Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
امريکی حکومت کی جانب سے سفارت کار کی رہائ کے لیے بار بار اصرار اور مسلسل درخواست پاکستان کے رائج عدالتی نظام پر امريکی حکومت کے اعتماد کا آئينہ دار نہيں ہے۔ حقيقت يہی ہے کہ امريکہ سفارت کار کو سفارتی استثنی حاصل ہے جو کہ ايک باہمی طور پر منظور شدہ عالمی قانون اور دونوں ممالک کے مابين طے شدہ پاليسی کے عين مطابق ہےجس کے تحت يہ يقينی بنايا جاتا ہے کہ سفارت کاروں کو محفوظ راستہ ديا جاۓ اور ميزبان ملک کے قوانين کے تحت ان کے خلاف قانونی کاروائ ممکن نہيں رہ جاتی۔ جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ سال 1961 ميں سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا ميں ہونے والے کنونشن ميں اسے ايک عالمی قانون کی حيثيت سے تسليم کيا گيا تھا جسے امريکہ اور پاکستان نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا ہے بلکہ اس پر دستخط بھی کيے ہيں۔
جو تجزيہ نگار اس معاملے پر امريکہ کے موقف کو دباؤ اور بليک ميلينگ قرار دے رہے ہيں وہ اس ضمن میں پاکستان کی بين الاقوامی ذمہ داری اور ضمانت کو نظرانداز کر رہے ہيں۔
امريکہ سميت دنيا بھر ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب سفارت کاروں نے اپنے سفارتی عہدے کی بنياد پر کاميابی سے سفارتی استثنی جاصل کی ہے۔ اگر سفارتی استثنی قانونی طريقے سے حاصل کی جاۓ تو اس صورت ميں پوليس واقعے کی نوعيت سے قطعی نظر کاروائ نہيں کر سکتی۔
امريکی حکومت پاکستان کے عدالتی نظام اور رائج قوانين کا احترام کرتی ہے۔ ليکن ہم پورے يقين کے ساتھ يہ سمجھتے ہيں کہ يہ معاملہ پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ کار ميں نہيں آتا۔ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی اور جاری اسٹريجک تعلقات کو بہت اہميت ديتے ہيں۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ اس معاملے کو جلد ازجلد سفارتی سطح پر ڈائيلاگ اور دونوں حکومتوں کے مابين مختلف سطح پر ہونے والے روابط کے ذريعے حل کر ليا جاۓ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall