Page 6 of 6

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Sat Oct 03, 2015 8:20 pm
by محمد شعیب
جزاک اللہ

Sent from my SM-J110F using Tapatalk

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Sun Oct 04, 2015 8:01 pm
by چاند بابو
بہت خوب نظام الدین بھیا.

خواہش

Posted: Sat Oct 10, 2015 3:36 pm
by nizamuddin
جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا ہے، اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جسے وہ دنیا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
(اقتباس از عمیرہ احمد)

غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے

Posted: Tue Oct 27, 2015 2:38 pm
by nizamuddin
مجھے جب غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اس جھکڑ کو گزر جانے دو، اندر رکے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روکوگے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ۔۔۔۔۔۔۔ ضد نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ نا ۔۔۔۔۔۔۔ ہار جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہار جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اسے ٹالنے کی سوچتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اللہ کو تمہاری یہی ادا پسند آجائے۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’الکھ نگری‘‘ سے اقتباس)

Re: غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے

Posted: Tue Oct 27, 2015 10:48 pm
by چاند بابو
nizamuddin wrote:مجھے جب غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اس جھکڑ کو گزر جانے دو، اندر رکے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روکوگے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ۔۔۔۔۔۔۔ ضد نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ نا ۔۔۔۔۔۔۔ ہار جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہار جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اسے ٹالنے کی سوچتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اللہ کو تمہاری یہی ادا پسند آجائے۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’الکھ نگری‘‘ سے اقتباس)

بہت خوب یہ واقعی ہی بہت سنہری باتیں ہیں.

خوبصورت جذبہ

Posted: Mon Nov 09, 2015 3:06 pm
by nizamuddin
محبت دنیا کا خوبصورت جذبہ ہے۔ سونا جس طرح تپ کر کندن بن جاتا ہے، اسی طرح محبت جب اپنی خالص ترین شکل میں ڈھلتی ہے تو ’’ممتا‘‘ بن جاتی ہے اور ممتا وہ جذبہ ہے جو کائنات کو متحد رکھنے میں، جوڑنے میں اور اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ کام آتی ہے۔
(تنزیلہ ریاض کے ناول ’’عہد الست‘‘ سے اقتباس)

رشتے، چاہتیں اور محبتیں

Posted: Wed Nov 11, 2015 2:30 pm
by nizamuddin
زندگی پھر مجھے موقع دے۔ میں فرض کرلوں کہ مجھے دوسری زندگی ملے۔ فیصلے کا اختیار پھر میرے ہاتھ میں دیا جائے۔ ایک رشتہ یا بہت سے رشتے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چاہت یا بہت سی چاہتیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک محبت یا بہت سی محبتیں؟ تو میرا انتخاب ہر بار رشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور محبتیں ہوگا۔‘‘
(فرحت اشتیاق کے ناول ’’وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر‘‘ سے اقتباس)

مٹی کا رشتہ

Posted: Wed Dec 02, 2015 2:47 pm
by nizamuddin
آدم کی تخلیق میں تراب، یعنی مٹی کا عنصر پانی، ہوا اور کچھ دیگر لوازمات سے زیادہ رہا ہے۔ اس کو اتارا بھی اسی مٹی پہ، اس کی بیشتر معیشت، کاروبار، حیات، ذرائع و وسائل، جینا مرنا اسی مٹی اور زمین کی مرہون منت ٹھہرائے گئے۔ اس کی گِل اسی مٹی سے تیار ہوئی۔ اس کی فطرت و فہامت اس مٹی کی تاثیر اور مزاج کے مطابق ڈھالی گئی۔ مگر جب اس مٹی سے بیگانگی روا رکھ کر یہ مٹی کا پُتلا ملٹی اسٹوری فلیٹوں میں جابسا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی ایسی نہ سمجھ میں آنے والی بیماریاں، دماغی عارضے، نفسیاتی الجھنیں اور روحانی رکاوٹیں پیدا ہوگئیں کہ جن کا شافی علاج لمحہ موجود تک میڈیکل سائنس کے پاس بھی موجود نہیں۔ یہ سارا شاخسانہ زمین مٹی سے ناتہ توڑنے کا ہے۔ مٹی کے قریب رہنا، محسوس کرنا ۔۔۔۔۔ اس پر چلنا پھرنا، دیکھنا، سونگھنا۔۔۔۔ اس پر ٹہلنا، لیٹنا، سونا، اس کی کاشت، نہلائی، گوڈائی، سینچائی وغیرہ بذات خود ہزار بیماریوں کا علاج ہیں۔
(محمد یحییٰ خان کے ناول ’’کاجل کوٹھا‘‘ سے اقتباس)

انسان کا جڑنا

Posted: Thu Dec 03, 2015 2:46 pm
by nizamuddin
مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔ اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑ ا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔
اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔
(’’زاویہ ۲‘‘ از اشفاق احمد سے اقتباس)

جھولی بھردے میرے مالک

Posted: Fri Dec 04, 2015 3:32 pm
by nizamuddin
یاخدا! تو جانتا ہے کہ میں تیری کائنات کا سب سے حقیر ذرہ ہوں، لیکن میری کم ظرفی کی داستانیں آسمان سے بھی بلند ہیں۔ میری حقیقت سے اور میرے دل میں چھپے ہر چور سے بس تو ہی واقف ہے۔ میرے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل سہی، تیری بے کراں رحمت سے کم ہے۔ سو، میری منافقت بھری توبہ و معافی کو یہ جانتےہوئے بھی قبول فرما کہ توبہ کرتے وقت بھی میرے دل کا چور مجھے تیری نافرمانی پر مستقل اکساتا رہتا ہے۔ پھر بھی تجھے تیرے پیارے صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ، میری لاج رکھنا۔ میرے عیبوں پر اور میری جہالت پر پردہ ڈالے رکھنا۔ میرے مولا! تیرا ہی آسرا ہے، تو ہی عیبوں کا پردہ دار ہے۔ میری جھولی میں سو چھید ہیں، پھر بھی یہ جھولی تیرے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ اسے بھردے میرے مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ہاشم ندیم کے ناول ’’عبداللہ‘‘ سے اقتباس)

حاصل اور لاحاصل

Posted: Fri Dec 04, 2015 3:33 pm
by nizamuddin
کیا وجود انسانی اتنا ارزاں ہے کہ اس کو یونہی ضائع ہونے دیا جائے ۔۔۔۔۔ جب انسان کا وجود تخلیق ہوتا ہے تو کن کن پردوں میں اور کہاں کہاں خدا اس کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ کہاں سے خوراک اور کہاں سے سانسیں اس کو بہم پہنچاتا ہے ۔۔۔۔۔ اور جب انسان باشعور ہوتا ہے تو خود ہی اپنے آپ کو مارنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ اس وقت خدا کیا کرے۔ وہ تو یہی سوچتا ہے کہ جب تم میرے پر انحصار کرتے تھے تو میں نے کس طرح تمہیں حفاظت سے رکھا۔ اب اپنی سوچوں اور خواہشات پر انحصار کرتے ہو تو کہاں بھٹکے چلے جاتے ہو ۔۔۔۔۔ تم کیا بن گئے ہو؟
میں تو صرف یہی کہوں گی ۔۔۔۔۔ کہیں نہ دیکھو۔۔۔۔۔ کسی کے بارے میں نہ سوچو۔۔۔۔۔۔ صرف اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ اگر نظر صحیح ہوگی اور زاویہ درست ہوگا تو اک جہاں نظر آئے گا، پوری طرح روشن، اس خاکی جہاں سے ماورا۔ ویسا ہی جیسی تمہاری سوچ ہوگی ۔۔۔۔۔ ایسا جیسا تم سمجھوگی، سب سے مختلف۔۔۔۔۔۔ پھر پرت پہ پرت کھلتا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ اسرار ظاہر ہوتے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ وجود ختم ہوجائے گا۔۔۔۔۔
ہر اک کی زندگی میں ایک بار دستک ضرور ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ کبھی یونہی چلتے چلتے ۔۔۔۔۔۔ کبھی ٹھوکر لگنے پر ۔۔۔۔۔ کبھی کوئی بازی ہار کر ۔۔۔۔۔ کبھی منہ کے بل گر کر اور کبھی سارا کچھ ہار کر ۔۔۔۔۔ صرف اس دستک کو سمجھنے کی بات ہے ۔۔۔۔۔ اس کے بعد ایسا سفر شروع ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ حاصل اور لاحاصل کے درمیان جنگ ختم ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔ بس اک چپ سی لگ جاتی ہے ۔۔۔۔۔ ایسی چپ جس میں نہ کوئی افسوس ہوتا ہے، نہ پچھتاوا، نہ دکھ، بس اک شانتی سی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اقرار سا ہوتا ہے اور سکون بھی۔
(قیصرہ حیات کے ناول ’’ذات کا سفر‘‘ سے اقتباس)

عمیرہ احمد کے ناول ’’آؤ پہلا قدم دھرتے ہیں‘‘ سے اقتباس

Posted: Thu Dec 10, 2015 1:24 pm
by nizamuddin
بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایسی آواز کی جس میں ہمدردی ہو، جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہر گھاؤ کو سی دے۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’آؤ پہلا قدم دھرتے ہیں‘‘ سے اقتباس)

خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف

Posted: Sat Dec 12, 2015 3:27 pm
by nizamuddin
خواتین و حضرات ! گاڑی کا وہ مکینک کام کرتے کرتے اٹھا، اس نے پنکچر چیک کرنے والے ٹب سے ہاتھ گیلے کئے اور ویسے ہی جاکر کھانا کھانا شروع کردیا۔
میں نے اس سے کہا کہ ’’اللہ کے بندے اس طرح گندے ہاتھوں سے کھانا کھاؤ گے تو بیمار پڑجاؤ گے۔ ہزاروں جراثیم تمہارے پیٹ میں چلے جائیں گے۔ کیا تم نے کبھی اس طرح کی باتیں ڈیٹول صابن کے اشتہار میں نہیں دیکھیں۔‘‘
تو اس نے جواب دیا کہ ’’صاحب جب ہم ہاتھوں پر پہلا کلمہ پڑھ کر پانی ڈالتے ہیں تو سارے جراثیم خود بخود مرجاتے ہیں اور جب بسم اللہ پڑھ کر روٹی کا لقمہ توڑتے ہیں تو جراثیموں کی جگہ ہمارے پیٹ میں برکت اور صحت داخل ہوجاتی ہے۔‘‘
مجھے اس مکینک کی بات نے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ تو اس کا توکل تھا جو اسے بیمار نہیں ہونے دیتا تھا۔ میں اس سے اب بھی ملتا ہوں۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مجھ سے زیادہ صحت مند ہے۔
(از اشفاق احمد ۔ زاویہ ۳ ’’ خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف‘‘ سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Mon Jul 25, 2016 4:03 pm
by وارث اقبال
نظام الدین صاحب
بہت عمدہ، بامقصد اور احسن کام سر انجام دے رہے ہیں. مالکِ برحق آپ کو حوصلوں اور ولولوں کو جلا بخشے.