قومی ترانہ کی کہانی اور حفیظ جلندھری

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

قومی ترانہ کی کہانی اور حفیظ جلندھری

Post by میاں محمد اشفاق »

Image

قومی ترانہ،کسی بھی قوم کے جذبات ابھارنے اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے۔اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادو، اثراور تاثیر رکھتے ہیں۔ہر ملک کا الگ قومی ترانہ ہے۔اس کی حیثیت گویا ایک الگ تشخص کی سی ہے جس سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہوتا ۔
اس کے تقدس کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ گایا جاتاہے۔چھوٹا بڑا، ادنی و اعلیٰ سب بصداحترام ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ خصوصیت سوائے مخصوص مذہبی مناجات کے اور کسی کلمات میں نہیں۔یہاں پر قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ صرف قومی ترانہ کی ہی اہمیت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بجنے والی دُھن بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔
بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قومی ترانہ لفظوں کے ساتھ نہیں، صرف دھنوں کے ساتھ بجتا ہے اور اسے بھی وہی احترام حاصل ہوتا ہے جو کہ شاعری کے ساتھ قومی ترانہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ دھن اور قومی ترانہ دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں ۔دراصل قومی ترانے کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔پاکستانی کی قومی زبان اردو میں اسے قومی ترانہ کہا جاتا ہے ۔دیگر ممالک کی مختلف زبانوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا اور لکھا جاتا ہے۔
دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کا ایک علیحدہ قومی ترانہ اور اس کی میوزک کمپوزیشن ہے اور ہر اہم مواقع جب قومی جذبات کی ترجمانی مقصود ہو، قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔بعض ممالک کی طرح پاکستان کا قومی ترانہ ہر روز اسکول میں جب طالب علم اپنے اسکول کے دن کا آغاز کرتے ہیں تو قومی ترانے سے ہی کرتے ہیں۔
14 اگست1947 ء سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ وجود میں نہیں آیا تھا۔جب 14 اگست 1947 ء کے موقع پر پاکستان کی آزادی کا دن ،پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ منایا گیا، اس وقت قومی ترانے کی جگہ ”پاکستان زندہ باد، آزادی پائندہ باد“کے نعروں سے یہ دن منایا گیا تھا لیکن اس موقع پر حساس اور محب وطن شاعر اور ادیبوں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ پاکستان کا ایک الگ سے قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے۔جو دلوں کو گرما دے اور الگ قومی تشخص کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ ہو۔
تاریخ کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا جو کہ ایک ہندو شاعر تھے اور ان کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے یہ قومی ترانہ قائداعظم محمد علی جناح کی ذاتی درخواست پر لکھا تھا۔اس قومی ترانے کی منظوری دینے میں قائداعظم محمد علی جناح نے کافی غوروفکر کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد اسے باقاعدہ سرکاری طور پر بہ طور قومی ترانہ کے منظوری حاصل ہوئی ۔
پاکستان میں اس وقت جو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے ، یہ وہ ترانہ نہیں ہے جسے جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا۔ یہ قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے دسمبر1948 ء میں لکھا اور اس وقت سے یہ نافذالعمل ہے۔دراصل جگن ناتھ آزاد کے قومی ترانے میں بعض جگہ پر حب الوطنی کی خاصی کمی محسوس کی گئی تھی اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نئے سرے سے قومی ترانہ لکھوایا جائے۔
یہ سعادت حفیظ جالندھری کو حاصل ہوئی اور انہوں نے یہ قومی ترانہ لکھ کر اپنا نام ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔اس قومی ترانے کو منظوری کے لیے اس وقت کے انفارمیشن سیکرٹری شیخ محمد اکرام کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ جو اس کمیٹی کو ہیڈ کر رہے تھے، جس نے اس قومی ترانے کی منظوری دینی تھی۔ اس کمیٹی میں معروف سیاستدان، شاعر اور میوزیشن شامل تھے۔
کمیٹی کے معروف ممبران میں عبدالرب نشتر اور احمد چھاگلہ کے ساتھ ساتھ حفیظ جالندھری خود بھی موجود تھے۔حفیظ جالندھری کو کہا گیا کہ وہ مزید چند خوبصورت فقروں کا اضافہ کر کے قومی ترانے کو مزید خوب صورت بنائیں۔چنانچہ حفیظ جالندھری نے تین مزید فقروں کا اضافہ کیا ۔قومی ترانے کو منظوری تو مل گئی لیکن اس کے ساتھ ہی فوری طور پر یہ مسئلہ پیش آیا کہ صرف اچھی شاعری سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اب اس قومی ترانے کو اچھی دھن کی بھی ضرورت ہے۔
قومی ترانے کا میوزک1950 ء میں ترتیب دیا گیا اورپہلی بار سرکاری طور پر اس قومی ترانے کو مکمل دھن کے ساتھ 1954ء میں باقاعدہ طور پر بجایا گیاتھا۔ قومی ترانے کے میوزک ڈائریکٹر احمد غلام علی چھاگلہ تھے۔جنہوں نے 15 انسٹرومنٹس کے ساتھ 1949 ء میں اس کا میوزک کمپوز کیا تھا۔
قومی ترانہ کی شاعری اس کے لکھے جانے الفا ظ اور فقرے معمولی حیثیت کے حامل نہیں ہوتے۔انہیں دائمی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جب تک وہ قوم زندہ رہتی ہے، وہ اسے یاد رکھتی ہے۔ سو جب قومی ترانہ لکھنے کی بات آئی تھی تو بہت سارے لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ ان کا لکھا گیا قومی ترانہ سلیکٹ ہو جائے۔
یہ ایک عظیم خواہش تھی سو اس کے لیے بہت سارے شاعروں نے کوشش کی۔ ایک ادبی ذریعے کے مطابق اس سلسلے میں 723 انٹریاں ”نیشنل سانگ سلیکشن کمیٹی“کو موصول ہوئی تھیں اور ان میں حفیظ جالندھری کی انٹری بھی شامل تھی اور یہ سعادت حفیظ جالندھری کے حصے میں آئی اور ان کا نام قومی ترانے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
4 اگست1954 ء کو پہلی دفعہ قومی ترانہ ،مکمل دھن کے ساتھ بجایا گیا تھا۔
ریڈیو پاکستان پر 13 اگست1954 ء کو 11 گلوکاروں نے بیک وقت گایا۔ قومی ترانہ گانے والے ان گلوکاروں میں احمد رشدی، شمیم بانو، کوکب جہان، رشیدہ بیگم، نجم آرا،نسیمہ شاہین،زوار حسین،اختر عباس،غلام دستگیر،انور ظہیر اوراختر وصی شامل تھے۔ان کے ساتھ علی راٹھور اور سیف علی خان نے بھی حصہ لیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلی دفعہ ریڈیو پاکستان پر قومی ترانہ گایا گیا تھا ۔جس کا ٹائم پیریڈ ایک منٹ اور 20 سیکنڈ تھا۔دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت پہلی دفعہ یہ ترانہ گایا گیا، اُس وقت تک سرکاری طور پر اس کی منظوری نہیں ہوئی تھی ۔منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ نے باقاعدہ طور پر اس کی منظوری16 اگست1954 ء کو دی تھی۔
قومی ترانے کے پہلے میوزک ڈائریکٹر احمد علی چھاگلہ1953 ء میں انتقال کر گئے تھے ۔یعنی جس وقت پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر ریڈیو پاکستان میں قومی ترانہ گایا جا رہا تھا، وہ بقید حیات تو نہیں تھے ۔تاہم وہ اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر چکے تھے۔


ایک بار کسی نے صدرایوب کو یہ پٹی پڑھائی کہ اگر حفیظ صاحب کو شاہنامہ اسلام کی تکمیل پر کسی طرح راغب کیا جائے، انھیں مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں اور وہ شاہ نامہ کی چوتھی جلد سے آگے تاریخ اسلام کے بقیہ واقعات بھی نظم کرکے سلسلہ آپ (یعنی صدر ایوب) تک بھی پہنچا دیں تو یوں آپ غیرفانی ہو جائیں گے۔ چنانچہ حفیظ صاحب کو مرکزی وزارتِ اطلاعات میں جوائنٹ سیکرٹری کا عہدہ پیش کردیا گیا۔ رہائش کے لیے راولپنڈی صدر میں ایک وسیع و عریض کوٹھی ملی۔ جملہ لوازمات کے ساتھ ایک پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات سپرد کر دی گئیں، جو ۲۴؍ گھنٹے حاضر رہتا۔

حفیظ صاحب کو کسی دفتر میں آنا جانا نہ ہوتا۔ شاہ نامہ اسلام لکھنے کے علاوہ کوئی سرکاری مصروفیت نہ تھی۔ حفیظ صاحب ٹھاٹ باٹ سے سرکاری کوٹھی میں براجمان ہوئے اور سرکار کی دی ہوئی سہولتوں کے مزے لینے لگے۔ پانچ چھ ماہ کا عرصہ اسی طرح گزر گیا۔ انھوں نے شاہ نامہ اسلام میں کسی شعر کا اضافہ نہ کیا۔ بس کبھی کبھار کوئی تازہ غزل ہوجاتی جو وہ اپنے قریبی دوستوں سیدضمیرجعفری اور عزیز ملک کو سنا کر خوش ہو لیتے۔ اِدھر اُدھر کوئی مشاعرہ ہوتا تو وہاں چلے جاتے۔

ایک دن وزارت اطلاعات کے کسی جائنٹ سیکرٹری کو خیال آیاکہ حفیظ صاحب نے اپنے کام کی پیش رفت سے کبھی آگاہ نہیں کیا۔ معلوم کرنا چاہیے کہ کام کہاں تک پہنچا؟ اس شامت کے مارے نے حفیظ صاحب کو فون کردیا کہ آپ اپنے کام کی ’’پراگریس رپورٹ‘‘ بھیجیں۔ حفیظ صاحب نے استفسار کیا کہ پراگریس رپورٹ سے کیا مراد ہے؟ وضاحت ہوئی کہ اب تک جتنے اشعار لکھے ہیں ان کی نقل بھیجیں۔ یہ کام سیکرٹری صاحب کو ’’اپروول‘‘ (منظوری) کے لیے پیش کرنا ہے۔

یہ سننا تھا کہ حفیظ صاحب سیخ پا ہوگئے، کہنے لگے، ’’میرے اشعار کو سیکرٹری منظور کرے گا؟ یہ کوئی دفتری ڈرافٹ ہے جو اس کی خدمت میں پیش کیا جائے؟ میں شاعر ہوں کوئی سیکشن آفیسر نہیں کہ آپ میری تحریر منظور یا نامنظور کریں۔‘‘

جوائنٹ سیکرٹری صاحب کہنے لگے ’’دیکھیں نا حفیظ صاحب، آپ حکومتِ پاکستان کے ملازم ہیں۔ ہمار افرض ہے کہ آپ کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ حفیظ صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ کہنے لگے ’’آ پ کو کس بے وقوف نے بتایا کہ میں حکومت پاکستان کا ملازم ہوں۔ میں نہیں، حکومتِ پاکستان میری ملازم ہے۔‘‘ ’میں کوئی دفتری بابو ہوں جو فائلیں لکھ لکھ کر پیش کروں؟ مجھے شاعر رکھا گیا ہے۔

آمد ہوگی تو شعر لکھ دوں گا۔‘‘یہ کہہ کر حفیظ صاحب نے فون بند کردیا۔

جن دنوں حفیظ صاحب صدرایوب کی خواہش پر شاہ نامہ لکھنے پر مامور تھے، افسران بالا کی ایک محفل نائو نوش اور بزمِ رقص و سرود راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔ حفیظ صاحب کو اس تقریب میں بطورِخاص مدعو کیا گیا تاکہ جب محفل رنگ پر ہو تو ان سے ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ اُن کے مخصوص دِل آویز ترنم میں سنی جائے۔ حفیظ صاحب سے جب نظم کی فرمائش کی گئی تو انھوں نے کہا ’’وہ نظم تو مجھے یاد نہیں، آپ کو ایک تازہ نظم سناتا ہوں۔ وہ نظم یہ تھی ؎

عورتیں ہیں ، مرد ہیں ، یارانہ جمخانے میں ہے
اب تو ہر مستانی ہر مستانہ جمخانے میں ہے
یہ ثقافت ہر کلب میں ہے شرافت کا مقام
ناچ گھر موجود ہے ، مے خانہ جمخانے میں ہے
ناچنے کی شرط یہ ہے مرد و زن دونوں ہوں غیر
بس وہی اپنا ہے جو بیگانہ جم خانے میں ہے
ناچنے میں مرد و زن پر حال طاری ہو اگر
ان کی خاطر خاص خلوت خانہ جمخانے میںہے
دین پر پھبتی ، خدا پر طعن ، ملت پر ہنسی
کیسی کیسی جرأتِ رندانہ جمخانے میں ہے
ناچتی گاتی ہوئی مِٹ جانے والی قوم کا
ایک جیتا جاگتا افسانہ جمخانے میں ہے

حفیظ صاحب تو یہ نظم سنا کر چل دیے اور شرکائے محفل ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے گئے
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: قومی ترانہ کی کہانی اور حفیظ جلندھری

Post by چاند بابو »

بہت خوب شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”