جہیزہمارئے معاشرہ کا ایک سماجی کینسر

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

جہیزہمارئے معاشرہ کا ایک سماجی کینسر

Post by سید انور محمود »

تاریخ: 17 جون 2013
از طرف: سید انور محمود
[center]جہیزہمارئے معاشرہ کا ایک سماجی کینسر[/center]
"مداوا" ایک اینٹی جہیز موومنٹ کے نام سے ایک این جی او ہے، اس کے صدر محترم طاہر اقبال طائر ہیں۔ میں اُنکو اپنے فیس بک کے حوالے سے جانتا ہوں۔ کل انکا ایک پیغام فیس بک پر دیکھا جس کا کچھ حصہ یوں تھا۔

"کئی زندگیوں کا سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیس بک قارئین مشورہ دیں
میری بچیوں کو انصاف دلائیے ،میرا مداوا کیجئے۔میں جیتے جی مر جاونگا ۔میری بچیوں کا قصور کیا ہے ؟رات ایک بجے کے قریب میرے موبائل فون پر آنے والے ایس ایم ایس نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا ۔میں نے اس نمبر پر فوراً فون کیا ۔دوسری طرف چیخ وپکار تھی ۔خواتین کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایک شخص نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا سرمیری بچیوں کو مارپیٹ کر گھر سے نکال دیا گیا ہے وہ کہہ رہے تھے کل ہم انہیں طلاق بھی دے دیں گے ۔ تین سال قبل میرے بڑے بھائی نے اپنے دو بیٹوں کیلئے میری بیٹیوں کا رشتہ مانگا میں نے سوچا خاندان میں ہی رشتے ہو جائے تو نکاح میں بھی آسانی ہوگی ۔ بچیوں کے تایا ابو اپنی بیٹیوں کی طرح ان کا خیال بھی رکھیں گے میں نے حامی بھر لی ۔ رخصتی سے قبل میرے بھائی نے کہا کہ جہیز کیلئے پریشان مت ہونا یہ میری بیٹیاں ہیں اور مجھے اپنے گھر میں صرف اِن کی ضرورت ہے ۔میں بہت خوش تھا کہ بچیوں کی رخصتی میں میری غربت آڑے نہیں آئی اور وہ بغیر جہیز کے ہی اپنے گھر چلی گئیں لیکن شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی جہیز کو لیکر جھگڑے شروع ہو گئے۔ میری بھابھی کی زبان پر تو بس ہر وقت ایک ہی طعنہ رہتا ہے کہ تمہارے باپ نے تمھیں دیا ہی کیا ہے۔ تم دونوں اپنے گھر سے لیکر ہی کیا آئی ہو۔ کل رات سب گھر والوں نے ملکر میری بچیوں کو مارا اور آدہی رات کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ہمیں تم جیسی کنگلیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ دفع ہو جاو کل تمہا ری طلاق تمہارے گھر پہنچ جائے گی ۔ میری ان بچیوں کا رو رو کر برا حال ہے جبکہ ان میں سے ایک بچی امید سے بھی ہے ۔ہمارے گھر میں جیسے ماتم ہے ۔خدا کیلئے کچھ کیجئے میری بیٹوں کا گھر اجڑنے سے بچائیے"۔ آخر میں جناب طاہر اقبال طائر صاحب اپنے فیس بک کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میری رہنمائی کیجئے۔ تجویز کیجئے کہ کیا بہتر ہوگا ۔ہمیں کیا کرنا چاہئیے"؟

اوپر فیس بک میں لکھا ہوا واقعہ ہمارئے معاشرئے کا نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔آپ اکثراس سے بھی زیادہ سنگین واقعات اخبارات میں پڑھتے اور میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں۔ آج کل ہمارا معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے جہیز کی لعنت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ بے شمار بچیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ۔ کم جہیز کی وجہ سے بھی بہت سی بچیوں کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے؛ مار پیٹ کے علاوہ اُن کو جلا یا بھی جاتا ہے اور اب تو اُن پر تیزاب بھی پھینکا جانے لگا ہے ۔ دوسری طرف عرب دنیا میں رسم ہے کہ لڑکا شادی سے پہلے ایک رقم دلہن کے گھروالوں کو ادا کرتا جب اسکی شادی ہوتی ہے ۔ سعودی عرب میں دو ہزار نو میں جدہ سے شایع ہونے والے اردو اخبار "اردو نیوز" میں ایک خبرشایع ہوئی جس میں کہا گیا کہ آٹھویں جماعت کی طالبات سے اُنکی ایک پینتیس سالہ استانی نے اُن سے کہا کہ اُسکی شادی کے لیےکوئی لڑکاتلاش کر یں جو اسکے والد کو پیسے ادا کرسکے تاکہ اسکی شادی ہوسکے۔ اس غلط رسم کی وجہ سے سعودی عرب جیسے ملک میں معاشرتی براییاں پیدا ہویں ہیں اورحالت یہ ہے کہ بچیاں عمر کی اس منزل کو طے کرجاتی ہیں جب انکی شادی ہوجانی چاہیے وجہ لڑکی کے والدین کی زیادہ مانگ ہوتی ہے، یعنی خربوزہ چھری پر یا چھری خربوزئے پر کٹتا خربوزہ ہی ہے۔ آپ دونوں رسموں کو دیکھ لیں ہر صورت میں نقصان بچیوں کو ہی ہوتا ہے۔ نتیجہ دونوں جگہ شادی ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔

برصغیر پاک وہند میں لڑکی کے باپ بھائی لڑکی کی شادی کے وقت اسکو جہیز کے نام پر بہت کچھ دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔ ہندو معاشرے میں عورت کو نہ صرف باپ کی جائیداد سے محروم رکھا گیا بلکہ شادی کے بعد اگر اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اسے بھی بعض اوقات اس کے ساتھ ستی ہونا پڑتا یعنی آگ میں جلناپڑتا۔عورت چونکہ باپ کی وارث نہیں بن سکتی تھی اس لیے والدین بوقتِ شادی حسبِ استطاعت اپنی بیٹی کو ''دان''کے نام پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتے۔اور جن لڑکیوں کے والدین ''دان'' کی سکت نہ رکھتے ان کی بیٹیوں کو معاشرہ بیوی کی حیثیت سے قبول کرنے سے عاری تھا۔ برصغیر میں اسلام کا سورج طلوع ہوا تو یہی ''دان '' ''جہیز'' کے نام میں تبدیل ہوگیا۔چونکہ اب یہ کام کرنے والے صرف ہندو نہیں بلکہ مسلمان بھی تھے۔وہاں سے چلتی ہوئی یہ رسم آج شادی کا لازمی جز بن چکی ہے ۔اور اس سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ''جہیز''کے جواز کے لیےحضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ کی شادی کے موقع پر دیے جانے والے سامان کو جہیز سے تعبیر کرتے ہوئے اسے اسلامی رسم باور کراتے ہیں۔حالانکہ یہ دعوی بالکل بے بنیاد ہے۔واقعہ یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تواپنا گھر بار سب کچھ مکہ چھوڑ آئے۔ مدینہ میں آپ مالی لحاظ سے مکہ کی نسبت اتنے مستحکم نہ تھے۔جب آپ کا رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے طے ہوا تو اس وقت آپ کے پاس صرف ایک تلوار ،ایک گھوڑا اور ایک زرہ تھی۔حضور علیہ السلام نے حضرت علی کو زرہ بیچ دینے کا حکم دیا جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خریدا۔ان پیسوں سے آپ نے چند گھریلوں استعمال کی بنیادی چیزیں خرید یں۔ مگر اس واقع سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام میں جہیز کے نام پر لوٹ مار جائز ہے۔

اگر آپ والدین ہیں تو اللہ تعالی نے آپکو بیٹے اور بیٹیوں سے نوازہ ہوگا۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ اپنے بیٹوں کی شادی کے وقت جہیز کی تمنا کررہے ہیں تو بدلے میں جب آپکی بیٹی کی شادی کےوقت جہیز مانگا جائے گا اور وہ بھی اتنا کہ آپکے لیے مشکل ہو تو آپکو کیسا لگے گا، آپکی بہو جو جہیز آپکے مانگنے پر اپنے ساتھ لائی ہے وہ تو آپکو ملنے سے رہا، پھر آپ کیا کرینگےلازمی پریشان ہونگے اور اُس وقت آپ اس رسم کو کوس رہے ہونگے۔جس بچی کی شادی ہونے والی ہے وہ آپکی پریشانیاں دیکھ کر شرمندہ اور پریشان ہورہی ہوگی۔ چلیے مان لیتے ہیں بیٹی جیسی نعمت آپکے گھر میں ہے ہی نہیں، آپ صرف بیٹوں کے والدین ہیں لہذا اُن کی شادیوں کے وقت آپ جہیز کی مانگ یا خواہش کرتے ہیں، دوسری طرف بیٹی کے باپ بھائی جہیز کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، لازمی وہ بچی جس کی شادی ہونے والی ہے وہ اپنے باپ بھائی کی وجہ سے پریشان ہوتی ہے تو پھر کیا ہوگا، وہ جہیز کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ آپ کے لیے نفرت بھی لائے گی اور شادی کے چند دن بعد ہی یہ نفرت آپ پر ظاہر ہوجائے گی۔ آپکے بیٹے کی زندگی اجیرن ہوجائے گی، اس کے بعد صرف دو انجام ہوتے ہیں یا تو وہ بچی اپنے گھر جاکر بیٹھ جائے گی اور مقدمہ بازی ہوگی، آپکے بیٹے کا گھر برباد ہوجائے گا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو دوسری صورت میں آپکا بیٹا اپنے لیے علیدہ گھر لے گا اور جاتے وقت آپکی بہواپنے جہیز کی ایک ایک چیز ساتھ لے جائے گی اور اس جہیز کے ساتھ جو آپنے مانگا تھا یا آپکو ملا تھا سود کے طور پر آپکا بیٹا ساتھ لے جائے گی۔ گویا آپنے جہیز کی لالچ کی اور اپنا بیٹا اپنے آپ سے دور کرلیا۔ بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوگی آپکی بہو جہیز کے ساتھ جو نفرت لائی تھی اسکو اگلی نسل میں منتقل کرئے گی اور کل آپکے بچوں کے بچے آپ سے نفرت کرینگے۔ ہوسکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ سب کچھ سب کے ساتھ نہیں ہوتا، ٹھیک ہے چلیے مان لیتے ہیں ایسا صرف 5 فی صد کے ساتھ ہوتا ہے، تو کل یہ تو ہوسکتا ہے کہ ان 5 فی صد میں آپ بھی شامل ہوں۔ اگر آپ کے محلے یا عزیزوں میں کوئی ایسا گھر آپکو معلوم ہو جہاں جہیز جیسی بیماری کے بغیر شادی ہوئی ہوتو ضرور ایک مرتبہ اس گھر میں جایں اور اگر اس گھر میں جہیز کی بیماری کا کوئی شکار نہ ہو تو شاید آپکو اُس گھر سے زیادہ خوشحال گھر کہیں نہ ملے۔

اس وقت پاکستان اُن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق نوجوانوں سے ہے، آپ نوجوان جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں اگرآپ چاہیں تو معاشرئے کے اس کینسر کو جسکو جہیز کہا جاتا ہے جڑ سے ختم کرسکتے ہیں۔ ایک لڑکے ہونے کے ناطے آپ اپنے گھر والوں کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی شادی پر کوئی جہیز نہیں لینا چاہتے، اگر گھر والے آپ کے خیالات سے متفق نہ ہوئے تو شور مچاینگے مگر کچھ کر نہیں سکیں گے، اگر آپ اس سسٹم سے بغاوت کرینگے تب ہی اس جہیز جیسے کینسر سے نجات پاینگے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ ایک بیٹا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی شادی پر جہیز نہیں لےگا مگر ایک بیٹی تو نہیں کہہ سکتی کہ وہ اُس سے شادی کرئے گی جو جہیز نہیں لےگا، لازمی بات ہے کہ جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں وہاں کسی بھی بیٹی کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ ایک بیٹی اپنے بارئے میں تو نہیں کہہ سکتی مگر جس گھرمیں وہ ہے وہاں اسکے بہت ہی محبت کرنے والے بھائی، ماموں اور چچا بھی ہوتے ہیں۔ یہ اُسکے وہ رشتے ہیں جو اُس سے بہت محبت کرتے ہیں، اُسکی بات غور سے سنتے ہیں، وہ اپنے بھائی ، ماموں اور چچا کے لیےتو کہہ سکتی ہے وہ بغیر جہیز کے شادی کریں، ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اس بات پر کامیابی ملے مگر اگر صرف 5 فیصد بھی کامیابی ملتی ہے تو یہ ابتدا ہوگی۔ ذرا اس تمام معاملے میں اس بے چاری بچی کے بارے میں سوچیں جو آئے دن آنے والے مہمانوں کی چبتی ہوئی نظروں کا عتاب وہ کس طرح سہتی ہے اور جہیز کے نام پر بکنے والی لڑکی لڑکے کے گھر جا کر بھی خوشحال رہے گی اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے ، یقینا ایسے لالچی لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا پہلے جہیز کے نام پر لڑکی کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے پھر بعد میں اس کو گھر سے نکال دینے کے ڈر سے۔ بہت سی لڑکیوں کو ان کے سسرال والے اسی بنا پر زندہ تک جلا دیتے ہیں کہ ان کی جہیز کی مانگ لڑکی کے گھر والے پوری نہیں کر پاتے۔ ظالم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی بیٹی کے والدین اور بھائی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں تبدیلی آ سکتی ہے اگر نوجوان نسل اور اُنکے والدین چاہیں تو سب ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کوئی مدد نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی اسکو جہیز کی لعنت ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ یہ آپ ہی ختم کرسکتے ہیں۔تو آیئے! عہد کریں جہاں تک ممکن ہو سکے ہم جہیز جو ہمارئے معاشرئے میں ایک سماجی کینسرہے اس رسم کو ختم کرنے میں اپنا کردار اداکریں گے اور لوگوں میں اس کی حقیقت کا شعور بید ار کریں۔تاکہ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ بن جائیں جس میں جہیز کی لعنت کا سرئے سے کوئی وجود نہ ہو۔

آخر میں آپسے گذارش ہے کہ اگر آپ نے اس مضمون کو شروع سے آخر تک پڑھا ہے توصرف چند منٹ بیٹھ کر سوچیئے گا، اگر میری بات آپکی سمجھ میں آئے تو اپنے خیالات کو ضرور شیر کریں اور اگر نہیں تو پھر دیوانے کی بڑ سمجھ کر بھول جایئے گا۔
------------------------
نوٹ: یہ مضمون میں "مداوا این جی او " اینٹی جہیز موومنٹ کے صدر محترم طاہر اقبال طائر کے نام کرتا ہوں۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: جہیزہمارئے معاشرہ کا ایک سماجی کینسر

Post by چاند بابو »

جہیز کہتےہیں اس سامان کو،،جو عرف میں لڑکی والوں کی طرف سے شادی میں دیا جاتا ہے۔ اور اسکے جواز میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔جبکہ یہ استدلال باطل ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ سوّوا بین اولادکم۔اپنی اولادوں میں برابر کا برتاؤ رکھو۔
ا اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے وقت آنحضرت ﷺنے جوسامان دیا تھا اسکو جہیز مان لیا جائے آپ ﷺ کے قول اور فعل میں تضاد لازم آئیگا۔نعوز باللہ ثم نعوذ با اللہ ایسا ہو ہی نہیں سکتاکیونکہ کتب اسلامی کےجائزہ سے یہ بات صاف ہے کہ آنحضور ﷺ نے اپنی تین صاحبزادیوںکو جہیز کے نام پر کچھ سامان نہ دیاتھا۔
تو اب لازمی طور پر ماننا پڑے گا جو کچھ بھی آپ نے سیدہ بتول کو دیاوہ جہیز نہ تھا ۔پھر کیا تھا آئیے! ذرا جائزہ لیں !
حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سر پرستی آنحضور ﷺ نے لی کیونکہ حضرت علی آنحضور ﷺ سے چھوٹے بھی تھے اور سرپرستی اور ضروریات کو پورا کر نےوالا حضور ﷺ کے علاوہ کوئی اور تھا بھی نہیں۔چنانچہ آپ ﷺ حضرت علی کو اپنے ساتھ رکھتے ،اور ان کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے اور ہر طرح کی دیکھ ریکھ کرتے یہاں تک کہ جب حضرت علی جوان ہو گئے تو اپنی صاحبزادی کا نکاح بھی کر دیا اور جب رخصتی کا وقت آیا تو بطور سرپرست ضروریات زندگی کے لئے چند خاص خاص گھریلو سامان کا انتظام بھی آپ کو کرنا
پڑا ۔اس انتطام کی روداد بھی سن لیجئے ۔
(۱) آنحضور ﷺ نے حضرت علی سے قبل از نکاح دریافت فرمایا کہ تمھارے پاس کچھ ہے انہوں نے جواب دیا کہ ایک گھوڑا اور ایک زرہ میرے پاس مو جود ہے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا گھوڑا تو تمھارے لئے ضرورت کی بہت اہم چیز ہے البتہ ذرہ بیچ کر اسکی قیمت لے آؤ ۔حضرت علی نے حضرت عثمان غنی کے ہاتھوں چار سو اسی درہم میں اپنی ذرہ بیچ دی اور قیمت لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ۔
(۲) آپ ﷺ نے اسی وقت حضرت بلال اور حضرت انس کی والدہ ام سلیم کو بلوایا اور انہین کچھ رقم بناؤ سنگار ،عطر اور خوشبو وغیرہ لانے
کیلئے دی اور بقیہ رقم گھریلو ضروریات کے انتظام کیلئے حضرت بلال کو عنایت کی۔زرقانی علی المواہب۔
(۳)آپ ﷺ کے حسب الحکم حضرت بلال اور حضرت ام سلیم نے بناؤ سنگار کے سامانوں کے ساتھ مزید مندرجہ ذیل چیزیں ،،سونے کیلئے بان کی ایک چار پائی،کھجور کی پتیوں سے بھرا ہو چمڑے کا گدا ،پانی کا مشکیزہ، ایک چھاگل ۔مٹی کے دو گھڑ ے اور چکی کے دو پاٹ کا نظم کیا۔یہی وہ کل سامان تھے جس کو آپ ﷺ نے حضرت علی کی رقم سے انتظام فرمایا جس میں آپ ﷺ کھلے طور پر صرف منتظم کی حیثیت سے نظر آرہے ہیں۔ اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو سامان دیا گیا تھاوہ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے نہیں دیا تھا بلکہ زوجین کی وقتی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آنحضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رقم سے اس کا انتظام فرمایا تھا اور کیوں نہ فرماتے جب کہ آپ ﷺ ہی دونوں طرف سے مربی اور بچپن سے پرورش کرتے چلے آتے تھے ۔لیکن آج جو سامان لڑکی والوں کی طرف سے دیا جاتا ہے مثلا بستر، برتن، بیڈ، اور دیگر لوازمات کیا یہ سب لڑکے والوں کے پاس پہلے سے موجود نہیں ؟ ہر ایک کے پاس موجود ہے پھر ان سامان دئیے جانے کی ضرورت کیا ہے ؟ دیگر سامانوں کاتو اس مصلحت کے پیش نظر دینا بھی جائز نہیںاور نہ اس کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے ثبوت ملتا ہے پھر یہ جہیز کی لعنت کہاں سے آئی اسلام میں اس کا ثبوت ہے؟ ہر گز نہیں،، اس لئے شرعی نقطۂ نطر سے سامانوں کا دینا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی شریعت میں اس کا کوئی حکم ملتا ہے ۔
یہ تشریحات پکار پکار کر کہتی ہیں جہیز ایک غیر اسلامی فعل اور قبیح رسم ہے اسلام سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ۔
شادیوں میں سادگی درکار ہے ۔۔۔ باقی جو کچھ ہے وہ سب بیوپار ہے ۔حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،،یہ چیز نہایت مذموم ہے کہ مرد عورتوں کی دولت پر نظر رکھے اور زیادہ سے زیادہ ! جہیز کی لالچ کریں،،
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،،جب کوئی نکاح کرنے والا شخص یہ معلوم کرےکہ اسکی بیوی کیا لائی ہے تو یہ سمجھ لو کہ وہ شخص چور ہے،،
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نکاح نکاح ہونا چاہئے نہ کہ جوا اور تجارت ۔مہر کی زیادتی سے نکاح کےمقاصد مجروح ہو تے ہیں اور شوہر کے مطالبۂ زر سے بھی۔
کیا کوئی صورت جوازکی ہے؟

(۱)ہاں اگرلڑکی ایسے گھر میںجا رہی ہے جہاں اس کی ضروریات زندگی کی فراہمی مشکل ہے تو کیا ایسی صورۃ میں لڑکی کے گھر والے خانگی ضروریات پوری کر سکتے ہیں ۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نےجب اپنی صاحبزادی کا نکاح ایک ایسے متقی شخص کیا جو انتہائی مالی اعتبار سے غریب تھے اور ازدوجی زندگی گزارنے کیلئے ان کے ہاں کو ئی سامان مو جود نہ تھا تو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے انکی ضرورتوں کے پیش نظر شادی کے بعد چند خاص گھریلو سامان کو خاموشی سے بغیر کسی کو دکھائے ہوئے بھجوادیا تھا ۔اسطرح بغیر طلب وسوال اور مانگ ومطالبہ کے تحفہ وتحائف،خوشی سے دینا لینا اور انسانی رشتہ سے کسی کی ضرورت کو پوری کر دینا شرعا واخلاقا کوئی برائی نہیں بلکہ انسانیت کا حق
ادا کرنا،اسکی اشاعت اور اس کو فروغ دینا اور خدا کے ہاں کوئی عمل پیش کرنا ہے ،یہی ایک صورت ہے جس کا جواز نکل سکتا ہے ۔
اما اذا کان بلا سوال ولا عن عدم رضایۂ فیکون ھدیۃ فیجوز۔ یعنی لین دین بغیر مانگ ومطالبہ کے ہوجو اس بنا پر نہ ہو کہ وہ بغیر کچھ لئے شادی کر نے پر رضامند نہیں ہے تو جائز ہے اور ایسا خوشی کالینا دینا ہدیہ کہلائیگا،،شادی اور شریعت۔
اس سلسلہ میں دار العلوم دیو بند کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!
اگلے ماہ میری شادی ہونے والی ہے، میر ا سوال جہیز کے بارے میں ہے۔ میں نے سسرال والوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے،اگر وہ بغیر مطالبہ کے کوئی چیز دیدیں تو کیا میں اسے قبول کرسکتاہوں؟
جہیز کا مطالبہ کوئی شریفانہ فعل نہیں ہے، آپ نے اچھا کیا کہ سسرال والوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا، بلکہ اگر وہ بغیر مانگے بھی کوئی سامان دیں تو اسے بھی منع کردینا چاہیے کیوں کہ عموماً لوگ نام ونمود کے طور پر یا رواج کے دباوٴ میں دیتے ہیں، اس کے باوجود بھی اگر وہ نہ مانیں تو ان سے کہہ دیجیے کہ جو ضرورت کا سامان آپ دینا چاہتے ہیں وہ کسی اور موقع پر دیدیجیے۔دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
ایک یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ لڑکا اگر چہ مالی حیثیت رکھتا ہے اسکے باوجود شادی کے موقع پر سسرال والے کچھ دینا چاہتے ہیںتو کیا یہ لینا جائز ہے؟
تو یہاں بھی دارالعلوم دیو بند کے یہ فتوے ملاحظہ فرمائیں۔
(۱)میں اپنی بیٹی کے نکاح پر اپنی خوشی سے ضروریات زندگی کا کچھ اسباب اپنی بیٹی کو دینا چاہتا ہوں۔ دولہا والے یہ کہہ کر اس کو منع کرتے ہیں کہ یہ جہیز ہے اور جہیز دین کے خلاف ہے اور وہ سختی سے یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کچھ بھی سامان تحفہ میں یا صلہ رحمی میں یا جہیز میں دیا تو ہم اس کو واپس کردیں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ (۱)اس موقع پر اپنی بیٹی کو ضروریات زندگی کا کچھ اسباب دینا درست ہے یا نہیں؟ (۲)کیا میرا اپنی بیٹی کو اس کے نکاح پر دیا ہوا ضروریات زندگی کا سامان (تحفہ، ہدیہ، جہیز) دولہا والوں کا واپس لوٹانا درست ہے؟
جب دولہا والے کچھ بھی سامان لینے سے سختی سے منع کررہے ہیں تو آپ کیوں زبردستی دیناچاہتے ہیں، اگر آپ اپنی بیٹی ہی کو کچھ دیناچاہتے ہیں تو خاص شادی کے موقع پر نہ دے کر کسی دوسرے موقع پر جب ضرورت ہو، اس وقت دیدیجیے، شادی کے موقع پر دینے سے نسبت دولہا کی طرف ہوگی اور وہ اسی سے بچنا چاہتے ہیں تو بلاوجہ کسی کو کیوں متہم کرتے ہیں، جہیز دینا کوئی فرض وواجب نہیں ہے، پھر اس موقع پر دینے میں بالعموم نمائش اور رسم کی پابندی مقصود ہوتی ہے، لہٰذا اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
(۲)سوال :جلد ہی میری شادی ہورہی ہے۔ لڑکی والوں سے کہہ دیا گیا ہے ، لیکن وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مجھے کم از کم نارمل جہیز لینا ہی پڑے گا، جیسے ، بیڈ، الماری وغیرہ۔ میں کچھ بھی نہیں چا ہتا ہوں، میں تذبذب میں ہوں کہ کیا کروں؟ کیا ان سامانوں کو لینا گناہ ہوگا؟ اگر ہاں!تو براہ کرم، میری مدد کریں۔
جواب :اگر چند سامان وہ اپنی بیٹی کو دینا چاہتے ہیں، آپ کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں تو لینے سے انکار پر مصر نہ ہوں، بلکہ صرف اس قدر کہیں کہ خاص شادی کے دن لانا میرے ذمہ ضروری نہ ٹھہرایا جائے بعد میں جب مناسب ہوگا میں لے آوٴں گا۔ آپ کے اوپر گناہ نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔

جہیز میں دئیے ہوئے سامان کا مالک کون ہو گا ۔ بیوی یا شوہر؟

تو اس سلسلہ میں فرمایا گیا ،، بطور جہیز شادی میں ملے ہوئے سامان کی مالک اور متصرف تنہا عورت ہے اور اس کو خرچ اور استعمال کرنے کا ازروئے شرع پورا پوراحق حاصل ہے، مرد کو عورت کی اجازت کے بغیر تصرف خرچ کرنا ،اپنے استعمال میں لانااور اس سے فائدہ جائز نہیں ہے اور نہ سسرال والے عورت کو ان سامانوں سے روک سکتے ہیں۔ (غایۃ الاوطار وشامی)بحوالہ شادی اور شریعت۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سید انور محمود
کارکن
کارکن
Posts: 180
Joined: Wed Aug 03, 2011 6:14 pm
جنس:: مرد

Re: جہیزہمارئے معاشرہ کا ایک سماجی کینسر

Post by سید انور محمود »

رہنمای کا بہت بہت شکریہ جناب
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔
سید انور محمود
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”