جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز کا پہلا ناول
Posted: Sat Jan 10, 2015 10:47 pm
جنگل کا بادشاه ہوبو سیریز کا پہلا ناول
جنگل کا بادشاه
بچوں کےلیے۔۔۔۔۔تحریر ایم۔ایچ۔خان
پیش لفظ
پیش لفظ
ھمارے بچوں میں ٹارزن کی کہانیاں بے حد مقبول ھیں ٹارزن ایک انگریز مصنف کی تصنیف ہے جسے ہمارے یہاں کے مصنفین بڑھا چڑھا کر پیش کر رھے ھیں۔ بچوں کو یہ نہیں پتا ٹارزن آیا کدھر سے تھا میں نے ٹارزن کو مد نظر رکھ کر ایک نیا کردار ''ھوبو''تخلیق کیا ھے جو کہ ٹارزن کی خوبیاں لیے ھوئے ھے۔مجھے یقین ہے کہ یہ بچوں کے علاوه بڑوں کوبھی یقینن پسند آئے گا۔۔
ھوبو نام کے کسی کردار کی کی کوئی کہانی ابھی تک مارکیٹ میں نہیں ھے۔یہ بلکل ایک نیا کردار اس کردار کی تخلیق میں اپنے پیج سرفروش سے کرنا چاھتا ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کو ھوبو کی تخلیق پسند آئے تو اپنے قیمتی رائے سے ضرور نوازئے گا کہ ھوبو کی تخلیق آگے بڑھائی جائے یا نہیں۔۔۔۔ لیجئے اب اس نئے کردار کی پہلی قسط پڑھئے اور اپنی قیمتی رائے سے مطلع فرمایئے۔۔۔۔
ایم۔ایچ۔خان
افریقہ کے ان پھیلے ھوئےگھنے جنگلوں میں ھر طرف امن و امان تھا۔۔ سب جانور ھنسی خوشی اور مل جل کر ره رھے تھے۔۔۔۔
ھرچرند پرند درند ایک گھاٹ سے پانی پیا کرتا تھے۔۔۔۔ کسی جانور کو کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔۔۔
ہرن دن بھر بلاخوف و خطرادھر ادھر کلانچیں بھرتے رہتے۔ان کو اپنے شکاریوں کی طرف سے کوئی خطره نہیں تھا۔
ننھے ننھے گلہری درختوں سے اتر کر بھاگ دوڑ کرتے رہتے۔بندر درختوں کی شاخوں پر جھولتے ھوئے کبھی کسی درخت پر جاتے کبھی کسی پر۔۔۔۔۔۔
ان جنگلوں پر شیر کی بجائے اک انسان کی حکومت تھی۔۔۔۔۔
اس انسان کا نام ہوبو تھا جس کو سب جانوروں نے مل کر جنگل کا بادشاه بنایا تھا۔ہوبوکو بچن میں ایک بن مانسوں کے جوڑے نے پالا پوسا تھا۔ چونکہ بچہ انسانوں کا تھا اور بن مانس اور بندر دونوں انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اس لیے بندر کہتے یہ ہماری طرح کا بندر ھے اور بن مانس کہتےیہ ھمارا بچہ ہے کیونکہ ہم نے اسے پالا پوسا ھے۔۔۔۔
یوں بن مانسوں اوربندروں میں بحث چھڑ جاتی ایک دن ایک الو نے ان کی بحث سنی اور اس کا نام ہوبو یعنی ہوبہو)ہمشکل( تجویز کر دیا اس طرح بندروں اور بن مانسوں کی یہ بحث ختم ہوئی اور سب الو کے تجویز کرده اس نام ہوبو سے متفق ہو گے۔
ہوبوجب تین ماه کا بچھ تھا تو اپنے ماں باپ کےساتھ اپنی ماں کی گود میں سمندری سفر پر نکلا تھا ۔اس وقت کسے پتہ تھا کہ اس شیرخوار بچے کے ماں باپ سمندر کی بے رحم لہروں کا شکار ھو جائیں گے اور یہ بچہ جنگلوں کا بادشاه بن جائے گا۔۔۔۔۔۔
جس بحری جہاز میں یہ ھوبو اپنے ماں باپ کے ساتھ سفر کر رھا وه افریقہ کے جنگلوں سے بہت دور سمندر میں ایک خطرناک طوفان کے کا شکار ھو گیاتھا۔ جہاز کے کپتان نے جہاز کو طوفان سے نکالنے کےلیے جہاز کا رخ جنگلوں کی طرف کے کنارے کی طرف موڑ دیا تھا مگرسمندرمیں آنے والا طوفان کوئی معمولی طوفان نہیں ہوتا اور یہ طوفان بھی کوئی معمولی نہیں تھا جہاز بری طرح ڈول رھا تھا۔۔۔
لوگوں کے چہرے خوف سے سیاه پڑ چکے تھے یہ خوف موت کا خوف تھا۔۔۔ سمندر کی بچھری ہوئی لہروں میں ڈوب مرنے کا خوف۔۔۔۔۔ جہاز جنگل کےکنارے کی طرف جانے بجائے پہاڑوں کی طر مڑ گیا اور پہاڑیوں سے ٹکرا گیا۔۔۔۔
سمندری طوفان کی بچھری ہوئی لہریں جہاز کو اٹھا اٹھا کر پٹخ رھی تھیں۔۔۔۔ ہرطرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی جہاز کا ایک حصہ بری طرح تباه ہو گیأ تھا جس کی وجہ سے جہاز میں پانی بھرتا جا رھا تھا ہر طرف گہری تاریکی تھی ایسے میں طوفان کی آوازیں دلوں کو دھلا دیتی لوگوں کے کلیجے منہ کو آ رھے تهے۔۔۔۔۔ ھرکوئی چیخے جا رھا تھا مگر طوفان کی موجوں کو کسی کی چیخوں پر رحم نہیں آ رھا تھا
ادھرہوبو کی ماں کو یقین ہو گیأ تھا کہ وه لوگ اب سمندری طوفان سے نہیں بچ سکیں گے اس لیے اس نے اپنے لخت جگر کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈالا اور خدا سے دعا کی
"اے میرے مالک میں نے اپنا بیٹا تیرے حوالے کیا۔۔۔۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی ماں نے حضرت موسی کو صندوق میں ڈال کر تیرے حوالے کیا تھا اور تو نے اس کی حفاظت کی تھی اے میرے مالک میں اپنا بیٹا بھی تیرے حوالے کر رھی ھوں تو میرے بچے کی بھی اسی طرح حفاظت کرنا۔۔۔۔۔ جس طرح تو نے موسی علیہ السلام کی حفاظت کی تھی"
یہ کہہ کر اس نے صندوق سمندر کے حوالے کر دیا سمندر کی بچھری ہوئی لہریں صندوق کو پٹخ پٹخ کر کہیں دور لے گیئں اور کچھ ہی لمحوں بعد جہازمیں پانی بھرنے کی وجہ سے جہاز اپنے مسافروں سمیت سمندر کی تہوں میں غرق ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سورج طلوع ہوا اور طوفان کا نام نشان تک نہ تھا طوفان اپنی ساری خوفناکی اپنے ساتھ لے گیا تھا اب سمندر کی موجوں میں سکون تھا۔۔۔۔۔ جیسے وه جہاز کے ہزاروں مسافروں کی قربانی لے کر خاموش ہو گیئں ھوں۔۔۔۔۔۔
صندوق سار ی رات سمندر کی بے رحم لہروں میں اچھلتا ہوا سمندر کے کنارے سے جا لگا تھا۔۔۔۔ سمندر کی لہروں نے صندوق کی اپنے ریتلے کنارے پر پٹخ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ صندوق کے رخنوں سے ہوا کا گذر آسانی ہو جاتا تھا اور ہوبو کو سانس لینے کےلیے ہوا ملتی رھتی تھی۔۔ ھوبو بھوک سے بلک رھا تھا اور اپنی ماں سے دودھ لینے کےلیے رو رھا تھا۔۔۔۔ مگر اس کی ماں تو یہاں سے دور سمندر کی لہروں کا شکار ہو کر ہمیشہ کےلیے سمندر کی تہہ میں اتر چکی تھی یہاں ھوبو کی پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔۔۔۔۔۔ دن آہستہ آہستہ نکلتا جا رھا تھا اور ھوبو بھی شاید تھک ھار کر خاموش ھو گیا یا پھر سو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جس جگہ ھوبو کا صندوق پڑا ھوا تھا اس طرف ایک بن مانسوں کے جوڑے کا گذر ھوا۔۔۔۔۔ بن مانس سمندر کے کنارےریت پڑے ھوئے صندوق کی طرف متوجہ ہو ئے اورآگے بڑھ کر صندوق اٹھا کرحیرت سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ان کےلیے یہ ایک نئی چیز نر بن مانس نے نے کسی طرح صندوق کا ڈھکن کھول دیا اور صندوق میں لیٹے ھوئے ھوبو کو حیرت سے دیکھنے لگا ماده بن مانس بھی چونک کرھوبو کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ نربن مانس نے ھوبو کی ٹانگ پکڑ کر اسے صندوق سے باہر نکالا اور صندوق پرے پھینک کر ھوبو کو سونگنے لگا۔ دوسرے ھی لمحہ اس کے چہرے پر غصہ کے آثار نمودار ھوئےاور اس نے ھوبو کو مروڑ دینا چاھا۔۔۔ مگر خدا کی قدرت دیکھئے جسے الله رکھے اسے کو؎ چکھے الله نے ماده بن مانس کے دل میں مامتا کا جذبہ ڈال دیا ۔ماده بن مانس جو ھوبو کو حیرت سے دیکھ رھی تھی اس نے نر بن مانس کا اراده بھانپ لیا اور جھٹ سے ھوبو کو نربن مانس سے چھین کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔نر بن مانس نے غصیلی نظروں سے ماده بن مانس کی طرف دیکھا مگرماده بن مانس ہوبوکو لے کر دوسری طرف چل دی۔ نر بن مانس نے آگے بڑھ کر ھوبو کو ماده سے چھین کر مارنا چاھا مگر ماده بن مانس نے اسکو اس کےارادے سے باز رکھا اور اس کو دیکھ کرغرانے لگی جیسے کہہ رھی ھو آگے بڑھے تو چیر دوں گی یہ بچہ میرا ھے۔یہ میں کسی کو نہیں دوں گی۔۔۔ ماده بن مانس کی غراہٹ سن کراور ماده کی تیور دیکھ کر نر بن مانس کچھ ٹھنڈا پڑا اور پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔۔۔ ماده بن مانس ہوبو کو اپنی چھاتی سے چمٹائے جنگل کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔ ہوبو بن مانسوں کے اٹھانے کی وجہ سے اٹھ گیا تھا اور وه ماده بن مانس کی چھاتی سے چمٹا اس کو اپنی ماں سمجھ کراس کا دودھ پی رھا تھا ہوبو کو اپنا دودھ پیتے دیکھ ماده بن مانس پیار سے ھوبو کے سر پرہاتھ پھیرنے لگی شاید ماده بن مانس نے بھی ہوبو کو اپنا بچہ تسلیم کر لیا تھا۔کیونکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ دن پہلے اسی ماده بن مانس کا بچہ تیندوں کا شکار ہو گیا تھا یہ ماده مامتا کی ماری ہوئی تھی اس لیے اس نے ہوبو کو اپنا بچہ سمجھا ورنہ بن مانس اپنی نسل کے علاوه کسی جانور کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے یہ جسامت کے لحاظ سے انسانوں جیسے ہوتے ہیں مگریہ بے حد طاقتور اور خطرناک جانور ھے۔۔۔۔
جب بن مانس بہت زیاده غصہ میں ہوتا ہے تو سینہ کوبی کرنے لگ جاتا ہے انسانوں کو تو یہ اپنے ہاتھوں کے پنجوں سے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔
نر بن بانس ہوبو کو اپنے پنجوں سے ادھیڑنا چاہتا تھا مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
ماده بن مانس ہوبو کو لے کر اپنے جھنڈ میں داخل ہوئی تو سب بن مانس حیرت سے ماده کے سینے پر چمٹے ہوئے ھوبو کو دیکھنے لگے۔۔۔ کچھ بن مانسوں نے پاس آ کر ماده بن مانس سے ہوبو کو جھپٹنا چاہا مگر ماده بن مانس نے ہوبو کو تیزی سے پیچھے کر لیا اور اپنی کوه میں چلی گئی۔۔۔۔ وه ہوبوکو دوسرے بن مانسوں سے بچانا چاھتی۔۔ کیونکہ وه ھوبو کو اپنے ہاتھ لگتے ہی چیر پھاڑ دیتے اس لیے وه ہوبو کو لے کر اپنی کوه میں چلی گئی اور اسے اپنا دوده پلانے لگی۔۔۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
اس طرح ہوبو ماده بن مانس کے زیر سایہ پروان چڑھنے لگا ماده بن مانس ہوبو کو ایک لمحہ کےلیے بھی خود سے دور نہ کرتی پہلے پہل تو جھنڈ کے دوسرے بن مانسوں نے ماده بن سے ہوبو کو چیھننے کی بہت کوشش کی مگر پھر وه بھی ہوبو سے مانوس ہوتے گے اور ہوبو کا خیال رکھنے لگے وه ہوبو کےلیے کیلے توڑ لاتے اور لا کر ہوبو کو دیتے۔۔۔۔۔۔ماده بن مانس ہوبو کو اپنے ساتھ ندی پر لے جاتی اور اسے نہلایا کرتی۔۔۔۔۔۔ ہوبو اب پانچ سال کا ہو چکا تھا مگر ماده بن مانس اب بھی ہوبو کو خود سے الگ نہ کرتی تھی ہوبو پر کئی بار تیندوں لگڑ بھگوں اور بھیڑیوں نے بھی حملے کئے تھے مگر ہر بار ماده بن مانس ھوبو کو بچا لیتی ہوبو کو بچاتے بچاتے کئ بار وه خود بھی زخمی ہوئی تھی۔۔۔۔ ہوبونے چونکہ بن مانسوں میں پرورش پائی تھی اور ایک ماده بن مانس کا دودھ پیا تھا۔۔۔ اس لیے وه انسانوں کی زبان سے نابلد تھا وه صرف جانوروں کی زبان سمجھ اور بول سکتا تھا وه بن مانسوں کی طرح بولا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ہوبو کے بچن کے دوست پرندے ہوا کرتے تھے۔۔۔
جو ہوبو کے پاس بچپن سے آنے لگے تھے جو ہوبو کے اردگرد اکٹھا ہو کر چہچہایا کرتے ہوبو پرندوں سے مانوس ہونے لگا اور آہستہ آہستہ ان کی زبان بھی سیکھنے لگا تھا۔۔۔۔
ایک چھوٹے سے بچے کے پاس جو زبان بولی جائے وه وہی سیکھتا ھے۔۔
ہوبو اگر اپنے ماں باپ کے پاس رہتا تو انسانوں کی زبان سیکھ جاتا مگر وه جانوروں اور پرندوں میں رھا تھا اس لیے وه جانور اور پرندوں کی زبان سیکھ گیا۔
جب وه پانچ سال کا ہوا تو اس کی دوستی بندروں کے ساتھ ہو گی جو بہت شرارتی تھے۔۔
ہوبو کا سارا دن بندروں کے ساتھ مل کر شرارتیں کرتے اور درختوں پر اچھل کود کرتے گذر جاتا بندروں سے وه درختوں کی شاخوں پر جھولنا اور ایک درخت سے دوسرے درخت پراچھل کود کرنا سیکھ گیا تھا۔۔۔۔۔
بندر اس کا بہت خیال رکھا کرتے کیونکہ وه جسامت کے لحاظ سے انہی جیسا تھا وه اسے اپنا بھائی خیال کرتے۔۔۔۔
بندر ھوبوکو اپنی نسل کا کہتے کرتے اور بن مانس کہتے اس کو ہم نے پالا پوسا ہے اور اس نے ایک ماده بن مانس کی دودھ پیا ہے اس لیے یہ ہم میں سے ہے۔۔۔۔۔۔
جنگل کا بادشاه
بچوں کےلیے۔۔۔۔۔تحریر ایم۔ایچ۔خان
پیش لفظ
پیش لفظ
ھمارے بچوں میں ٹارزن کی کہانیاں بے حد مقبول ھیں ٹارزن ایک انگریز مصنف کی تصنیف ہے جسے ہمارے یہاں کے مصنفین بڑھا چڑھا کر پیش کر رھے ھیں۔ بچوں کو یہ نہیں پتا ٹارزن آیا کدھر سے تھا میں نے ٹارزن کو مد نظر رکھ کر ایک نیا کردار ''ھوبو''تخلیق کیا ھے جو کہ ٹارزن کی خوبیاں لیے ھوئے ھے۔مجھے یقین ہے کہ یہ بچوں کے علاوه بڑوں کوبھی یقینن پسند آئے گا۔۔
ھوبو نام کے کسی کردار کی کی کوئی کہانی ابھی تک مارکیٹ میں نہیں ھے۔یہ بلکل ایک نیا کردار اس کردار کی تخلیق میں اپنے پیج سرفروش سے کرنا چاھتا ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کو ھوبو کی تخلیق پسند آئے تو اپنے قیمتی رائے سے ضرور نوازئے گا کہ ھوبو کی تخلیق آگے بڑھائی جائے یا نہیں۔۔۔۔ لیجئے اب اس نئے کردار کی پہلی قسط پڑھئے اور اپنی قیمتی رائے سے مطلع فرمایئے۔۔۔۔
ایم۔ایچ۔خان
افریقہ کے ان پھیلے ھوئےگھنے جنگلوں میں ھر طرف امن و امان تھا۔۔ سب جانور ھنسی خوشی اور مل جل کر ره رھے تھے۔۔۔۔
ھرچرند پرند درند ایک گھاٹ سے پانی پیا کرتا تھے۔۔۔۔ کسی جانور کو کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔۔۔
ہرن دن بھر بلاخوف و خطرادھر ادھر کلانچیں بھرتے رہتے۔ان کو اپنے شکاریوں کی طرف سے کوئی خطره نہیں تھا۔
ننھے ننھے گلہری درختوں سے اتر کر بھاگ دوڑ کرتے رہتے۔بندر درختوں کی شاخوں پر جھولتے ھوئے کبھی کسی درخت پر جاتے کبھی کسی پر۔۔۔۔۔۔
ان جنگلوں پر شیر کی بجائے اک انسان کی حکومت تھی۔۔۔۔۔
اس انسان کا نام ہوبو تھا جس کو سب جانوروں نے مل کر جنگل کا بادشاه بنایا تھا۔ہوبوکو بچن میں ایک بن مانسوں کے جوڑے نے پالا پوسا تھا۔ چونکہ بچہ انسانوں کا تھا اور بن مانس اور بندر دونوں انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اس لیے بندر کہتے یہ ہماری طرح کا بندر ھے اور بن مانس کہتےیہ ھمارا بچہ ہے کیونکہ ہم نے اسے پالا پوسا ھے۔۔۔۔
یوں بن مانسوں اوربندروں میں بحث چھڑ جاتی ایک دن ایک الو نے ان کی بحث سنی اور اس کا نام ہوبو یعنی ہوبہو)ہمشکل( تجویز کر دیا اس طرح بندروں اور بن مانسوں کی یہ بحث ختم ہوئی اور سب الو کے تجویز کرده اس نام ہوبو سے متفق ہو گے۔
ہوبوجب تین ماه کا بچھ تھا تو اپنے ماں باپ کےساتھ اپنی ماں کی گود میں سمندری سفر پر نکلا تھا ۔اس وقت کسے پتہ تھا کہ اس شیرخوار بچے کے ماں باپ سمندر کی بے رحم لہروں کا شکار ھو جائیں گے اور یہ بچہ جنگلوں کا بادشاه بن جائے گا۔۔۔۔۔۔
جس بحری جہاز میں یہ ھوبو اپنے ماں باپ کے ساتھ سفر کر رھا وه افریقہ کے جنگلوں سے بہت دور سمندر میں ایک خطرناک طوفان کے کا شکار ھو گیاتھا۔ جہاز کے کپتان نے جہاز کو طوفان سے نکالنے کےلیے جہاز کا رخ جنگلوں کی طرف کے کنارے کی طرف موڑ دیا تھا مگرسمندرمیں آنے والا طوفان کوئی معمولی طوفان نہیں ہوتا اور یہ طوفان بھی کوئی معمولی نہیں تھا جہاز بری طرح ڈول رھا تھا۔۔۔
لوگوں کے چہرے خوف سے سیاه پڑ چکے تھے یہ خوف موت کا خوف تھا۔۔۔ سمندر کی بچھری ہوئی لہروں میں ڈوب مرنے کا خوف۔۔۔۔۔ جہاز جنگل کےکنارے کی طرف جانے بجائے پہاڑوں کی طر مڑ گیا اور پہاڑیوں سے ٹکرا گیا۔۔۔۔
سمندری طوفان کی بچھری ہوئی لہریں جہاز کو اٹھا اٹھا کر پٹخ رھی تھیں۔۔۔۔ ہرطرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی جہاز کا ایک حصہ بری طرح تباه ہو گیأ تھا جس کی وجہ سے جہاز میں پانی بھرتا جا رھا تھا ہر طرف گہری تاریکی تھی ایسے میں طوفان کی آوازیں دلوں کو دھلا دیتی لوگوں کے کلیجے منہ کو آ رھے تهے۔۔۔۔۔ ھرکوئی چیخے جا رھا تھا مگر طوفان کی موجوں کو کسی کی چیخوں پر رحم نہیں آ رھا تھا
ادھرہوبو کی ماں کو یقین ہو گیأ تھا کہ وه لوگ اب سمندری طوفان سے نہیں بچ سکیں گے اس لیے اس نے اپنے لخت جگر کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈالا اور خدا سے دعا کی
"اے میرے مالک میں نے اپنا بیٹا تیرے حوالے کیا۔۔۔۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی ماں نے حضرت موسی کو صندوق میں ڈال کر تیرے حوالے کیا تھا اور تو نے اس کی حفاظت کی تھی اے میرے مالک میں اپنا بیٹا بھی تیرے حوالے کر رھی ھوں تو میرے بچے کی بھی اسی طرح حفاظت کرنا۔۔۔۔۔ جس طرح تو نے موسی علیہ السلام کی حفاظت کی تھی"
یہ کہہ کر اس نے صندوق سمندر کے حوالے کر دیا سمندر کی بچھری ہوئی لہریں صندوق کو پٹخ پٹخ کر کہیں دور لے گیئں اور کچھ ہی لمحوں بعد جہازمیں پانی بھرنے کی وجہ سے جہاز اپنے مسافروں سمیت سمندر کی تہوں میں غرق ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سورج طلوع ہوا اور طوفان کا نام نشان تک نہ تھا طوفان اپنی ساری خوفناکی اپنے ساتھ لے گیا تھا اب سمندر کی موجوں میں سکون تھا۔۔۔۔۔ جیسے وه جہاز کے ہزاروں مسافروں کی قربانی لے کر خاموش ہو گیئں ھوں۔۔۔۔۔۔
صندوق سار ی رات سمندر کی بے رحم لہروں میں اچھلتا ہوا سمندر کے کنارے سے جا لگا تھا۔۔۔۔ سمندر کی لہروں نے صندوق کی اپنے ریتلے کنارے پر پٹخ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ صندوق کے رخنوں سے ہوا کا گذر آسانی ہو جاتا تھا اور ہوبو کو سانس لینے کےلیے ہوا ملتی رھتی تھی۔۔ ھوبو بھوک سے بلک رھا تھا اور اپنی ماں سے دودھ لینے کےلیے رو رھا تھا۔۔۔۔ مگر اس کی ماں تو یہاں سے دور سمندر کی لہروں کا شکار ہو کر ہمیشہ کےلیے سمندر کی تہہ میں اتر چکی تھی یہاں ھوبو کی پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔۔۔۔۔۔ دن آہستہ آہستہ نکلتا جا رھا تھا اور ھوبو بھی شاید تھک ھار کر خاموش ھو گیا یا پھر سو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جس جگہ ھوبو کا صندوق پڑا ھوا تھا اس طرف ایک بن مانسوں کے جوڑے کا گذر ھوا۔۔۔۔۔ بن مانس سمندر کے کنارےریت پڑے ھوئے صندوق کی طرف متوجہ ہو ئے اورآگے بڑھ کر صندوق اٹھا کرحیرت سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ان کےلیے یہ ایک نئی چیز نر بن مانس نے نے کسی طرح صندوق کا ڈھکن کھول دیا اور صندوق میں لیٹے ھوئے ھوبو کو حیرت سے دیکھنے لگا ماده بن مانس بھی چونک کرھوبو کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ نربن مانس نے ھوبو کی ٹانگ پکڑ کر اسے صندوق سے باہر نکالا اور صندوق پرے پھینک کر ھوبو کو سونگنے لگا۔ دوسرے ھی لمحہ اس کے چہرے پر غصہ کے آثار نمودار ھوئےاور اس نے ھوبو کو مروڑ دینا چاھا۔۔۔ مگر خدا کی قدرت دیکھئے جسے الله رکھے اسے کو؎ چکھے الله نے ماده بن مانس کے دل میں مامتا کا جذبہ ڈال دیا ۔ماده بن مانس جو ھوبو کو حیرت سے دیکھ رھی تھی اس نے نر بن مانس کا اراده بھانپ لیا اور جھٹ سے ھوبو کو نربن مانس سے چھین کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔نر بن مانس نے غصیلی نظروں سے ماده بن مانس کی طرف دیکھا مگرماده بن مانس ہوبوکو لے کر دوسری طرف چل دی۔ نر بن مانس نے آگے بڑھ کر ھوبو کو ماده سے چھین کر مارنا چاھا مگر ماده بن مانس نے اسکو اس کےارادے سے باز رکھا اور اس کو دیکھ کرغرانے لگی جیسے کہہ رھی ھو آگے بڑھے تو چیر دوں گی یہ بچہ میرا ھے۔یہ میں کسی کو نہیں دوں گی۔۔۔ ماده بن مانس کی غراہٹ سن کراور ماده کی تیور دیکھ کر نر بن مانس کچھ ٹھنڈا پڑا اور پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔۔۔ ماده بن مانس ہوبو کو اپنی چھاتی سے چمٹائے جنگل کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔ ہوبو بن مانسوں کے اٹھانے کی وجہ سے اٹھ گیا تھا اور وه ماده بن مانس کی چھاتی سے چمٹا اس کو اپنی ماں سمجھ کراس کا دودھ پی رھا تھا ہوبو کو اپنا دودھ پیتے دیکھ ماده بن مانس پیار سے ھوبو کے سر پرہاتھ پھیرنے لگی شاید ماده بن مانس نے بھی ہوبو کو اپنا بچہ تسلیم کر لیا تھا۔کیونکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ دن پہلے اسی ماده بن مانس کا بچہ تیندوں کا شکار ہو گیا تھا یہ ماده مامتا کی ماری ہوئی تھی اس لیے اس نے ہوبو کو اپنا بچہ سمجھا ورنہ بن مانس اپنی نسل کے علاوه کسی جانور کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے یہ جسامت کے لحاظ سے انسانوں جیسے ہوتے ہیں مگریہ بے حد طاقتور اور خطرناک جانور ھے۔۔۔۔
جب بن مانس بہت زیاده غصہ میں ہوتا ہے تو سینہ کوبی کرنے لگ جاتا ہے انسانوں کو تو یہ اپنے ہاتھوں کے پنجوں سے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔
نر بن بانس ہوبو کو اپنے پنجوں سے ادھیڑنا چاہتا تھا مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
ماده بن مانس ہوبو کو لے کر اپنے جھنڈ میں داخل ہوئی تو سب بن مانس حیرت سے ماده کے سینے پر چمٹے ہوئے ھوبو کو دیکھنے لگے۔۔۔ کچھ بن مانسوں نے پاس آ کر ماده بن مانس سے ہوبو کو جھپٹنا چاہا مگر ماده بن مانس نے ہوبو کو تیزی سے پیچھے کر لیا اور اپنی کوه میں چلی گئی۔۔۔۔ وه ہوبوکو دوسرے بن مانسوں سے بچانا چاھتی۔۔ کیونکہ وه ھوبو کو اپنے ہاتھ لگتے ہی چیر پھاڑ دیتے اس لیے وه ہوبو کو لے کر اپنی کوه میں چلی گئی اور اسے اپنا دوده پلانے لگی۔۔۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
اس طرح ہوبو ماده بن مانس کے زیر سایہ پروان چڑھنے لگا ماده بن مانس ہوبو کو ایک لمحہ کےلیے بھی خود سے دور نہ کرتی پہلے پہل تو جھنڈ کے دوسرے بن مانسوں نے ماده بن سے ہوبو کو چیھننے کی بہت کوشش کی مگر پھر وه بھی ہوبو سے مانوس ہوتے گے اور ہوبو کا خیال رکھنے لگے وه ہوبو کےلیے کیلے توڑ لاتے اور لا کر ہوبو کو دیتے۔۔۔۔۔۔ماده بن مانس ہوبو کو اپنے ساتھ ندی پر لے جاتی اور اسے نہلایا کرتی۔۔۔۔۔۔ ہوبو اب پانچ سال کا ہو چکا تھا مگر ماده بن مانس اب بھی ہوبو کو خود سے الگ نہ کرتی تھی ہوبو پر کئی بار تیندوں لگڑ بھگوں اور بھیڑیوں نے بھی حملے کئے تھے مگر ہر بار ماده بن مانس ھوبو کو بچا لیتی ہوبو کو بچاتے بچاتے کئ بار وه خود بھی زخمی ہوئی تھی۔۔۔۔ ہوبونے چونکہ بن مانسوں میں پرورش پائی تھی اور ایک ماده بن مانس کا دودھ پیا تھا۔۔۔ اس لیے وه انسانوں کی زبان سے نابلد تھا وه صرف جانوروں کی زبان سمجھ اور بول سکتا تھا وه بن مانسوں کی طرح بولا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ہوبو کے بچن کے دوست پرندے ہوا کرتے تھے۔۔۔
جو ہوبو کے پاس بچپن سے آنے لگے تھے جو ہوبو کے اردگرد اکٹھا ہو کر چہچہایا کرتے ہوبو پرندوں سے مانوس ہونے لگا اور آہستہ آہستہ ان کی زبان بھی سیکھنے لگا تھا۔۔۔۔
ایک چھوٹے سے بچے کے پاس جو زبان بولی جائے وه وہی سیکھتا ھے۔۔
ہوبو اگر اپنے ماں باپ کے پاس رہتا تو انسانوں کی زبان سیکھ جاتا مگر وه جانوروں اور پرندوں میں رھا تھا اس لیے وه جانور اور پرندوں کی زبان سیکھ گیا۔
جب وه پانچ سال کا ہوا تو اس کی دوستی بندروں کے ساتھ ہو گی جو بہت شرارتی تھے۔۔
ہوبو کا سارا دن بندروں کے ساتھ مل کر شرارتیں کرتے اور درختوں پر اچھل کود کرتے گذر جاتا بندروں سے وه درختوں کی شاخوں پر جھولنا اور ایک درخت سے دوسرے درخت پراچھل کود کرنا سیکھ گیا تھا۔۔۔۔۔
بندر اس کا بہت خیال رکھا کرتے کیونکہ وه جسامت کے لحاظ سے انہی جیسا تھا وه اسے اپنا بھائی خیال کرتے۔۔۔۔
بندر ھوبوکو اپنی نسل کا کہتے کرتے اور بن مانس کہتے اس کو ہم نے پالا پوسا ہے اور اس نے ایک ماده بن مانس کی دودھ پیا ہے اس لیے یہ ہم میں سے ہے۔۔۔۔۔۔