جنت کی نعمتیں اورقبر کا عذاب (حصہ اول)

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
العلم
کارکن
کارکن
Posts: 32
Joined: Sat Dec 21, 2013 12:34 pm
جنس:: مرد

جنت کی نعمتیں اورقبر کا عذاب (حصہ اول)

Post by العلم »

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لاإله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله۔
أما بعد: فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محد ثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار.
محترم بھائیو! آج کے خطبے کا موضوع ایک ایسے گراں قدر اور بیش قیمت سودے کا ذکر ہے جس کے پانے کی ہر مسلمان خواہش کرتا ہے اور اس کے لیے کوشش کر تا ہے اور قیامت تک کوشاں رہےگا۔ لیکن اسے صرف وہی لوگ پاسکیں گے، جن پر اللہ کی رحمت خاص ہوگی اور اس کا خصوصی فضل وانعام ان کے شامل حال ہوگا۔ آپ جا ننا چاہتے ہوں گے کہ آخر وہ کون سی ایسی گراں بہا اور پیش قیمت چیز ہے جس کے پانے کی ہر مسلمان خواہش وتمنا رکھتاہے؟
میرے بھائیو!یہ گراں بہا اور بیش قیمت چیز جنت کا ابدی گھر ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے اہلِ ایمان کے لیے تیار کیا ہے۔ اس کے مقابل ایک گھر اور ہے جو کافروں یا منافقوں اور نافرمان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے جس کا نام جہنم ہے۔
جنت اور جہنم دونوں اللہ کی مخلوق ہیں۔ جنت اور اس کی جملہ نعمتوں اور آسائشوں کو اللہ تعالیٰ نے ازل ہی میں پیدا کردیاہے۔ اسی طرح جہنم اوراس کی تکلیفوں اور عذابوں کو بھی وہ ازل ہی میں پیدا کر چکا ہے۔ یہ دونوں گھر پہلے ہی پیدا کیے جاچکے ہیں۔ جنت اللہ پر ایمان رکھنے اور اس سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔
جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللہِ ورُسُلِہِ) (الحدید:21)
"(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اوراس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کےبرابرہےیہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔"
اور جہنم کے بارے میں ارشاد ہے:
(فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ) (البقرۃ: 24)
"پس اگرتم نے نہ کیا اورتم ہرگز نہیں کر سکتے تو (اسےسچا مان کر) اس آگ سےبچوجس کا ایندھن انسان اورپتھرہیں،جوکافروں کےلیےتیارکی گئی ہے۔"
محترم بھائیو!جنت متقیوں کا گھر ہے۔ ان انبیاء ورسل، صدیقین وشہداء اور صالحین کا گھر ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ یہ ایسے باغات کا گھر ہے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔یہ ایسا گھر ہے جس کی اینٹیں سونے اور چاندی کی ہوں گی۔ جس پر مشک کا پلا سٹر ہوگا۔ جس سے ہمیشہ بہترین خوشبو پھو ٹتی رہےگی۔ جس کی کنکریاں موتی اور یاقوت کی ہوں گی۔ جس کی مٹی زعفران کی ہوگی اور جس کے خیمے جوف دار موتی کے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"إن للمؤمن فی الجنۃ لخیمۃ من لؤلؤۃ واحد مجوفۃ طولھا فی السماء ستون میلا" (مسلم)
"مومن کے لیے جنت میں ایک جوف دار موتی کا خیمہ ہوگا، جس کی لمبائی بلندی میں ساٹھ میل ہوگی۔"
جوفدار کا مطلب درمیان سے خالی ہوگا۔ یہ خیمہ ان عالیشان محلات کے علاوہ ہوگا، جن میں ان کا مستقل قیام ہوگا۔نیز جنت میں ہرے بھرے باغات اورچشمے ہوں گے۔ ارشاد باری ہے:
(إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ) (الدخان:52)
"بےشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہوں گے۔باغوں اورچشموں میں۔
جس میں سے جتنا چاہیں گے وہ اطمینان کے ساتھ کھائیں گے۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"یأکل أھل الجنۃ فیھا ویشربون ولا یتغوطون ولا یمتخطون ولا یبولون ولکن طعامھم ذلک جشاء کرشح المسک"
"جنتی جنت میں کھائیں گے، پئیں گے؛ لیکن نہ ان کو قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی نہ ناک سے رینرش نکلےگی، نہ وہ پیشاب کریں گے۔ ان کو ایک ڈکار آئےگی، اسی سے ان کا کھانا ہضم ہوجائےگا۔ یہ ڈکار بھی مشک کے پسینے کے مانند ہوگی۔"یعنی وہ بھی خوشگوار ہوگی۔
ایک دوسری روایت میں جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یوں آیا ہے:
(أول زمرۃ یدخلون الجنۃ علی صورۃ القمر لیلۃ البدر، ثم الذین یلونھم علی أشد کوکب دری فی السماء إضاءۃ، لا یبولون ولا یتخوطون ولا یتفلون ولا یمتخطون، أمشاطھم الذھب ورشحھم المسک ومجامرھم الألوّۃ عودھم الطیب أزواجھم الحور العین علی خلق رجل واحد علی صورۃ أبیھم آدم ستون ذراعا فی السماء)
" پہلا گرو ہ جو جنت میں داخل ہوگا، ان کے چہرے اس طرح چمک رہے ہوں گے، جیسے چودھویں رات کا چاند ہوتا ہے۔ پھر ان کےبعد داخل ہونے والوں کے چہرے آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے۔ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ تھو کیں گےنہ ناک چھنکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہوگا۔ ان کی انگیٹھیو ں میں جلانے کے لیے خوشبو دار لکڑی ہوگی۔ ان کی بیویاں بڑی بڑی آنکھیں والی حوریں ہوں گی۔ سب ایک ہی آدمی کی ساخت پر اپنے باپ آدم کی شکل وصورت پر ہوں گے۔ ان کے قد کی لمبائی ساٹھ ہاتھ کی ہوگی جیسے حضرت آدم تھے۔"
بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ہے:
"آنیتنھم فیھا الذھب، ورشحھم المسک، ولکل واحد منھم زوجتان؛ یری مخ سوقھما من وراء اللحم من الحسن"
"جنت میں ان کے کھانے کے برتن سونے کے ہوں گے۔ ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے دو بیویاں ہوں گی۔وہ ایسی حسین ہوں گی کہ حسن کی وجہ سے ان کی پنڈلیوں کا گو د اگوشت کےپار سے نظر آئےگا۔"
ایک روایت میں ان کے حسن وجمال کے متعلق آیا ہے کہ اگر ان میں سے ایک عورت اہل زمین کی طرف جھانک لے تو آسمان وزمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھر جائے۔ اور اس کے سر کا دو پٹہ اتنا قیمتی ہو گا کہ وہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہوگا۔"
ایک حدیث کی رو سے جنت میں آرام وآسائش کی ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی، جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں آتی ہوں گی۔
ارشاد باری ہے:
(فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاأُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) (الم السجدۃ:17)
"کوئی نفس نہیں جانتا کہ کیا ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔"
ایک حدیث قدسی میں یوں وارد ہے:
"قال اللہ تعالی: أعدت لعبادی الصالحین ما لا عین رأت ولا أذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر"
"اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کررکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گزراہے۔"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ بیان فرمانے کے بعد فرمایا: اس کی تصدیق کے لیے اگر تم چاہو تو قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ پڑھو ۔
(فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاأُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةَ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) (الم السجدۃ:17)
جنتیوں پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام یہ ہوگا کہ وہ انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائےگا۔جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آ پ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا:
"إنکم سترون ربکم عیانا کما ترون ھذا القمر لاتضامون فی رویتہ"
"یقینا تم (جنت میں )اپنے رب کو واضح طور پر ایسے ہی دیکھوگے، جیسے تم یہ چاند دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی جیسےبھیڑ میں پڑتی ہے۔
یعنی جس طرح چاند کے دیکھنے میں کوئی ازدحام نہیں ہوتا، کوئی کشمکش نہیں ہوتی،کوئی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی؛ بالکل اسی طرح اہلِ جنت بھی بیک وقت سارے لوگ اپنے رب کا دیدار کریں گے۔ دنیا میں ان فانی آنکھوں سے دیدار ِ الہٰی ممکن نہیں؛ لیکن جنت میں یہ دیدار اس لیے ممکن ہوجائےگاکہ وہاں کی ہرچیز غیر فانی ہوگی۔اسی طرح جنتیوں کو جو آنکھیں ملیں گی، وہ بھی غیر فانی ہوں گی۔ ان میں اتنی طاقت ہوگی کہ آسانی سے اللہ کا دیدار اور مشاہدہ کرسکیں۔
مسلم کی ایک روایت میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إذا دخل أھل الجنۃ الجنۃ یقولاللہ تبارک وتعالی: تریدون شیئا أزیدکم؟ فیقولون: ألم تبیض وجوھنا؟ ألم تدخلنا الجنۃ وتنجنا من النار؟ فیکشف الحجاب فما اعطوا شیئا أحب إلیھم من النظر إلی ربھم'
"جب جنتی جنت میں داخل ہوجا ئیں گے، تو اللہ تبارک وتعالی ٰ فرمائےگا: تم کسی اور چیز کی خواہش رکھتے ہو کہ میں تمہیں مزید دوں؟ تو وہ کہیں گے:کیا تونے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا؟ کیا تونے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور جہنم سے نجات نہیں دی؟ پس اللہ تعالیٰ پردہ ہٹادےگا اور جنتی اپنے رب کا دیدار کریں گے۔ تو وہ کوئی چیز ایسی نہیں دیئے گئے ہوں گے جو انہیں اپنے رب کو دیکھنے سے زیادہ محبوب ہو۔"
دنیا میں انسان کی زندگی کو قرار وثبات نہیں۔ ہر وقت اسے ایسی بیماری اور ناگہانی حادثا ت کا خطرہ لگا رہتا ہے، جو اس کی زندگی کا خاتمہ کردے۔ اسی طرح جوانی وصحت کو قرا ر وثبات نہیں۔جوانی بڑھاپےمیں تبدیل ہو جاتی ہے۔ صحت بیماری میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح آرام وراحت بھی مصیبتوں اور تکلیفوں میں بدل جایا کرتی ہے۔ دنیا کی کسی بھی چیز کو دوام وثبات حاصل نہیں؛ لیکن جنت کی ساری نعمتیں زوال وفنا سے محفوظ ہوں گی۔ وہا ں زندگی ہوگی، موت نہیں۔ صحت ہوگی،بیماری نہیں۔ جوانی ہوگی، بڑھاپا نہیں۔ ہر طرح کی راحت وآسائش ہوگی، کوئی دکھ اور تکلیف کبھی بھٹک کر بھی پاس نہیں آئےگی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
"إذا دخل أھل الجنۃ الجنۃ ینادی مناد:أن لکم أن تحیوا فلا تموتوا أبدا، وأن لکم أن تصحوا فلاتسقموا أبدا، وأن لکم أن تشبوا فلا تھرموا أبدا، وأن لکم أن تنعموا فلا تبأسوا أبدا"
"جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارےگا کہ اب تمہیں زندگی ہی زندگی ہے اب تم کبھی موت سے ہم کنار نہیں ہوگے اور یہ بھی کہ تم صحت مند ہوگے کبھی بیما ر نہیں ہوگے اور یہ کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہوگے اوریہ کہ تمہارے لیے راحت ہی راحت ہے تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچےگی ۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"إن أدنی مقعد أحدکم من الجنۃ أن یقول اللہ لہ تمن فیتمنی ویتنمی فیقول لہ ھل تمنیت فیقول: نعم فیقول لہ فإن لک ماتمنیت ومثلہ معہ" (مسلم:8153)
"تم میں سے ادنی جنتی کا یہ مقام ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائےگا کہ آرزو کر، پس وہ آرزو کرےگا۔ پھر آرزو کرےگا کہ میرے لیے فلاں چیز ہو، فلاں چیز ہو، اور فلاں چیز ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پو چھےگا: تونے اپنی ساری آرزؤں کا اظہار کردیا؟وہ کہےگا: ہاں، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائےگا:تیرے لیےوہ ہے جو کچھ تو نے آرزو کی ہے۔ اور اس کے ساتھ اسی کے مثل اور بھی۔
اس کے برخلاف جہنم-اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفو ظ رکھے-بڑے دردناک عذاب کا گھر ہے۔
ارشاد باری ہے:
(لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ) (الأنعام:70)
"ان کےلیےنہایت تیزگرم پانی پینے کے لیے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔"
نیز ارشاد باری ہے:
(وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ) (یونس:4)
میرے بھائیو! یہ اللہ کے نافرمانوں اور اس سے سرکشی کرنے والوں کےلیے بہت براٹھکانا ہوگا۔
ارشاد باری ہے:
(هَـٰذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ۔ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ) (ص:55,56)
نیز ارشاد باری ہے:
(سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ) (إبراھیم :50)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"یؤتی بجھنم یومئذ لھا سبعون ألف زمام، مع کل زمام سبعون ألف ملک یجرونھا"
"اس دن جہنم لائی جائےگی، اس کے ستر ہزار لگام ہوں گے، اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے، جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔"
جہنم کی گہرائی کا انداز ہ آپ حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے کیجئے، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک آپ نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ آواز کس چیز کی تھی؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:
"ھذا حجر رمی بہ فی النار من سبعین خریفا فھو یھوی فی النار الآن حتی انتھی إلی مقرھا" (مسلم)
"یہ ایک پتھر کے گرنے کی آواز تھی، جسے ستر سال پہلے جہنم میں ڈالا گياتھا، اور وہ گہرائی میں برابر جاتا رہا، یہاں تک کہ اب وہ جاکر اس کی گہرائی تک پہنچاہے۔"
اسی طرح کی ایک روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لو أن حجرا مثل سبع خلفات ألقی عن سفیر جھنم ھوی فیھا سبعین حریفا لا یبلغ حفرھا"
"اگر ایک پتھر جو سات موٹی اونٹنیوں کے مثل ہو، جہنم کے کنارے سے اس کے اندر گرایا جائے اور وہ ستر سال تک برابر گرتا رہے، تو وہ پھر بھی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے گا۔"
جہنم کی آگ کی شدت و گرمی کا ذکر قرآن کریم میں مختلف انداز میں آیاہے ۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
(كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ۔ نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى) (المعارج :15،16)
ایک آیت میں اسے "نَارًا تَلَظَّیٰ" کہاگیاہے۔ یعنی ایسی آگ جو برابر دہکتی رہےگی۔
ایک آیت میں ارشاد ہے:
(إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْر) (المرسلات: 32)
اس کی شدت اور ہولناکی کا اندازہ آپ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے کیجئے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
"نارکم ھذہ التی یوقد ابن آدم جزء من سبعین جزءا من حر جھنم قالوا: واللہ إن کانت لکافیہ یا رسول اللہ! قال فإنھا فضلت علیھا سبعین جزءا کلھا مثل حرھا"
"تمہاری یہ آگ جسے آدم زاد جلاتا ہے، جہنم کی آگ کے ستر ویں حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اگر یہی ہوتی پھر بھی کافی ہوتی؟ آپ نے فرمایا: جہنم کی آگ اس سے سترگنازیادہ شدید ہے، اور ان میں سے ہرگنا کی شدت اتنی ہے، جنتی دنیا کے آگ کی ہے۔"
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"یؤتی بأنعم أھل الدنیا من أھل النار یوم القیامۃ فیصبغ فی النار صبغۃ ثم یقال: یا ابن آدم ھل رأیت خیرا قط؟ ھل مرّ بک نعیم قط؟ فیقول: لا واللہ یا رب"
"دنیا میں سب سے زیادہ نعمتوں میں پلا ہوا شخص جو کہ جہنمی ہوگا، قیا مت کے دن لایا جائےگا، پھر اسے جہنم میں ایک ڈبکی دی جائےگی، پھر اس سے پوچھا جائےگا: اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی تھی، کیا کبھی تونے کوئی نعمت دیکھی تھی؟ وہ کہےگا: اللہ کی قسم، اے میرے پروردگار! میں نے کبھی کوئی نعمت نہیں دیکھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں جنت کی ان نعمتوں کا مستحق بنائے اور جہنم کے عذاب اور اس کی تکلیفوں سے محفوظ رکھے، آمین۔
أقول قولی ھذا، واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین، فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم۔
http://www.minberurdu.com/" onclick="window.open(this.href);return false;عالمی_منبر/باب_ایمان/جنت_کی_نعمتیں_اورقبر_کا_عذاب.aspx
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”