کلام: حماد رضا بُخاری
غزل
اب کہیں بھی نظر نہیں آتا
شام کو بھی وہ گھر نہیں آتا
ہم بھی روشن دِیا نہیں کرتے
جب سے وہ بھی اِدھر نہیں آتا
گِر پڑا جو اُسے اٹھانے کو
اب کوئی ہم سفر نہیں آتا
روشنی اتنی بڑھ گئی ہے یہاں
کچھ بھی مجھ کو نظر نہیں آتا
جھوٹ بولوں تو کس طرح یارو؟
مجھ کو یہ بھی ہنر نہیں آتا
اک صدف منتظر ہے برسوں سے
ابرِ نیساں مگر نہیں آتا
***
غزل (اب کہیں بھی نظر نہیں آتا)
-
- کارکن
- Posts: 52
- Joined: Sun Sep 13, 2015 3:50 pm
- جنس:: مرد
- Contact:
-
- منتظم اعلٰی
- Posts: 6565
- Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
- جنس:: مرد
- Location: پاکستان
- Contact:
Re: غزل (اب کہیں بھی نظر نہیں آتا)
روشنی اتنی بڑھ گئی ہے یہاں
کچھ بھی مجھ کو نظر نہیں آتا
جھوٹ بولوں تو کس طرح یارو؟
مجھ کو یہ بھی ہنر نہیں آتا
بہت خوب.
کس کا کلام ہے؟
کچھ بھی مجھ کو نظر نہیں آتا
جھوٹ بولوں تو کس طرح یارو؟
مجھ کو یہ بھی ہنر نہیں آتا
بہت خوب.
کس کا کلام ہے؟