Page 1 of 1

بارگاہ رسالت میں ایک بیٹے کا مقدمہ

Posted: Wed Nov 11, 2009 5:59 pm
by اعجازالحسینی
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور کہنے لگے یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرا باپ مجھ سے پوچھتا تک نہیں اور میرا مال خرچ کر لیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اچھا بلاؤ اسکے باپ کو۔ انکے باپ کو پتہ چلا کہ میرے بیٹے نے بارگاہ نبوت میں میری شکایت کی ہے تو انہوں نے دکھ اور رنج کے کچھ اشعار دل میں پڑھے، زبان سے ادا نہیں کیے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس پہنچے تو ادھر جبرائیل امین آگئے۔ کہنے لگے یا رسول اللہ ، اللہ فرمارہے ہیں کہ اس سے فرمائیں پہلے وہ اشعار سنائے جو تمہاری زبان پر نہیں آئے بلکہ تمہارے دل نے پڑھے ہیں اور اللہ نے عرش پر ہوتے ہوئے بھی انکو سن لیا ہے ۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فرمائش پر وہ صحابی کہنے لگے یا رسول اللہ ! قربان جاؤں آپ کے رب پر وہ کیسا رب ہے میرے اندر تو ایک خیال آیا تھا اللہ نے وہ بھی سن لیا۔ فرمایا: اچھا پہلے وہ اشعار سناؤ پھر تمہارے مقدمے کا فیصلہ کریں گے ۔یہ اشعار عربی میں ہیں ۔ انکا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے ۔



[center]ترجمہ[/center]

[center]اے میرے بچےمیں نے تیرے لیے اپنا سب کچھ لگا دیا
جب تو گود میں تھا تو میں اس وقت بھی تیرے لیے پریشان رہا
تو سوتا تھا اور ہم تیرے لیے جاگتے تھے
تو روتا تھا اور ہم تیرے لیے روتے تھے
اور سارا دن میں تیرے لیےخاک چھانتا تھا اور روزی کماتا تھا
اپنی جوانی کو گرمی اور خزاں کے تھپیڑوں سے پٹواتا تھا
مگر تیرے لیے گرم روٹی کا میں نے ہر حال میں انتظام کیا
کہ میرے بچے کو روٹی ملے، چاہے مجھے ملے یا نہ ملے
اس کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آئے
چاہے میرے آنسوؤں کے سمندر اکٹھےہو جائیں
جب کبھی تو بیمار ہو جاتا تھا تو ہم تیرے لئے تڑپ جاتے تھے
تیرے پہلو بدلنے پر ہم ہزاروں وسوسوں میں مبتلا ہو جاتے تھے
تیرے رونے پر ہم بے قرار ہو جاتے تھے
تیری بیماری ہماری کمر توڑ دیتی تھی اور ہمیں مار دیتی تھی
ہمیں یوں لگتا تھا تو بیمار نہیں بلکہ میں بیمار ہوں
تجھے درد نہیں اٹھا بلکہ مجھے درد اٹھا ہے
تیری ہائے پر ہماری ہائے نکلتی تھی
اور ہر پل یہ خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں میرے بچے کی جان نہ چلی جائے
اس طرح میں نے تجھے پروان چڑ ھایا اور خود میں بڑھاپے کا شکار ہوتا رہا
تجھ میں جوانی رنگ بھرتی چلی گئی اور مجھ سے بڑ ھاپا جوانی چھینتا چلا گیا
پھر جب میں اس سطح پر آیا کہ اب مجھے تیرے سہارے کی ضرورت پڑی ہے
اور تو اس سطح پر آگیا ہے کہ تو بے سہارا چل سکے
[/center]


[center]تو مجھے تمنا ہوئی کہ جیسے میں نے اسے پالا ہے یہ بھی میرا خیال کریگا
جیسے میں نے اسکے ناز برداشت کیے ہیں ، یہ بھی میرے ناز برداشت کریگا
لیکن تیرا لہجہ بدل گیا ، تیری آنکھ بدل گئی ، تیرے تیور بدل گئے
تو مجھے یوں سمجھنے لگا کہ جیسے میں تیرے گھر کا نوکر ہوں
تو مجھ سے یوں بولنے لگا کہ جیسے میں تیرا زر خرید غلام ہوں
تو یہ بھی بھول گیا کہ میں نے تجھے کس طرح پالا
تیرے لئے کیسے جاگا، تیرے لئے کیسےرویا ،تڑپا اور مچلا
آج تو میرے ساتھ وہ کر رہا ہے جو آقا اپنے نوکر کے ساتھ بھی نہیں کرتا
اگر تو مجھےبیٹا بن کر نہیں دکھا سکا
اور مجھے باپ کا مقام نہیں دے سکا
تو کم از کم پڑوسی کا مقام تو دیدے،
کہ پڑوسی بھی پڑوسی کا حال پوچھ لیتا ہے
اور تو بخل کی باتیں کرتا ہے “
[/center]



یہ اشعار سننے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا “ اٹھ جا میری مجلس سے ، تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے “

Re: بارگاہ رسالت میں ایک بیٹے کا مقدمہ

Posted: Wed Nov 11, 2009 8:40 pm
by اسداللہ شاہ
جزاک اللہ

Re: بارگاہ رسالت میں ایک بیٹے کا مقدمہ

Posted: Thu Nov 12, 2009 7:24 am
by رضی الدین قاضی
جزاک اللہ

Re: بارگاہ رسالت میں ایک بیٹے کا مقدمہ

Posted: Fri Nov 13, 2009 6:54 pm
by چاند بابو
اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ کتنے لاپرواہ ہیں اس معاملے میں حالانکہ یہ وہی باپ ہے جو ہماری ذرا سی تکلیف سے تڑپ اٹھتا تھا یہ وہی تھا جس نے بھوک برداشت کر کے ہمارا پیٹ بھرا، یہ وہی باپ ہے جس نے گرم سرد ہواؤں کے تھپڑیے سہہ کر ہمارے لئے راحت کا سامان مہیا کیا اور آج ہم ہیں کہ اس بوڑھے باپ کی خدمت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں ہمارے ماں باپ کا ادب اور صحیح معنوں میں فرمابردار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Re: بارگاہ رسالت میں ایک بیٹے کا مقدمہ

Posted: Sat Nov 14, 2009 6:33 am
by شازل
جزاک اللہ

Re: بارگاہ رسالت میں ایک بیٹے کا مقدمہ

Posted: Sat Nov 14, 2009 10:16 am
by اعجازالحسینی
ایک باپ دس بیٹوں کی پرورش کرسکتا ہے لیکن دس بیٹے ایک باپ کی پرورش نہیں کر سکتے ۔