کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی شدید مخالفت

معاشرے اور معاشرت پر مبنی تحاریر کے لئے یہاں تشریف لائیں
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی شدید مخالفت

Post by میاں محمد اشفاق »

پاکستان میں کالا با غ ڈیم بننے پر بہت ہی بحث ہو رہی ہے میں نہیں جانتا کہ جو کہہ رہے ہیں کہ نہیں بننا چاہیئے وہ اس کی اتنی پرزور مخالفت کیوں کر رہے ہیں بس اتنا جانتا ہوں کہ اس کے بننے سے پاکستان میں ترقی کے نئے راستے کھلیں گے
اس سلسلے میں کچھ سیاسی حلقوں اور کچھ دیگر بیان پیش کر رہا ہوں امید ہے کہ آپ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں گے!

Image


سندھ اسمبلی: کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی شدید مخالفت: رپورٹ: بی بی سی

پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے کالا باغ ڈیم منصوبے کے خلاف قرارداد پیش کی ہےاور کہا ہے کہ یہ ڈیم ان کی لاشوں پر ہی بن سکتا ہے۔
کراچی سے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق سیاسی نظریات اور مفادات میں بٹی ہوئی ان جماعتوں کو ایک ساتھ ہونے کا موقع لاہور ہائی کورٹ نے دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں کالا باغ ڈیم کو تعمیر کیا جائے۔
گذشتہ چار دہائیوں سے کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ سندھ کے علاوہ بلوچستان اور خیر پختون خوا کی اسمبلیاں بھی اس منصوبے کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہیں۔
جمعرات کو ایک بار پھر سندھ اسمبلی میں یہ قرارداد پیش کی گئی جس میں سندھ کے عوام کے ’مینڈیٹ‘ کا احترام نہ کرنے کی مذمت کی گئی اور یہ منصوبہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سندھ کے ضلعے بدین سے منتحب رکن ڈاکٹر سکندر مندھرو کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم منصوبے کے فنی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، ماحولیاتی اور ارضیاتی تمام پہلوں پر بحث ہوچکی ہے اور اسے ہر لحاظ سے نامناسب منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق یہ منصوبہ سندھ صوبے کی موت اور زندگی کا سوال ہے، اور آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو اس مردے کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک دوسرے رکن عمران لغاری کا کہنا تھا کہ آمریت اور اس کے اتحادیوں نے اس منصوبے کو ہمیشہ سندھ کے خلاف استعمال کیا ہے اور یہ لوگ ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کریں گے جس سے اس خوشحال دھرتی کے حالات صومالیہ جیسے ہو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر تنازع کھڑا کر کے پاکستان کو منقسم کرنے کے لیے بنیاد ڈالی جارہی ہے اور لوگوں کے درمیان تصادم کی سازش ہو رہی ہے جس کے ذمے دار پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن خالد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوری اقدار مضبوط ہو رہی ہیں اور نظام پارلیمانی جمہوریت کی طرف جا رہا ہے تو ایسے وقت میں کیوں اس منصوبے کو کیوں چھیڑا گیا ہے جس سے تفریق پیدا ہوسکتی ہے۔
انہوں نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب عدالتیں ان لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر جنہوں نے یہ پورا پارلیمانی نظام ان کو دیا ہے اس طرح کے متعصبانہ فیصلہ دینا شروع کریں گی تو یہ پاکستان، جمہوریت اور جمہوری اقدار کی بڑی بدقسمتی ہوگی۔
پیر پگاڑا کی جماعت مسلم لیگ فنکشنل نے ماضی میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی حمایت کی تھی مگر موجودہ پیر پگاڑا کی قیادت میں پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور مسلم لیگ فنکشنل نے سندھ اسمبلی میں اس منصوبے کی مخالفت کی ہے

:
میاں افتخار وزیر اطلاعات خیبر پختونخواہ :
میاں افتخار حسین نے کالا باغ ڈیم منصوبے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیم انیس سو تریپن سےایک متنازعہ ایشو ہے جو عدملاً دفن ہوچکا ہے۔ تین صوبے کالا باغ ڈیم کے حق میں نہیں جبکہ صوبائی اسمبلیاں بھی ڈیم کی تعمیر کے خلاف قرارداد منظور کرچکی ہیں۔ وزیراطلاعات خیبر پی کے نے کہا کہ کالا باغ ڈیم نہ صرف ایک فنی اور سیاسی مسئلہ ہے بلکہ یہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جسے کسی صورت نہیں مانا جائے گا۔ انہوں نے اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روح کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترمیم کے تحت متعلقہ صوبے کی مرضی کے خلاف کوئی ڈیم نہیں بن سکتا۔ انہوں نےسپریم کورٹ سے عدالت عالیہ کے فیصلے پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔


Image

کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آج کل ہر خاص و عام کے لئے موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملک کے چند گھمبیر مسائل میں سے ایک ہے جس کا سامنا ملک کو گزشتہ کئی عشروں سے ہے۔ پاکستان کو صرف کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مشکلات کا ہی سامنا نہیں بلکہ کچھ اور مسئلے اور معاملات بھی ایسے ہیں جن کو اگر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ابتداءہی میں حاصل کر لیا جاتا تو آج ملک کا اقتصادی ، سماجی اور سیاسی منظر نامہ بہت مختلف اور بہتر ہوتا، مثلاً ملک کا سیاسی نظام، صدارتی ہونا چائیے یا پارلیمانی ؟نظام تعلیم میں میڈیم آف انسٹرکشن (MEDIUM OF INSTRUCTION) اردو ہونا چائیے یا انگریزی؟ملک کے سیاسی نظام میں فوج کا کردار کیا ہونا چائیے؟ قومی لباس کی نوعیت کیا ہو؟صوبوں کے درمیان مالیاتی امور طے کرنے کی بنیاد کیا ہونی چائیے؟ بنیادی سطح پر حکومتی نظام کار "بلدیاتی نظام" کو کس طرح منظم کیا جائے؟بدقسمتی سے پاکستانی سیاست کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی قومی مسئلے پر تمام سیاستدانوں کا اتفاق رائے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان کے قیام کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ قیام پاکستان کی جدو جہد اور علیحدہ وطن کے مقصد کو حاصل کرنے میں بھی مسلمانان ہند کے سیا سی راہنما کبھی یک زبان نہ ہوئے۔ایک طر ف تو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ قیام پاکستان کی جدو جہد میں مصروف عمل تھے اور دوسری طرف بہت سے مسلم سیاست دان مسلم لیگ کی بجائے یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو رہے تھے۔ یہ لوگ آزادی حاصل کرنے کی بجائے اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک ہونے کے لئے بے تاب تھے۔پاکستان کے "کھیون ہار" کشتی چلانے کی بجائے چپو کی ملکیت پر لڑائی کر رہے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستانی سیاست کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی قومی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے پوانٹس سکو ر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان کو درپیش اکثر مسائل نہ تو کشمیر کے مسئلے کی طرح پیچیدہ ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق ہماری خارجہ پالیسی اور عالمی صورت حال سے منسلک ہے۔یہ سب جھگڑے ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ان کا حل بھی ہم اپنے گھر میں بیٹھ کر ڈھونڈسکتے ہیں۔
ان مسائل کی فہرست کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست دانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے آزادی کے نو سال بعد تک (1956تک) ملک کا پہلا آئین نہ بنایا جا سکا۔ سندھ طاس منصوبے پر بھی سیاست دانوں میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ 1960میں بھارت سے ہونے والے اس معاہدے کو بھی سیاستدانوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن کوئی یہ نہ بتا سکا کہ اس معاہدے کے بغیر پاکستان بھارت کو دریاﺅں کا رخ موڑنے سے کس طرح روک سکتا تھا؟
صدر ایوب خان کے اقتدار کے آخری ایام میں جب وہ حزب اختلاف کی تحریک کے نتیجے میں انتہائی کمزور ہو چکے تھے اور انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ آئندہ انتخاب میں صدارتی امیدوار نہیں ہوں گے تو ہمارے سیاستدان اس بات پر متفق نہ ہوسکے کہ چند ماہ اور انتظار کر لیتے تا کہ ملک میں اس وقت رائج سیاسی نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی انتخابات ہوجاتے اور یحییٰ خان کے مارشل لاءکی نوبت نہ آتی۔
اگر بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان اقتدار میں شراکت پر اتفاق رائے ہو جاتا تو مشرقی پاکستان کا سقوط نہ ہوتا اور آج اس خطے کی سیاسی صورت حال مختلف ہوتی۔اسی طرح 1977میں اگر پیپلز پارٹی اور PNAکے سیاست دانوں میں اتفاق رائے ہو جاتا تو ضیاءالحق کو نوے دن کے اندر انتخابات کرانے پڑ جاتے اور ملک گیارہ سال کے مارشل لاءسے بچ جاتا۔ اگر نواز شریف صاحب اپنے قریبی ساستدانوں کی رائے کا احترام کرتے اور جنرل پرویز مشرف صاحب کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش نہ کرتے تو ممکن ہے آج ہمارا سیاسی نظام مختلف ہوتا۔انہی تاریخی تناظر میں اگر ہم کالا باغ ڈیم کے مسئلے کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر میں بھی سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے دیر ہوئی اور ملک میںآبی ذخائرمیں کمی کاشد ید مسئلہ پیدا ہوا۔کالا باغ ڈیم منصوبے پر ابتدائی کام کا آغاز 57سال پہلے 1953میں ہوا۔اس وقت اس منصوبے پر کسی کو اعتراض نہ تھا۔ اس منصوبے پر 1985میں جب عمل در آمد کا فیصلہ ہونے لگا تو اس وقت صوبہ سرحد کے گورنر ،ریٹائرڈجنرل فضل الحق نے علاقائی سیاست دانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا، اگر انہیں دنوں صدر جنرل ضیاءالحق انہیں روک دیتے تو معاملہ آگے نہ بڑھتا۔
صوبہ سرحد کے بیانات کے بعد سندھ کے بڑے بڑے وڈیروںاورسیاستدانوں نے بھی اس کی مخالفت میں بیان دینے شروع کر دئیے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقے کی زمینوں پر انہوں نے ناجائزقبضے کر رکھے تھے اور دریائے سندھ کی اس زرخیز پٹی سے وہ مفت میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔کالا باغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ کا پانی حکومتی کنٹرول میں آ جائے گااور مربوط نہری نظام کے ذریعے حساب کتاب سے پانی مہیا کیا جائے گا۔ اس طرح اس خطے کے وڈیرے، سیاست دانوں کے نا جائز قبضے "مفتے" ختم ہو جائیں گے اور زمینوں سے لگان اور مالیہ بھی لیا جا سکے گا۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ کالا باغ ڈیم منصوبے کو ہوا دینے میں بھارتی لابی اور اسکے ایجنٹوں نے بھی بڑا کام دکھایا ہے ۔ بھارت کو یہ بخوبی اندازہ ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم کا منصوبہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا تو پاکستان کی زرعی معیشت اور ملکی توانائی کے ذرائع کو استحکام حاصل ہو گا۔ جس سے پاکستان کو خود کفالت کی منزل آ سانی سے حاصل ہو گی ۔ اس طرح معاشی اور زرعی اعتبار سے مضبوط پاکستان بھارت کے لئے مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس پس منظر میں بھارت کو جب یہ احساس ہوا کہ کالا باغ منصوبے پر اختلاف رائے کو ابھارا جا سکتا ہے تو اس نے صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کے اندر اپنی ہمدرد لابی اور مقامی اخبارات پر اثر انداز ہونے کی پالیسی اپنائی بعض اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ بھارتی لابی نے اس منصوبے کے خلاف سیاست کرنے والوں اور لکھنے والوں کو مالی مدد بھی فراہم کی۔
پاکستان کی معیشت اور اس میں توانائی کی اہمیت پر نظر رکھنے والے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ کالا باغ منصوبہ آسانی سے پائے تکمیل تک نہ پہنچ سکے گا تو انہوں نے IPP (INDEPENDENT POWER PRODUCER) کا منصوبہ پیش کیا۔اس ریکٹ (RACKET)کی وجہ سے بڑے بڑے کمیشن (KICK BACK)دے کر پاور یونٹ لگائے گئے اور عوام کو مہنگی ترین بجلی مہیا کی جانے لگی جس سے پوری قوم بلبلا رہی ہے۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت بھی تمام تر دعوﺅں کے باوجود کالا باغ ڈیم کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔حالیہ بارشوں اور سیلابی پانی نے جس طرح نوشہرہ اور ملک کے دوسرے علاقوں میں مالی اور جانی نقصان کیا اس کے پس منظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ کالا باغ ڈیم اور دوسرے آبی ذخائر کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔اگر ہم اس انتظار میں رہیں کہ جب تک ملک کے سیاست دانوں میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہو جاتا اس وقت تک ڈیم تعمیر نہ کیا جائے توایک تاریخی بھول ہو گی ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم عظیم تر قومی مفاد میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر فوری طور پر شروع کر دیں۔ قوم کا مجموعی مفاد بہر حال علاقائی اور شخصی مفادات سے بالا تر ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور آبی ذخائر کے تحفظ ہی میں پاکستانی عوام کی خوشحالی ، ترقی اور خود کفالت کی منزل کا رازپنہاں ہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی شدید مخالفت

Post by بلال احمد »

معلوم نہیں کیا بنے گا ڈیم کا اور ملک کا بھی a;n;g;e;r;y a;n;g;e;r;y
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی شدید مخالفت

Post by اضواء »

خبر کی شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “معاشرہ اور معاشرت”