جہالت اور ڈھٹائی...سحر ہونے تک

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

جہالت اور ڈھٹائی...سحر ہونے تک

Post by علی عامر »

کل ٹی وی پر پروگرام دیکھ رہا تھا ان پروگراموں میں اکثر دلچسپ و عجوبہ واقعات بھی دکھائے جاتے ہیں جو قابل دید ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ کل دیکھا کہ ایک خوبصورت گولڈن رنگ کی بلی ایک باغیچہ میں گھوم رہی تھی اور جھاڑیوں کے پاس سے گزرنے لگی تو ایک پرند ے نے جو مینا کے برابر تھا مگر دم ذرا لمبی تھی اس نے پیچھے سے آ کر بلی کی دم پر چونگ ماردی، جب بلی پلٹی تو اُڑ کر دور چلا گیا مگر جونہی بلی نے منھ پھیرا تو اس نے پھر پھرتی سے اُڑ کر بلی کی پچھلی ٹانگ میں چونچ ماری ، یہ سلسلہ تھوڑی دیر جاری رہا اور پھر وہی ہو ا جو ایسی حرکتوں کا ہوتا ہے یعنی جب ایک مرتبہ پھر پرندے نے بلی کے پچھلے بدن پر چونچ ماری تو بلی تیار تھی اس نے نہایت پھرتی سے واپس اُڑتے ہوئے پرندے پر جست لگائی اور اسے ہوا میں ہی پکڑ لیا۔ زمین پر گرا کر اس کا سر چبا دیا اور خاموشی سے واپس چہل قدمی میں لگ گئی۔ مجھے اس واقعہ سے برسوں پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا جو میرے اپنے باغ میں پیش آیا تھا۔ ہماری بلی باہر لان پر پڑ ا خشک کھانا کھا رہی تھی اور ایک کواّ بار بار اسکی دم پر چونچ مار رہا تھا اور وہ نظر انداز کر رہی تھی مگر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے نہایت پھرتی سے مڑ کر اُڑتے ہوئے کوّے کو ہوا میں دبوچ لیا اور اس کی گردن توڑ دی ۔ ان واقعات نے مجھے حکومت (یعنی زرداری ، گیلانی اور بابر اعوان) اور سپریم کورٹ کے تنازعات کی جانب توجہ مبذول کرا دی ہے۔ حکمران کوّے اور میگپائی(یعنی یورپی کوّا جو سیا ہ سفید اور سفید بھورا ہوتا ہے) بنے ہوئے ہیں اور پُر امن ، پُر وقار بلی یعنی عدلیہ پر مسلسل وار کر رہے ہیں اور چرکے لگا رہے ہیں۔ عدلیہ کے صبر کی ایک حد ہے جب یہ پوری ہو جائے گی تو کوّوں کے جیسا حشر ہو گا۔ پرانی کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی جانب بھاگتا ہے اور یہ بھی کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آنا ہی پڑے گا۔
دیکھئے یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ وہ پارٹی جو الیکشن میں کھلی دھاندلی اور مصدقہ رشوت ستانی میں ملوث رہی ہے۔ وہ اب پھر اپنی جاہلانہ او رمکارانہ حرکات سے ’شہید ‘ بننے کی کوشش میں ہے ۔ پچھلے تین سال میں پہلے تمام اتحادی پارٹیوں کو بیوقوف بنایا، وعدے توڑے اور جب مناسب سمجھا تو پہلے ایک قدم پیچھے اٹھایا مگر جونہی موقع ملا دو قدم آگے بڑھا لئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے پاکستان کی تاریخ میں اتنے نااہل اور دروغ گو حکمران نہیں دیکھے۔ ان کو اپنے اعمال پر قطعی شرمندگی نہیں ہے۔ عوام کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور قتل و غارت گری نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ روز نت نئے شو شے چھوڑکر عوام کی مشکلات و تکالیف کو کھٹائی میں ڈالا جا رہا ہے۔ بینظیر اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا معمہ حل ہوا نہیں کہ 32سالہ پرانا بھٹو صاحب کا معاملہ سپریم کورٹ میں اُٹھا لیا ہے اورعدلیہ کے تمام اہم فیصلوں کو ردّی کی ٹوکری میں ڈالدیا ہے۔ ان کے تقدس کو پامال کیا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا ہے۔ راشیوں اور مجرموں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھا یا ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ”عقلمند“ کوّوں کا حشر بھی ٹی وی پر دکھائی فلم کا سا نہ ہو۔
خدا جانے یہ ان کی خوش قسمتی ہے یا ہماری بد قسمتی کہ ان کا سابقہ جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس شبیر جیسے سخت اور بدمعاشی و عیاری کو نا قبول کرنے والے جج صاحبان سے نہیں پڑ ا ۔ ورنہ ایک جھٹکے میں ان کی طبیعت ٹھیک ہو جاتی اور زندگی بھر کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نا اہل قر ار دیدئے جاتے۔
آپ نے اپنے اخبارات خصوصاً” جنگ “اور ”نیوز“میں ان تمام فیصلوں کی تفصیل پڑھی ہو گی جو سپریم کورٹ نے دیے اور جن کو گیلانی نے ردّی کی ٹوکری میں ڈالدیا اور اس پر یہ گندہ مذاق عدلیہ اور عوام کے ساتھ کہ قومی اسمبلی میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر ”ہم عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، ان پر عمل کریں گے“ کے جھوٹے نعرے لگا تے ہیں۔ خدا جانے یہ کیسے سید زادے ،خود کا نسب شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملانے والے لوگ ہیں جو منافقت سے نہیں جھجکتے اور بار بار پوری قوم سے منافقت (یعنی قول او ر عمل میں مکمل تضاد ) کرتے ہیں حالانکہ کلام مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار انتباہ کیا ہے کہ منافقوں کی جگہ بلا شبہ جہنم ہے اور وہ بہت تکلیف دینے والی بری جگہ ہے۔ اہل اقتدار کے کردار و اطوار کو دیکھ کر مجھے تو اب یہ شک ہونے لگا ہے کہ یہ شاید ہی کبھی کلام مجید پڑھتے ہوں (اور شاید پڑھ بھی نہ سکتے ہوں جیساکہ رحمن ملک نے سورة اخلاص کی تلاوت کرنے کی کوشش کر کے ظاہر کیا تھا )اور ترجمہ کے ساتھ تو پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابھی عدالت عالیہ کے احکامات کی نفی کا سلسلہ جاری تھا کہ کسی عقلمند مشیر نے یہ ”اعلیٰ “ مشورہ دیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی توڑنے کے احکامات جاری کر دیے اس پر یہ عتاب کہ اس کی ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کر دیں ۔جہاں کم تعلیم یافتہ یا جاہل حکمران ہوں تو ایسے احکامات روز مرہ کا عمل بن جاتا ہے۔ کمیشن پر یہ عتاب اس لئے آیا ہے کہ اس نے جھوٹے ، مکار ، جعلسازوں کی جھوٹی ڈگریوں کی جانچ پڑتال شروع کر دی تھی اور حکمرانوں کی انگلیوں پر ناچنے سے انکار کر دیا تھا۔ حکمران جہالت کا استعمال کر کے دیکھ رہے ہیں وہ جلد ہی متوقع نتائج دیکھ لیں گے۔ آپ خود سوچئے اور دیکھئے وہ صوبے جو عام پرائمری اور سکینڈری اسکول ٹھیک طریقہ سے چلانے کے اہل نہیں ہیں ، جہاں ہزاروں اسکول جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں جہاں اساتذہ نہیں ہیں مگر تنخواہیں بانٹی جا رہی ہیں اور جو ایک کچھوے کے منھ اور دم میں فرق نہیں کر سکتے وہ اعلیٰ تعلیم کے کیا ذمہ دار ہونگے۔ ان اندھے ، بہرے ، گونگوں کو ملک کے تمام اعلیٰ تعلیمیافتہ اساتذہ اور تجزیہ نگاروں کی آراء کا قطعی لحاظ نہیں ہے۔ لنڈا بازار کے پڑھے لکھے(؟) لوگ ہمیں اس اہم کمیشن کو تحلیل کرنے کے فوائد سمجھا رہے ہیں ہاں ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ فوراََ سینکڑوں نااہل چمچے اعلیٰ عہدوں پر لگا دیے جائیں گے اور یہ کمیشن بھی اسٹیل مل اور پی آئی اے بن جائے گا۔
ایک اور کھوکھلا نعرہ حکمرانوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کی آ زادی کا ہے۔عوام بے وقو ف اور جاہل نہیں بے بس اور مجبور ہیں۔ جس اخبار یا ٹی وی نے حکومت کے احکامات کی پیروی نہ کی وہ عتاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ آجکل تمام عتاب ملک اور بیرون ملک بہت زیادہ دیکھا جانے والاٹی وی اسٹیشن جیو سوپر پر آیا ہوا ہے ۔ پہلے پوری کوشش کی گئی کہ اس نے کرکٹ ورلڈ کپ دکھانے کے جو حقو ق حاصل کئے ہیں ان کو سبوتاژ کیا جائے، سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اُڑائی گئیں اور اب بوگس اعتراضات لگا کر بند کر دیا گیا۔ ہر دور میں، ہر زمانہ میں یہ فرعونیت رہی ہے مگر حق کی آ واز کبھی بھی کوئی نہ دبا سکا ۔ میں شاہد ہوں کہ کس طرح مرحوم جناب میر خلیل الرحمن پر دباؤ ڈالے جاتے تھے، لالچ دیا جاتا تھا ، ڈرایا دھمکایا جاتا تھا مگر انہوں نے اپنے ضمیر کا اور آزادی صحافت کا کبھی سودا نہیں کیا۔ یہی سلسلہ اور رویہ میر صاحب کے صاحبزادہ جناب میر شکیل الرحمن کے ساتھ کیا جا رہا ہے مگر حکمران یہ بھولے ہوئے ہیں کہ شیر کی اولاد شیر اور گیدڑ کی اولاد گیدڑ ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ حکمرانوں نے دبئی میں میر شکیل الرحمن سے ملاقاتیں کیں ، انہیں ہر قسم کا لا لچ دیا کہ وہ حکومت کی چمچہ گیری کریں اور ہر غلط کام کی حمایت کریں۔ انھوں نے صاف انکار کر دیا ۔ نتیجہ آپ کے اور میرے سامنے ہے۔ ایک باغیرت شخص سر کٹانے کو تو تیار ہو جاتا ہے لیکن سر جھکانے کو تیار نہیں ہوتا ۔میں حکمرانو ں اور اہل اقتدار سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر دور میں، ہر ملک میں اللہ تعالیٰ عوام میں سے ایک یا اس سے زیادہ اشخاص چن لیتا ہے جن کو وہ اعلیٰ اوصاف اور قابل تحسین و ستائش صلاحیتوں سے نواز دیتا ہے۔ ان لوگوں کی ذا ت سے عوام کی راحت و سہولتیں وابستہ ہو جاتی ہیں اور نفا ق و تضا د دور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی عز ت و وقار میں اضافہ کر تا ہے اور ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ خو د بھی پاکیزہ زندگی بسر کریں راست گوئی پر عمل کریں اور عوام کو بھی تمام سہولتیں مہیا کریں ، امن و امان قائم کریں اور عوام کی دعائیں حاصل کریں ۔ اگر حکمران اور اہل اقتدار بد کردار اور منافق ہوں تو پھر ان پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ، غیظ و غضب اور اس کی نازل کردہ رسوائی و ذلالت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر عوام بد کردار ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو نیک اور عادل حکمران سے محروم کر دیتا ہے۔ باہمی اختلاف اور تنازعہ جات جنم لیتے ہیں ۔ قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے اور پھر جنگل کا قانون جنم لے لیتا ہے اور پورا نظام تباہ ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فرمان کے مطابق ایسے لوگوں کی جگہ دوسرے نیک اور اہل حکمران لے آتا ہے۔ حکمرانوں کا اقتدار اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکی خوشنودی پر منحصر ہے اور یہ وہ اپنے نیک اعمال کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں اس لئے انصاف ضروری عمل ہے۔ جب اہل اقتدار عوام کے آرام و ضروریا ت کا خیا ل رکھتے ہیں تو عوام ان کے حق میں دل سے دعائیں دیتے ہیں اور یہی وہ دعائیں حکومت اور ملک کے استحکام کا وسیلہ بنتی ہیں۔ حضرت علی  نے فرمایا تھا کہ کفر کے باوجود ملک باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم و جبر جس ملک میں قانون بن گیا اسکو بقا نہیں۔
احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت یوسف  قریب الرحلت تھے تو آپ نے وصیت فرمائی کہ آپ کے جنازہ کو حضرت ابراہیم  کے مزار کے ساتھ دفنایا جائے چنانچہ اس وصیت پر عمل کر کے جب ان کا جنازہ وہاں لے جایا گیا تو حضرت جبرائیل  تشریف لائے اور آپ نے حضرت یوسف  کی میت کو وہاں دفن کرنے سے روک دیا اور فرمایا کہ چونکہ حضرت یوسف  نے پیغمبری کے علاوہ حکمرانی بھی کی ہے اور انھیں قیامت کے دن اپنی حکمرانی کا حساب دینا ہے اس لئے ان کو حضرت ابرہیم  کے روضہء مبارک میں دفن نہیں کیا جا سکتا۔ اہل اقتدار کے لئے اس میں ایک سبق ہے کہ روز حشر ہر اس شخص سے باز پر س ہو گی جس کو اس دنیا میں کسی نہ کسی طرح کا اقتدار حاصل رہ چکا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے دن انسانی تاریخ کے تمام ادوار کے چھوٹے بڑے اہل اقتدار جمع کئے جائیں گے ان سب کے ہاتھ ان کی گردنوں سے پیوست اور حمائل کر دیے جائیں گے اور ان کے ساتھ برتاؤ ان کے اعمال کے مطابق کیا جائے گا۔ ان حکام اور اہل اقتدار کو جن کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ انھوں نے انصاف، عدل ،ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیے ہیں تو ان کے ہاتھ کھول دیے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے لیکن جو لوگ بے انصافی، بے ایمانی، منافقت کے مرتکب ہونگے وہ اسی عالم میں یعنی گردنوں سے ہاتھ بندھے ہوئے جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں میں دھونک دیے جائیں گے۔
اے اہل اقتدار اللہ تعالیٰ نے بالکل صاف صاف غیر مبہم الفا ظ میں تم کو انتباہ کیا ہے ، ہدایات دی ہیں تو پھر سمجھتے کیوں نہیں ہو۔ کیا عذاب الہیٰ کے منتظر ہو کہ پچھلے گناہ گاروں کی طرح تمھیں بھی آئندہ نسلوں کیلئے مثال بنا دیا جائے؟

کالم نویس: ڈاکٹر عبدالقدیر خان
بشکریہ: روزنامہ جنگ
2-مئی-2011ء
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: جہالت اور ڈھٹائی...سحر ہونے تک

Post by اضواء »

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.....

عمدہ اور سبق آموز موضوع پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: جہالت اور ڈھٹائی...سحر ہونے تک

Post by علی عامر »

ستائش کا شکریہ ... ڈاکٹر صاحب بہت ہی حساس اور درد دل والے انسان ہیں ...
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”