Page 1 of 3

چاند بابو کا تعارف

Posted: Thu Mar 06, 2008 7:54 pm
by بہادر علی
چاند بابو کیا آپ واقعی چاند اور بابو پر پورا اُترتے ہیں یا نام سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں
آپ کی دیگر مصروفیات کیا ہیں کیا آپ شادی شدہ ہیں یا میری طرح لڑکی والوں کی ہاں کا انتظار کر رہے ہیں
کھانے میں کیا پسند ہے
موسم کون سا اچھا لگتا ہے
کس بات پر غصہ آتا ہے
زندگی کی کوئی خواہش جو ابھی پوری نہ ہوئی ہو
باقی ان باتوں کا جواب آنے پر

Posted: Fri Mar 07, 2008 5:30 pm
by چاند بابو
جی بہادر علی شکریہ آپ نے میرا تعارف خود ہی شروع کردیا۔ اصل میں میں نے ابھی اپنا تعارف اس لئے نہیں کروایا تھا کیوں کہ یہ فورم ابھی تجرباتی بنیادوں پرچل رہا تھا۔ لیکن میں نہیں جان سکا کہ آپ اس فورم پر کیسے پہنچ گئے۔ کیونکہ نہ تو یہ فورم گوگل پر ہے اور نہ ہی میں نے اس کا ایڈریس کہیں لکھا تھا۔ میں تو حیران ہی ہو گیا تھا آپ کو دیکھ کرخیر آ گئے تو خوش آمدید اور مبارک ہو کہ آپ اس فورم کے پہلے ممبر بھی ہیں۔
تو اب آپ کے سوالوں کی طرف جاتے ہیں۔
تو جناب پہلی بات یہ ہے کہ میری ماں مجھے اپنا چاند کہتیں ہیں تو چاند تو میں ہوا نہ، رہی بابو کی بات تو بھئی میں سرکاری بابو تو ہوں ہی تو بابو پر بھی پورا اترتا ہوں۔
دیگر مصروفیات یہ ہیں کہ سرکاری نوکر ہوں۔ شادی نہیں ہوئی لڑکی والوں کی ہاں کا انتظار بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔
کھانے میں (یار مذاق مت اڑانا) آلو انڈے کی بھجیا سب سے زیادہ پسند ہے۔
موسم سارے اچھے ہیں بس مجھ سے گرمی برداشت نہیں ہوتی۔
بات بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی مجھے چھٹی والے دن جلدی اٹھا دے تب بہت غصہ آتا ہے۔
اور آخری سوال کا جواب ہے:
[center]کوئی خواہش نہیں تجھ سے اے میری عمرِرواں
میرا بچپن، میری گڑیا، میرے جگنوں لا دے[/center]

Posted: Thu Mar 20, 2008 2:37 pm
by رضی الدین قاضی
بہت خوب چاند بھائی !
کافی دلچسپ باتیں شیئر کی ہیں آپ نے۔

Posted: Fri Mar 21, 2008 5:12 pm
by چاند بابو
جناب کہ دلچسپ نہیں بلکہ میری تمام عمر کا خلاصہ ہے جو میں نے یہاں نقل کر دیا اب آپ کو دلچسپ لگے یا برا لیکن ہوں میں ایسا ہی۔

Posted: Sat Mar 22, 2008 7:29 am
by رضی الدین قاضی
بھائی ہمیں تو آپ اچھے لگے۔ ویسے کھلے ذہن کے انسان اچھے ہی ہوتے ہیں۔

Posted: Mon Mar 24, 2008 7:21 am
by رضی الدین قاضی
چاند بھائی کچھ اپنے شہر کے بارے میں بتایئے۔

Posted: Mon Mar 24, 2008 4:03 pm
by چاند بابو
اچھا تو پھر سنئے۔
میرا شہر بوریوالا ہے۔بورےوالا جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل ہے جسکا ضلع وہاڑی ہے اور یہ ملتان ڈویژن کا حصہ ہے۔دہلی ملتان روڈ پر واقع اس خوبصورت شہر کی عالمی سطح پر شہرت مشہور کرکٹر وقاریونس کی وجہ سے ہے۔اس کے جنوب میں دریائے ستلج ہے شمال میں ضلع ساہیوال مشرق میں ضلع پاکپتن اور مغرب میں ملتان واقع ہے۔ یہ شہر بوڑا سنگھ نامی ایک سکھ کے نام پر بورےوالا کہلایا۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کو "تعلیم کا شہر" کا ٹائیٹل بھی حاصل ہے۔ یہاں کی اسی فیصد آبادی خواندہ ہے۔ لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ کپاس یہاں کی سب سے زیادہ پیداوار ہے اور کاٹن انڈسٹری کا علاقہ ہے۔ بوریوالا میں ایک پوسٹ گریجویٹ ڈگری کالج لڑکوں کے لئے اور ایک لڑکیوں کے لئے ہے۔ پولی ٹیکنیکل کالج بھی ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی ٹیلیفون ایکسچیج بھی بوریوالا میں ہے۔
2004 میں اس کی آبادی تقریبا دو لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔

Posted: Tue Mar 25, 2008 7:40 am
by رضی الدین قاضی
بھائی کافی ترقی یافتہ شہر ہے آپ کا۔ آپ خوش نصیب ہیں جو اس
شہر میں رہتے ہیں ۔ آپ کا شہر اور ترقی کرے اور دنیا کے نقشے پر نمایاں مقام حاصل کرے یہ دعا ہے میری۔

Posted: Mon Apr 14, 2008 2:19 pm
by خرم ابن شبیر
بہت خوب جناب جاند بابو آپ کا تعارف پر کر بہت خوشی ہوئی امید ہے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا شکریہ

Posted: Mon Apr 14, 2008 3:54 pm
by چاند بابو
جی بہت بہت شکریہ خرم صاحب۔

Re:

Posted: Tue Aug 18, 2009 5:13 pm
by بوبی
چاند بابو wrote:جی بہادر علی شکریہ آپ نے میرا تعارف خود ہی شروع کردیا۔ اصل میں میں نے ابھی اپنا تعارف اس لئے نہیں کروایا تھا کیوں کہ یہ فورم ابھی تجرباتی بنیادوں پرچل رہا تھا۔ لیکن میں نہیں جان سکا کہ آپ اس فورم پر کیسے پہنچ گئے۔ کیونکہ نہ تو یہ فورم گوگل پر ہے اور نہ ہی میں نے اس کا ایڈریس کہیں لکھا تھا۔ میں تو حیران ہی ہو گیا تھا آپ کو دیکھ کرخیر آ گئے تو خوش آمدید اور مبارک ہو کہ آپ اس فورم کے پہلے ممبر بھی ہیں۔
تو اب آپ کے سوالوں کی طرف جاتے ہیں۔
تو جناب پہلی بات یہ ہے کہ میری ماں مجھے اپنا چاند کہتیں ہیں تو چاند تو میں ہوا نہ، رہی بابو کی بات تو بھئی میں سرکاری بابو تو ہوں ہی تو بابو پر بھی پورا اترتا ہوں۔
دیگر مصروفیات یہ ہیں کہ سرکاری نوکر ہوں۔ شادی نہیں ہوئی لڑکی والوں کی ہاں کا انتظار بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔
کھانے میں (یار مذاق مت اڑانا) آلو انڈے کی بھجیا سب سے زیادہ پسند ہے۔
موسم سارے اچھے ہیں بس مجھ سے گرمی برداشت نہیں ہوتی۔
بات بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی مجھے چھٹی والے دن جلدی اٹھا دے تب بہت غصہ آتا ہے۔
اور آخری سوال کا جواب ہے:
[center]کوئی خواہش نہیں تجھ سے اے میری عمرِرواں
میرا بچپن، میری گڑیا، میرے جگنوں لا دے[/center]
بہت شکریہ چاند بابو بھائی اپنے بارے میں تھوڑا بہت بتانے کا اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین ثم آمین

Re:

Posted: Tue Aug 18, 2009 5:18 pm
by بوبی
چاند بابو wrote:اچھا تو پھر سنئے۔
میرا شہر بوریوالا ہے۔بورےوالا جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل ہے جسکا ضلع وہاڑی ہے اور یہ ملتان ڈویژن کا حصہ ہے۔دہلی ملتان روڈ پر واقع اس خوبصورت شہر کی عالمی سطح پر شہرت مشہور کرکٹر وقاریونس کی وجہ سے ہے۔اس کے جنوب میں دریائے ستلج ہے شمال میں ضلع ساہیوال مشرق میں ضلع پاکپتن اور مغرب میں ملتان واقع ہے۔ یہ شہر بوڑا سنگھ نامی ایک سکھ کے نام پر بورےوالا کہلایا۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کو "تعلیم کا شہر" کا ٹائیٹل بھی حاصل ہے۔ یہاں کی اسی فیصد آبادی خواندہ ہے۔ لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ کپاس یہاں کی سب سے زیادہ پیداوار ہے اور کاٹن انڈسٹری کا علاقہ ہے۔ بوریوالا میں ایک پوسٹ گریجویٹ ڈگری کالج لڑکوں کے لئے اور ایک لڑکیوں کے لئے ہے۔ پولی ٹیکنیکل کالج بھی ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی ٹیلیفون ایکسچیج بھی بوریوالا میں ہے۔
2004 میں اس کی آبادی تقریبا دو لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔
چاند بابو بھائی میں آپ کے شہر کو اچھی طرح سے جانتا ہوں
‌بہت ہی عمدہ لوگوں کا شہر ہے بہت محبت کرنے والے ہیں لوگ وہاں کے
ہماے کچھ عزیز ہیں آپ کے شہر میں جب پاکستان آیا تھا تو گیا تھا
میری بڑی بھابھی بھی آپ کے شہر بورےوالا سے تعلق رکھتی ہے

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Tue Aug 18, 2009 6:20 pm
by چاند بابو
ارے واہ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ تو ہمارے گرائیں ہی ہو۔
بھئی اب دوبارہ کبھی پاکستان آئیں تو تشریف ضرور لایئے گا مل کر خوشی ہو گی۔

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Tue Aug 18, 2009 6:31 pm
by بوبی
جی ضرور چاند بھائی

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Tue Aug 18, 2009 8:32 pm
by عاطف
بہت خوب چاند بھائی آپ نے اپنا انٹرو پیش کیا امید ہے کہ FIA آپ کا بایئو ڈیٹا یہاں سے حاصل کر کے آپ کو گرفتار کر سکے :mrgreen:

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Tue Aug 18, 2009 8:45 pm
by چاند بابو
جی نہیں وہ!!!!!!!! والی معلومات میں نے یہاں دی ہی نہیں ہیں :mrgreen: :mrgreen:

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Tue Aug 18, 2009 8:49 pm
by شازل
چاند زمین پر آگیا
چاند کو حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ امید ہے شروع ہو چکی ہوگی.

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Wed Aug 19, 2009 3:27 am
by بوبی
شازل wrote:چاند زمین پر آگیا
چاند کو حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ امید ہے شروع ہو چکی ہوگی.
شازل بھائی اب تو چاند چاند ہوتا ہو گا ہر طرف

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Wed Aug 19, 2009 9:53 am
by شازل
نہیں‌بلکہ
میرا چاند ، میرا چاند ہوتا ہوگا. :P

Re: چاند بابو کا تعارف

Posted: Wed Aug 19, 2009 4:46 pm
by بوبی
ایک دوست کے بلاگ سے لی گئی تحریر

وہ کتنی ہی دیر سے کھڑکی کے پاس بیٹھی آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ چاند اپنا آدھا سفر طے کرکے آسمان کے درمیان میں پہنچ چکا تھا۔ چاندنی نے پورے آسمان پر قبضہ کیا ہوا تھا ۔ ستاروں کی جگمگاہٹ مانند پڑی ہوئی تھی۔ آسمان پر بادلوں اور چاند کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ ٹھنڈی ہوا، پھولوں، پتوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔


“چاندنی! اتنی رات ہوگئی بیٹا، تم ابھی تک جاگ رہی ہو۔” اسکی امی نے پوچھا جو رات کے اس پہر دیکھنے آئی تھیں کہ وہ ٹھیک سے سو رہی ہے۔
“امی! میں چاند کو دیکھ رہی ہوں۔”
“بیٹا! یہ کوئی وقت ہے چاند کو دیکھنے کا، اتنی رات ہو گئی ہے اب تمہیں سو جانا چاہیئے۔”
“جی امی!۔”
اس نے فرمانبردار بچوں کی طرح جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


————-


کچھ دن آگے گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رات کا وہی پہر تھا۔


وہی وہ اور وہی کھڑکی۔


وہ پھر کھڑکی کے پاس بیٹھی باہر آسمان پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ ٹھنڈی ہوا آج بھی پھولوں اور پتوں کے ساتھ ہنسی مزاق کر رہی تھی۔ ہلکے ہلکے بادلوں نے آسمان کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ آج ان کی آنکھ مچولی کے کھیل میں چاند کی بجائے ستارے شامل تھے۔


“چاندنی بیٹا!” امی پھر آ گئیں۔
“جی امی۔”
“یہاں کیا کر رہا ہے میرا چاند۔” انہوں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
“امی! میں چاند دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔” جواب پھر وہی تھا۔


“چاند کو۔۔۔۔۔۔۔” انہوں نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ چاروں طرف اماوس کی رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔”رات بہت ہو گئی ہے۔ اب چاند کو بھی آرام کرنا ہے۔ تم بھی سو جاؤ۔” انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا۔ ساتھ ہی دو بے آواز آنسو ان کی آنکھوں میں جھلملا گئے۔

“جی امی۔”
اس نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماوس کی رات کا اندھیرا اس کی آنکھوں میں بھی چھایا ہوا تھا۔
————-

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہے

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو


کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہے

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو


کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہے

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو


کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہے


“اتنی دیر سےاسی خیال کو ہی کیوں دہرا رہی ہیں آپ۔؟” ایک درشت سی آواز بہت ہی نزدیک سے سنائی دی۔ اس کی محویت ٹوٹ گئی۔


“جی مجھ سے کچھ کہا۔”


جواب ندارد۔


اس نے اپنا وہم خیال کیا۔ وہ تو بے آواز لبوں سے گنگنا رہی تھی، بھلا کوئی کیسے سن سکتا تھا۔ اس نے گہرا سانس لیا۔


“میں آپ سے پوچھ رہا ہوں، کہ بار بار یہی مصرعے کیوں دہرا رہی ہیں۔ تتلیوں، جگنوؤں کا کوئی وجود نہیں ہوتا، انکا کوئی دیس نہیں، وہ کسی کو آواز نہیں دیتے، کس خیالی دنیا میں بس رہی ہیں آپ۔ باہر نکلیں۔ حقیقت کا سامنا کریں۔”


یقیناً وہ جو کوئی بھی تھا اسی سے مخاطب تھااور شاید غصہ بھی۔


“یہ خیالی نہیں حقیقی دنیا ہے اور تتلیاں، جگنو سب حقیقی زندگی کا حصہ ہیں۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتے؟ ان کی آواز سنائی نہیں دیتی ؟۔” اس نے جواب دیا۔


جواب ندارد۔


وہ الجھ گئی۔ یہ کیسا شخص تھا۔ بات کرتے کرتے کہیں کھو جاتا۔ اور بات بھی کہاں کر رہا تھا۔۔۔۔اس انداز کو بات تو نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔۔


“آپ یہاں لکھ دیں جو کہہ رہی ہیں۔” اس آواز نے اس کی سوچوں میں خلل ڈالا۔


“لکھ دوں۔؟” وہ ناسمجھنے والے انداز میں بڑبڑائی۔


اس آدمی نے اپنی بات جاری رکھی، اس کی بڑبڑاہٹ جیسے سنی ہی نہیں،” میں سن نہیں سکتا اس لئے لکھ کر بات کرتا ہوں۔ آپ یہاں لکھنے کی زحمت کریں گی۔” لہجہ اور الفاظ دونوں طنزیہ ۔۔۔۔جیسے ساری غلطی دوسرے کی ہو۔


“میں سن نہیں سکتا۔” اور پوری بات میں اس نے شاید صرف یہی بات سنی تھی۔ وہ انداز، وہ الفاظ جو کچھ دیر پہلے تک بہت سخت محسوس ہو رہے تھے۔ یکدم کہیں کھو گئے۔ صرف ایک بازگشت رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔


“میں سن نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔میں سن نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔میں سن نہیں سکتا۔۔۔”


اسنے کاغذ اور قلم لینے کے لئے ہاتھ بڑھا دئیے۔


“آپ۔۔۔۔۔۔۔۔” اگلا شخص اتنا ہی کہہ سکا۔ پاس رکھی سفید چھڑی تو اس نے اب ہی دیکھی تھی۔


وہ سمجھ گئی۔


“ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ جملہ مکمل نہیں کر سکی، نہیں بتا سکی کہ وہ دیکھ نہیں سکتی۔ بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سن نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دونوں اپنی اپنی زات کے گرداب میں پھنسے ہوئے،ایک طرف خواب ۔۔۔ چاندنی راتوں کے، رنگوں کے، روشنیوں کے۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف۔۔۔ مایوسی، نفرت، تنہائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دنیا سے جس کو جو مل سکا۔


“میں ہونٹوں کی جنبش بھی پڑھ لیتا ہوں، ہم اس طرح بھی بات کر سکتے ہیں۔” وہی آواز پھر سنائی دی۔


“میں چاند کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ کیسے دیکھوں؟” اسنے سوال کیا۔


آنکھوں سے۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ اس کے سوال کا جواب نہیں تھا۔ اس کے لئے کوئی اور جواب ہونا چاہئے تھا۔۔۔۔۔۔ دیکھنے کا کوئی اور طریقہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کونسا طریقہ؟ کونسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟


اس سوال نے اس کے اندر قبضہ کر لیا۔ نفرت، مایوسی اور تنہائی باہر کھڑے منہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ خوش قسمت تھا۔۔۔ ہاں وہ یقیناً خوش قسمت تھا۔۔۔۔چاند کو دیکھ سکتا تھا مگر ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی۔۔۔۔۔۔۔


باتیں ختم ہو گئی تھیں۔ چہار سو سناٹا رہ گیا تھا۔ اندھیرا اس کے ساتھ تھا۔
————-
دیکھو دیکھو
چاند کو دیکھو
خوش ہوتے ہوئے
مسکراتے ہوئے

سنو سنو
چاند کو سنو
گنگناتے ہوئے
کھلکھلاتے ہوئے