Page 4 of 4

چڑیا، چڑے کی کہانی

Posted: Thu Nov 05, 2015 12:41 pm
by nizamuddin
ایک تھی چڑیا، ایک تھا چڑا، چڑیا لائی دال کا دانا، چڑا لایا چاول کا دانا، اس سے کھچڑی پکائی، دونوں نے پیٹ بھر کر کھائی، آپس میں اتفاق ہو تو ایک ایک دانے کی کھچڑی بھی بہت ہوتی ہے۔
چڑا بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کھچڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چوالیس حصے تو لے، اے بھاگوان پسند کر یا نا پسند کر۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر، چڑے نے اپنی چونچ میں سے چند نکات بھی نکالے اور بی بی کے آگے ڈالے۔ بی بی حیران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو میرا جنم کا ساتھ تھا لیکن کیا کرسکتی تھی۔
دوسرے دن پھر چڑیا دال کا دانا لائی اور چڑا چاول کا دانا لایا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈیا چڑھائی۔ کھچڑی پکائی، کیا دیکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہیں۔ چڑے نے چاول کا دانہ کھایا، چڑیا نے دال کا دانا اٹھایا۔ چڑے کو خالی چاول سے پیچش ہوگئی، چڑیا کو خالی دال سے قبض ہوگئی۔ دونوں ایک حکیم کے پاس گئے جو ایک بلا تھا۔ اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور پھیرتا ہی چلا گیا۔
یہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج کل تو چاول ایکسپورٹ ہوجاتا ہے اور دال مہنگی ہے۔ اتنی کہ وہ لڑکیاں جو مولوی اسماعیل میرٹھی کے زمانے میں دال بگھارا کرتی تھیں، آج کل فقط شیخی بگھارتی ہیں۔
(’’اردو کی آخری کتاب‘‘ از ابن انشا سے انتخاب)

Re: ادبی طنز و مزاح

Posted: Wed Nov 11, 2015 9:27 pm
by چاند بابو
ہاہاہاہا
کیا کہنے ابن انشاء کے.

Re: ادبی طنز و مزاح

Posted: Tue Dec 08, 2015 2:26 pm
by nizamuddin
Image

Re: ادبی طنز و مزاح

Posted: Mon Apr 03, 2017 8:41 am
by محمد شعیب
نظام الدین صاحب
یہ سلسہ جاری رکھیں۔۔۔
بہت خوب

Re: ادبی طنز و مزاح

Posted: Mon Apr 03, 2017 11:40 am
by چاند بابو
بہت خوب بہت ہی اعلٰی انتخاب ہے۔

Re: ادبی طنز و مزاح

Posted: Sat Apr 08, 2017 12:34 pm
by وارث اقبال
اچھے اقتباسات کا انتخاب کیا گیا ہے۔ بہت خوش رہئے اور دوسروں کی خوشی کے اسباب پیدا کرتے رہئے۔خوشی خریدی نہیں جاتی۔اسے تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس کی تلاش کے لئے نہ تو صحرا نوردی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو تلاش کرنے کے لئے سمندروں میں کودنا پڑتا ہے۔ اسے پانے کے لئے ایک ڈبکی لگانا پڑتی پر۔ اپنے اندر کے دریا کے پاک پانیوں میں ڈبکی۔ جو یہ ڈبکیاں لگانا سیکھ لیتے ہیں۔ انہیں پھر اقتباس مل ہی جاتے ہیں۔ جو انہیں خوشی دیتے ہیں۔ مگر خوشی پانے والا اپنی خوشی اپنے تک نہیں رکھ پاتا وہ اُسے شئیر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تو جناب اندر ڈبکیاں لگائیے، پڑھیے اور ہمیں بھی اسی طرح اپنی راحت و مسرت میں شامل رکھئے۔