Page 4 of 6

یقین کامل

Posted: Sat Aug 15, 2015 3:02 pm
by nizamuddin
مشکلیں حل ہوجایا کرتی ہیں، راستے بھی نکل آتے ہیں، بس انسان کا یقین مضبوط ہونا چاہئے۔انسان کو یہ اعتماد اور بھروسہ ضرور ہونا چاہئے کہ اللہ ہے اور اس کے ساتھ ہے، مشکلیں وہی حل کرے گا، راستے وہی بنائے گا۔ وہاں جہاں انسان اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتا وہاں کوئی اور ہے جو اس کے لئے سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں صرف اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ جو ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ کبھی آپ کو نہیں بھولتا۔ وہ آپ کے ساتھ رہتا ہے، ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ وہ دیتا ہے۔ دیتا ہے بے شمار، بے حساب! آپ کے ناشکرے پن کے باوجود بھی دیتا رہتا ہے۔ وہ گنتا نہیں ہے، احسان نہیں جتاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پر آزماتا ضرور ہے اور اس کی بھیجی ہوئی آزمائشوں میں کھرا اترانا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر یقین مضبوط ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا۔
(سحرش بانو کے ناول ’’ساتھ دل کے چلے‘‘ سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Sat Aug 15, 2015 4:50 pm
by ایم ابراہیم حسین
بیشک
اللہ پر یقین ہی کامیابی ہے
سلامت رہیں محترم نظام الدین بھائی


Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Sat Aug 15, 2015 7:55 pm
by shoiabsafdar
بہت عمدہ انتخابات ہیں.
http://www.pensive-man.blogspot.com

عشق مجازی سے عشق حقیقی تک

Posted: Tue Aug 18, 2015 2:36 pm
by nizamuddin
عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا ہے، زمین پر رہنے نہیں دیتا اور عشق لاحاصل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا ہے جب عشق لاحاصل رہتا ہے۔ جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور ہاتھ لے کر پھرے۔
ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا،
گزرے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے۔ مگر میری سمت الٹی ہوگئی تھی۔ میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا۔ مجازی کو نہ پاکر حقیقی تک نہیں گئی تھی۔ حقیقی کو پاکر بھی مجازی تک آگئی تھی اور اب در بہ در پھررہی تھی۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’دربارِ دل‘‘ سے اقتباس)

اللہ کی رضا

Posted: Wed Aug 19, 2015 2:35 pm
by nizamuddin
جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا۔ ’’چھلنی بن جاؤ، اس جھکڑ کو گزر جانے دو، اندر رکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا، غصہ کھانے کی نہیں، پینے کی چیز ہے۔‘‘
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی۔ ’’ضد نہ کرو، اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔‘‘
جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا۔ ’’نہ، ہار جاؤ، ہار جاؤ، ہار جانے میں ہی جیت ہے۔‘‘
جب بھی میں تھکا ہوتا، کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا۔ ’’دے دو دوا، شاید اللہ کو تمہاری یہی ادا پسند آجائے۔‘‘
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’الکھ نگری‘‘ سے اقتباس)

محبت

Posted: Fri Aug 21, 2015 2:41 pm
by nizamuddin
محبت وہ شخص کرسکتا ہے جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگالیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجالیا ۔۔۔۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو روح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی جان کی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کا دروازہ صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا، اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔
(اشفاق احمد کے ناول ’’من چلے کا سودا‘‘ سے اقتباس)

عذاب

Posted: Sat Aug 22, 2015 3:50 pm
by nizamuddin
دنیا میں اس سے بڑا اور کوئی عذاب نہیں کہ انسان وہ بننے کی کوشش میں مبتلا رہے جو کہ وہ نہیں ہے۔ گو اس خواہش اور اس آرزو کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم لوگ کوشش کرکے اور زور لگا کے اپنے مقصد کو پہنچ ہی جاتے ہیں اور بالآخر وہ نظر آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ نہیں ہوتے۔ اپنے آپ کو پہچانو اور خود کو جانو اور دیکھو کہ تم اصل میں کیا ہو۔ اپنی فطرت اور اپنی اصل کے مطابق رہنا ہی اس دنیا میں جنت ہے۔
(اشفاق احمد۔ زاویہ ۳، علم فہم اور ہوش سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Sun Aug 23, 2015 7:48 am
by افتخار
v;g

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Mon Aug 24, 2015 2:43 pm
by ایم ابراہیم حسین
nizamuddin wrote:دنیا میں اس سے بڑا اور کوئی عذاب نہیں کہ انسان وہ بننے کی کوشش میں مبتلا رہے جو کہ وہ نہیں ہے۔ گو اس خواہش اور اس آرزو کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم لوگ کوشش کرکے اور زور لگا کے اپنے مقصد کو پہنچ ہی جاتے ہیں اور بالآخر وہ نظر آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ نہیں ہوتے۔ اپنے آپ کو پہچانو اور خود کو جانو اور دیکھو کہ تم اصل میں کیا ہو۔ اپنی فطرت اور اپنی اصل کے مطابق رہنا ہی اس دنیا میں جنت ہے۔
(اشفاق احمد۔ زاویہ ۳، علم فہم اور ہوش سے اقتباس)
بیشک
خوبصورت سبق
سلامتی ہو محترم بھائی جی

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Tue Aug 25, 2015 2:41 pm
by nizamuddin
ایم ابراہیم حسین wrote:
سلامتی ہو محترم بھائی جی

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk
پسندیدگی کا شکریہ

خواب

Posted: Tue Aug 25, 2015 2:42 pm
by nizamuddin
خواب تو وہ ہوتے ہیں جن سے خوشی اور امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھی گئی ان خوشیوں کا نام ہے جو حقیقت میں نہیں ہوتیں۔ خواب تو امید ہوتے ہیں، اچھے وقت کی، اچھے مستقبل کی، اچھی زندگی کی، خواب محبت سے عبارت ہوتے ہیں۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ سے اقتباس)

حلال حرام

Posted: Wed Aug 26, 2015 3:27 pm
by nizamuddin
یاد رکھو! ابھی مغرب والے یہاں تک نہیں پہنچے ۔۔۔۔۔۔ جب ہم سور کا گوشت نہیں کھاتے تو وہ حیران ہوتے ہیں۔ جب ہم بکرے پر تکبیریں پڑھ کر اسے حلال کرتے ہیں تو وہ تعجب سے دیکھتے ہیں۔ جب ہم عورت سے زنا نہیں کرتے، نکاح پڑھ کر اسے اپنے لئے حلال بناتے ہیں تو وہ سمجھ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔ بھائی میرے کیسے سمجھیں، حرام حلال کا تصور انسانی نہیں ہے اس لئے ۔۔۔۔ اس میں بھید ہے، گہرا بھید ’’جین میوٹیشن‘‘ کا ۔۔۔۔۔۔ حرام حلال کی حد سب سے پہلے بہشت میں لگائی تھی اللہ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سے اقتباس)

عشق

Posted: Thu Aug 27, 2015 2:55 pm
by nizamuddin
ہر وقت خدا کے احسانات یاد کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے، یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا، تجھ سے محبت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا۔ کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الٰہی بخش بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری بہتری سوچتا ہے، تجھے اہمیت دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس محبت کے ساتھ یہ بھی سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(’’عشق کا عین‘‘ از علیم الحق حقی سے اقتباس)

زندگی کی تلخیاں

Posted: Fri Aug 28, 2015 3:06 pm
by nizamuddin
زندگی کی تلخیاں آدمی کی زندگی میں وہ ہی حیثیت رکھتی ہیں جو سونے چاندی کو تپانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ تپانے کا عمل جس طرح سونے چاندی کو نکھارتا ہے اسی طرح تلخ تجربات آدمی کی اصلاح کرتے ہیں اور انسانوں میں چمک پیدا کردیتے ہیں، ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ ’’میں ہوں ناں‘‘ سے اقتباس)

حق

Posted: Fri Aug 28, 2015 3:07 pm
by nizamuddin
میں نے انسان کو شہر بساتے اور حق مانگتے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ جان لو صاحبو! جب کبھی سڑک بنتی ہے اس کے دائیں بائیں کا حق ہوتا ہے، جو مکان شہروں میں بنتے ہیں باپ کے مرتے ہی وارثوں کا حق بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ چلو اور چل کر دیکھو، جب سے انسان نے جنگل چھوڑا ہے اس نے کتنے حق ایجاد کرلئے ہیں۔ رعایا اپنا حق مانگتی ہے، حکومت کو اپنے حقوق پیارے ہیں، شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے حق مانگتی ہے، استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد سے اپنا حق مانگتا ہے۔
اصلی حق کا تصور اب انسان کے پاس نہیں رہا، کچھ مانگنا ہے تو اصلی حق مانگو ۔۔۔۔۔۔ جب محبت ملے گی تو پھر سب حق خوشی سے ادا ہوں گے، محبت کے بغیر ہر حق ایسے ملے گا جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے۔
(بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Sat Aug 29, 2015 8:02 am
by افتخار
بہت ہی اچھی بات شئیر کرنے کا بہت شکریہ

جزاک اللہ

مایوسی و ناامیدی

Posted: Sat Aug 29, 2015 3:08 pm
by nizamuddin
بھلا روز ازل کیا ہوا تھا، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کرسکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دوچار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے ناامید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے، وہ بھی جنت سے نکالے گئے لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے، یہی تو ساری بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابلیس نے دعویٰ کررکھا ہے میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا، ناامید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغوا ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔
(’’ابن آدم، سامان وجود‘‘ از بانو قدسیہ سے اقتباس)

پاکیزہ سیرت

Posted: Sat Aug 29, 2015 3:09 pm
by nizamuddin
جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا، راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے، دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے۔ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا۔ ’’بیت المال کس طرف ہے؟‘‘ آزاد کشمیر میں خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا ہے۔
میں نے پوچھا۔ ’’بیت المال میں تمہارا کیا کام؟‘‘
بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جارہے ہیں۔‘‘
ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھالیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں۔
آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا۔ مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔
(قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ سے اقتباس)

پیاسا سمندر

Posted: Mon Aug 31, 2015 2:30 pm
by nizamuddin
“آدمی کتنا پیاسا ہے ، اور کس طرح اسکی پیاس بڑھتی رہتی ہے ، اور کس طرح وہ خوارج میں اپنے لئے تسکین اور آسودگی تلاش کرتا ہے ، مگر کیا کبھی بھی اسے تسکین نصیب ہوتی ہے ؟ کبھی آسودگی ملتی ہے ؟ ، مگر وہ بالکل کسی سمندر ہی کی موج در موج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ، کبھی چٹانوں کو کاٹتا ہے ، کبھی پہاڑوں میں رخنے کر کے انکے پرخچے اڑا دیتا ہے ، اپنی بے چینی کی وجہ وہ خود ہے ، اور اپنی تسکین کا سامان بھی اپنے دامن میں رکھتا ہے ، مگر وہ دوسروں کی پیاس تو بجھا دیتا ہے ، خود اپنی پیاس بجھانے کا سلیقہ نہیں رکھتا ۔ ۔۔ ۔ تم اسے پیاسا سمندر کہہ سکتی ہو بے بی ۔ ۔ ۔ ۔ جو پانی ہی پانی رکھنے کے باوجود بھی ازل سے پیاسا ہے ۔ ۔۔ ۔ اور اس وقت تک پیاسا رہے گا جب تک کہ اسے اپنا عرفان نہ ہو جائے ، لیکن اس میں ہزارہاں سال لگیں گے ۔ ۔ ۔۔ ابھی تو بچوں کی طرح گھٹنوں چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو چاند میں جانے کی باتیں کر رہا ہے ، اسکی ذہنیت اور سوجھ بوجھ اس بچے سے زیادہ نہیں ہے جو ماں کی گود میں چاند کے لئے ہمکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مصنوعی سیارے اڑا کر اس طرح خوش ہوتا ہے جیسے بچے صابون کے بلبلے اڑا کر مسرور ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور ایک دوسرے سے شرط بدلتے ہیں کہ دیکھیں کس کا بُلبلا دیر تک فنا نہیں ہوتا ، اور پھر ایسے شیخیاں بگھارتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو ، مگر بے بی ۔ ۔۔ ۔ چاند کا سفر آدمیت کی معراج نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ چاند کی باتیں تو ایسی ہی ہیں جیسے کوئی اپنے اصل کام سے اکتا جائے اور بیٹھ کر گنگنانا شروع کردے ۔ ۔ ۔۔

جانتی ہو آدمیت کی معراج کیا ہے ؟ ۔ ۔۔ ۔ آدمی کی معراج یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ہی مسائل حل کر لے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اسنے مصنوعی سیارہ فضا میں پھینکنے کے بجائے سرطان کا کامیاب علاج دریافت کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اب اسکے قدم اس راہ کی طرف اٹھ گئے ہیں جسکی انتہا اسکی معراج ہو گی ، اگر اسنے چاند تک پہنچنے کی اسکیم بنانے کی بجائے زمین کے ہنگامے کا پرامن طور پر فرو کرنے کا کوئی ذریعہ دریافت کر لیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اب یہ پیاسا نہیں رہے گا ، بلکھ خود کو بھی سیراب کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہزارہا سال چاہیں اس کے لئے شمی ہزار سال۔‘‘
(ابن صفی کے ناول ’’پیاسا سمندر‘‘ سے اقتباس)

آزمائش

Posted: Mon Aug 31, 2015 2:31 pm
by nizamuddin
ہمیں خدا پر صرف اس وقت پیار آتا ہے جب وہ ہمیں مالی طور پر آسودہ کردے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم اسے طاقتور ہی نہیں سمجھتے۔ ہم نماز کے دوران اللہ اکبر کہتے ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور نماز ختم کرتے ہی ہم روپے کو بڑا سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ خدا مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ خدا تو ہر ایک سے محبت کرتا ہے اس لئے تو اس نے مجھے آزمائشوں میں ڈالا، اور وہ اپنے انہی بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’زندگی گلزار ہے‘‘ سے اقتباس)