ہو گی تو بل بھی کم آئے گا اور بچنے وا لی رقم کہیں اور کام آئے گی‘‘
پروفیسرصاحب نے سمجھانے کے اندازمیں کہا
’’مگراباّجی صرف ہمارے گھر میں یوں نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ پورے بلاک پرنظرڈا لیے ہربنگلے کی یہی کیفیت ہے ۔ ۔ ۔ آپ بھی امّاں بھی کا ساتھ دے رہے ہیں ‘‘
علی محسن نے قدرے ترشی سے کہاتو عبدالصمدنے فکر مندنظروں سے اُسے گھورا
’’اباّجی بل ہم دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کماتے ہم ہیں ، پھرآپ لوگوں کو فکر مند ہونے کی کیاضرورت ہے ؟‘‘
پروفیسرصاحب بیٹے کی باتوں سے دُکھی ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ مگرانھوں نے خودپرضبط کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا!ہم دونوں تو تمھارے ہی بھلے کاسوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک بات یادرکھو!بھرا کنواں بھی سوکھ جایا کر تا ہے ‘‘
’’ہوتا ہو گا اس طرح بھی۔ ۔ ۔ مگریہ سب اس دورکی ضرورتیں ہیں ‘‘
پروفیسرعبدالصمدکے دماغ میں ایک حقیقی کر دار روشن ہورہا تھا۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹوں کو بھی چونتیس سال اُدھرلے گئے
’’جھریوں بھرے چہرے پر دوآنکھیں یوں وا ہوتی تھیں ۔ ۔ ۔ جیسے تاریک غاروں کے دہانے سے بھاری سلوں کو سرکایا جارہا ہو۔زبان میں لکنت بھی آخری حدکو چھو چکی تھی۔بل کہ یوں تھاکہ منہ میں دانت نہ ہونے کے باعث بات ہی ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکتی تھی۔اپنی طرف سے پوری قوت کے ساتھ بات کہی جاتی۔ ۔ ۔ مگرسننے والے کوہمہ تن گوش سے بھی کچھ زیادہ ہوناپڑتا۔اُدھربھی یہی عالم تھا، اِدھر سے بات ہوتی تو ایک کان کے ساتھ ہتھیلی کی دیوار بنا کر دوسرے کان پرہاتھ رکھا جاتا۔اچھاخاصاچیخنے کی مشق کر نے کے بعدوہاں بات پہنچتی۔اُوپر سے کمرکاخم بھی اپنی جگہ موجود تھا۔
یہ تھیں مائی فضیلت!شادی کے بعدایک بیٹے کی ماں بنیں اور جوانی میں بیوگی کی چادراوڑھ کر بیٹھ رہیں ، اللہ جانے کیوں ۔ ۔ ۔ ؟اسّی کی دہائی میں ہم ان کے پڑوسی بنے ۔ بیٹا ان کاکسی عرب ملک میں بڑھئی کاکام کر تا تھا اور اِدھربہو اور دوپوتیوں کی موجودگی کے باوجود بھی اپنا کھاتی پکاتیں ۔اسّی کے سن سے بہ ہر حال متجاوزتھیں ۔ ہماری طرف آ جایا کر تیں اور پھراپنی عمربھرکے تجربات سے آگاہ کر تیں ۔ان کی باتیں اب جو یاد آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کس قدرحقیقت پسند خاتون تھیں ۔خوا جہ رحمت اللہ جری کایہ شعر
جب بڑھاپے کا موڑ ملتا ہے
تجربوں کا نچوڑ ملتا ہے
’’ہربات کی حدہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب تم یوں ہی بے دھیانی کو اوڑھنابچھونابنالوگے تو جینا مشکل ہوجائے گا‘‘
اماّں بی نے اوندھے منہ پڑے علی احسن سے کہاتو وہ تکیہ ایک طرف اُچھالتے ہوئے ایک دم سے اُٹھا اور انھیں اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ ۔ ۔
’’چل ہٹ!۔ ۔ ۔ اب خوشامدیں نہ کر ‘‘
’’تو کیا اپنی پیاری سی امّاں بی سے محبت کرناخوشامدہے ؟‘‘
’’اچھا اچھا۔ ۔ ۔ چھوڑمجھے اور جلدی سے تیارہوکر نیچے آ جا۔ ۔ ۔ سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں ‘‘
’’جی آپ چلیے ۔ ۔ ۔ میں آیا‘‘
سلطانہ ڈھیلے قدموں واپس لوٹ آئیں ۔ ۔ ۔ ماربل کی چکنی سیڑھیوں سے اُترنا ان کے لیے پل صراط طے کر نے سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا۔ ۔ ۔ سیڑھیوں کے ساتھ لگے ہوئے آہنی پائپ کو اگرپکڑنہ رکھیں تو ایک سیڑھی نہ اُترسکیں ۔ ۔ ۔ ہال میں لگے فانوس کی سارے بلب روشن تھے ۔ ۔ ۔ ٹی وی بھی چل رہا تھا۔ ۔ ۔ باہرلان میں فوارہ بھی اپنے جوبن پرتھا۔ ۔ ۔ لان کے چاروں اور گنبدنمابلبوں نے رات کو دن میں بدل رکھا تھا۔ ۔ ۔ مین گیٹ کے اُوپر دونوں جانب تیزروشنی والے بلب ضیاتابی کا عنواں بنے ہوئے تھے ۔جب وہ حمنہ کے کمرے کے قریب سے گزر رہی تھیں تو وہ اپنے کمپیوٹرپرکسی سے وائس چیٹنگ میں مصروف تھی۔ ۔ ۔ اے ئر کنڈیشن آن تھامگر۔ ۔ ۔ ا س کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔
’’کس قدرلاپروا اور بے دھیان ہے یہ مخلوق؟‘‘
سلطانہ نے خودکلامی کی۔ ۔ ۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ صحن تک آ گئی جہاں ریٹائرڈپروفیسرعبدالصمداپنے چاروں بیٹوں اور بہوکے ساتھ پہلے سے بیٹھے تھے ۔
’’میاں صاحب زادے نہیں آئے آپ کے ساتھ؟‘‘
پروفیسرصاحب نے سلطانہ سے پوچھا۔ ۔ ۔ مگروہ خاموش رہیں
’’اَجی ہم سے کیابھول ہو گئی جو جناب کا مزاج نا آشنا ہو گیا ہے ؟‘‘
عبدالصمدنے اپنی بیگم کوکچھ مضطرب دیکھ کر کہا
’’پروفیسرصاحب!یہ سب کیادھرا آپ کا ہے ۔ ۔ ۔ اچھی گزر رہی تھی گاؤں میں ، مگرآپ کی ضد ہمیں یہاں لے آئی۔ ۔ ۔ نہ کوئی ادب آداب ہی سیکھ پایا ہے اور نہ ہی نفع نقصان کی پروا ہے کسی کو۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں ہزاروں یونٹ بجلی ضائع کر نے کی کیاضرورت ہے ؟بہورانی آپ کے پہلومیں بیٹھی ہیں ، مگران کے کمرے کا اے ئرکنڈیشن اور بلب بے کار چل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ حمنہ اور علی احسن کے کمروں کا بھی یہی عالم ہے ۔کوریڈور اور ہال سمیت صحن کی حالت بھی مختلف نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بجا ارشادفرمایا آپ نے ۔ ۔ ۔ ہم نے اس بٹا لین کا انچارج آپ کو بنا دیا تھا، تو یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ سپاہیوں سے مناسب کام لیتیں ۔‘‘
شرارت کے سے انداز میں پروفیسرصاحب گویا ہوئے تو سلطانہ بیگم کو جیسے موقع مل گیا ہو ۔ ۔ ۔ وار کر نے کے لیے
’’خوب سمجھتی ہوں آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کی بٹا لین کو۔ ۔ ۔ کہے دیتی ہوں اب مجھ سے مزیدیہ چونچلے برداشت نہیں ہوں گے ۔ ۔ ۔ سیدھی طرح سے اپنی عادتیں بدل ڈا لیے ، ورنہ میں بھائی صاحب کے ہاں گاؤں لوٹ جاؤں گی۔‘‘
فیصلہ کن اندازسے جب انھوں نے کہاتو سب نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔بہونے گھبراتے ہوئے کہا
’’امّاں بی!بس آخری موقع دے دیں ۔ ۔ ۔ ان شاء اللہ کل سے ویساہی ہو گاجیسا آپ چاہتی ہیں ۔‘‘
تب تک سلطانہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھیں ۔
’’ٹھیک کہتی ہیں سلطانہ بیگم۔ ۔ ۔ بجلی کم خرچ ہو گی تو بل بھی کم آئے گا اور بچنے وا لی رقم کہیں اور کام آئے گی‘‘
پروفیسرصاحب نے سمجھانے کے اندازمیں کہا
’’مگراباّجی صرف ہمارے گھر میں یوں نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ پورے بلاک پرنظرڈا لیے ہربنگلے کی یہی کیفیت ہے ۔ ۔ ۔ آپ بھی امّاں بھی کا ساتھ دے رہے ہیں ‘‘
علی محسن نے قدرے ترشی سے کہاتو عبدالصمدنے فکر مندنظروں سے اُسے گھورا
’’اباّجی بل ہم دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کماتے ہم ہیں ، پھرآپ لوگوں کو فکر مند ہونے کی کیاضرورت ہے ؟‘‘
پروفیسرصاحب بیٹے کی باتوں سے دُکھی ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ مگرانھوں نے خودپرضبط کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا!ہم دونوں تو تمھارے ہی بھلے کاسوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک بات یادرکھو!بھرا کنواں بھی سوکھ جایا کر تا ہے ‘‘
’’ہوتا ہو گا اس طرح بھی۔ ۔ ۔ مگریہ سب اس دورکی ضرورتیں ہیں ‘‘
پروفیسرعبدالصمدکے دماغ میں ایک حقیقی کر دار روشن ہورہا تھا۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹوں کو بھی چونتیس سال اُدھرلے گئے
’’جھریوں بھرے چہرے پر دوآنکھیں یوں وا ہوتی تھیں ۔ ۔ ۔ جیسے تاریک غاروں کے دہانے سے بھاری سلوں کو سرکایا جارہا ہو۔زبان میں لکنت بھی آخری حدکو چھو چکی تھی۔بل کہ یوں تھاکہ منہ میں دانت نہ ہونے کے باعث بات ہی ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکتی تھی۔اپنی طرف سے پوری قوت کے ساتھ بات کہی جاتی۔ ۔ ۔ مگرسننے والے کوہمہ تن گوش سے بھی کچھ زیادہ ہوناپڑتا۔اُدھربھی یہی عالم تھا، اِدھر سے بات ہوتی تو ایک کان کے ساتھ ہتھیلی کی دیوار بنا کر دوسرے کان پرہاتھ رکھا جاتا۔اچھاخاصاچیخنے کی مشق کر نے کے بعدوہاں بات پہنچتی۔اُوپر سے کمرکاخم بھی اپنی جگہ موجود تھا۔
یہ تھیں مائی فضیلت!شادی کے بعدایک بیٹے کی ماں بنیں اور جوانی میں بیوگی کی چادراوڑھ کر بیٹھ رہیں ، اللہ جانے کیوں ۔ ۔ ۔ ؟اسّی کی دہائی میں ہم ان کے پڑوسی بنے ۔ بیٹا ان کاکسی عرب ملک میں بڑھئی کاکام کر تا تھا اور اِدھربہو اور دوپوتیوں کی موجودگی کے باوجود بھی اپنا کھاتی پکاتیں ۔اسّی کے سن سے بہ ہر حال متجاوزتھیں ۔ ہماری طرف آ جایا کر تیں اور پھراپنی عمربھرکے تجربات سے آگاہ کر تیں ۔ان کی باتیں اب جو یاد آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کس قدرحقیقت پسند خاتون تھیں ۔خوا جہ رحمت اللہ جری کایہ شعر
جب بڑھاپے کا موڑ ملتا ہے
تجربوں کا نچوڑ ملتا ہے