دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے!

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
اسداللہ شاہ
مشاق
مشاق
Posts: 1577
Joined: Mon Jul 06, 2009 3:04 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین پر
Contact:

دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے!

Post by اسداللہ شاہ »

جس طرح ایک شخص ایک عرصہ سے بیمار ہو تو آخری وقت میں اس کی حالت انتہائی خراب ہوجاتی ہے،اور بالآخر یہ شخص دنیا سے رخصت ہوجاتاہے، اسی طرح موجودہ دور میں جو انتشار اور پریشانی کی حالت ہے، یہ اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ اس دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے اور اس کے چل چلاؤ کی خبر خالق کائنات نے ہمیں بذریعہ قرآن شریف اور اپنے محبوب ا کی زبان اطہر سے دی ہے۔
قرآن شریف میں اس دنیا کے انجام آخر کو ”قیامة، قارعة، غاشیة، ساعة، حاقة اور واقعة،، کے نام دیئے ہیں،جبکہ آنحضرت ا نے قیامت کے آنے سے پہلے کی علامتوں کا ذکر فرماکر امت پر احسان فرمایاہے۔ ایک حدیث میں آیاہے کہ ”قیامت کی نشانیاں دوسوسال کے بعد ظاہر ہوں گی،،۔
(ابن ماجہ، مشکوٰة باب اشراط الساعة)
علماء نے اس کے دو مطلب بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ قیامت کی عمومی علامات دوسوسال کے بعد ظاہر ہوں گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی بڑی نشانیاں ہزار سال کے بعد ظاہر ہوں گی۔ ان دونوں اقوال میں تطبیق یوں ہے کہ قیامت کی عمومی نشانیاں دوسوسال کے بعد سے ہزار سال کے عرصہ میں یعنی بارہ سوسال کے عرصہ میں مکمل ہوجائیں گی اور بارہ سوسال کے بعد بڑی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔
(بحوالہ مظاہر حق:مشکوٰة)
علماء نے ایک حدیث کی تشریح کے ذیل میں لکھا ہے کہ اسلام میں بدعات کی ابتداء دو سو بیس سال کے عرصہ میں ہوئی ہے، جس سے آپ ا کے قول کی وضاحت ہوتی ہے اور اس وقت چودہ سوتیس ہجری سال کا عرصہ گذر چکا ہے، اس لحاظ سے دنیا دو سوتیس سال کا زائد عرصہ گذار چکی ہے اور قریب ہے کہ قیامت کی بڑی نشانیوں کا ظہور ہوجائے۔ در منثور کی ایک روایت میں جوقیامت کی عمومی نشانیاں بیان کی گئی ہیں، ان کی تعداد بہتر (۷۲) ہے (درمنثور ص:۵۲، ج:۶) جو اپنی کثرت کے ساتھ تکمیل کو پہنچ چکی ہیں، یہاں نقل کی جانے والی نشانیاں درمنثور کی روایت اور دوسری احادیث کا مجموعہ ہیں:
۱…نمازیں ضائع کی جائیں گی۔ ۲…نمازوں میں حقیقت (جان) نہ ہوگی۔ ۳…احکام الٰہی کی رعایت نہ کی جائے گی۔ ۴…لوگ قرآن شریف پڑھیں گے لیکن اس کی افہام وتفہیم سے قاصر ہوں گے۔ ۵…قرآن شریف کو نغمہ سرائی کے انداز سے پڑھا جائے گا، قرآن کریم کے نسخوں کو خوب آراستہ کیا جائے گا۔ ۶…جہالت عام ہوگی۔ ۷…علماء کی قلت ہوگی۔۷…اہل علم کی اتباع نہ کی جائے گی۔ ۹…علم اٹھالیا جائے گا یعنی اہل علم کی قدر نہ ہوگی اور ان کا قتل عام ہوگا۔۱۰…زکوٰة تاوان بن جائے گی۔ ۱۱…نظام عدل ختم ہوجائے گا۔۱۲…قاضی بکنے والے لوگ ہوں گے۔ ۱۳…شرعی سزائیں معطل ہوجائیں گی۔۱۴… بلاوجہ جھوٹی گواہی دینے کا معمول بن جائے گا۔ ۱۵…دین کو دنیا کے عوض بیچا جائے گا۔ ۱۶… دینی علوم کا حصول دنیا حاصل کرنے کے لئے ہوگا، آخرت کے کاموں سے دنیا کمائی جائے گی۔ ۱۷… امن کم ہوگا۔ ۱۸…لوٹ مار عام ہوگی۔ ۱۹…بیت المال ذاتی ملک سمجھا جائے گا۔ ۲۰…ہرج (قتل وغارت گری) عام ہوگی، قاتل کو معلوم نہیں ہوگاکہ کیوں قتل کررہا ہوں اور مقتول کو معلوم نہیں ہوگاکہ کیوں قتل کیا جارہا ہوں۔۲۱…پولیس والوں کی کثرت ہوگی (اور یہ کثرت بجائے حفاظت کے، غیر حفاظتی امور کی انجام دہی کے لئے ہوگی)۔۲۲…دنیا سے عشق ہوگا، موت سے کراہت ہوگی۔۲۳…دلوں میں لالچ ہوگا۔ ۲۴…مال ودولت کی فراوانی ہوگی۔ ۲۵…سوال کرنے (بھیک مانگنے) والے زیادہ ہوں گے، عطا کرنے والے (دینے والے) کم ہوں گے۔ ۲۶… مالدار لوگ بخیل اور خواہش پرست ہوں گے۔ ۲۷…سود کھانا عام ہوگا۔ ۲۸… حلال روزی کا حصول مشکل ہو جائے گا۔۲۹… خرید وفروخت کم ہو جائے گی۔ ۳۰… سونا (دہات) عام ہوگا۔ ۳۱… مسجدوں میں نقش ونگار کئے جائیں گے، جبکہ لوگ گناہوں کے عادی ہوں گے۔۳۲…بدکار لوگوں کی آوازیں مسجدوں میں بلند ہوں گی (جیساکہ آج کل موبائل کی گھنٹی میں گانا،موسیقی کی آوازیں مساجد میں عام سنی جاتی ہیں)۔۳۳…شریف آدمی کا جینا مشکل ہوگا۔ ۳۴…مؤمن بکری کے بچے سے زیادہ ذلیل ہوگا۔ ۳۵…کمینوں کے ٹھاٹھ ہوں گے۔ ۳۶… غیبت پھیل جائے گی۔۳۷…تہمت درازی عام ہوگی۔ ۳۸… سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ جانا جائے گا اور جھوٹ بولنے کو فن سمجھا جائے گا۔ ۳۹… جھوٹے کوسچا اور سچے کو جھوٹا جانا جائے گا۔ ۴۰…امین خیانت کرنے والے ہوں گے۔ ۴۱… نیک اعمال کم ہوں گے۔ ۴۲…تقریریں لمبی اور نمازیں مختصر ہوں گی۔ ۴۳…خواہشات نیک اعمال پر مقدم ہوں گی۔ ۴۴…نیک کاموں کے کرنے کا حکم اور برے کاموں سے منع کرنا چھوڑ دیا جائے گا۔ ۴۵…برے کاموں کو اچھا اور اچھے کاموں کو برا سمجھا جائے گا۔۴۶…غیر اللہ کی قسمیں کھائی جائیں گی۔۴۷…امانت ضائع کی جائے گی یعنی نااہل لوگوں کو عہدے، منصب اور اہم امور سونپے جائیں گے۔ ۴۸…چاند میں اختلاف ہوگا کہ یہ پہلی تاریخ کا ہے یا دوسری تاریخ کا ہے۔ ۴۹…شفاعتِ حضور ا ، عذاب قبر، جہنم اور دجال کے خروج کا انکار کیا جائے گا۔۵۰…صرف جاننے والوں کو سلام کیا جائے گا۔۵۱…آپس میں نفرت اور کدورت عام ہوگی۔ ۵۲…قطع رحمی (کہ رشتوں کا توڑنا) عام ہوگا۔ ۵۳…اولاد ماں باپ سے خادموں جیسا سلوک کرے گی۔ ۵۴…بیوی کی اطاعت کی جائے گی۔ ۵۵…دوست محبوب ہوں گے۔ ۵۶…فتنوں کی کثرت ہوگی ،ایسے اندھے فتنے ہوں گے جو دوزخ کی طرف بلانے والے ہوں گے۔ ۵۷…ایسے لوگ دینی پیشوا بننے کی کوشش کریں گے جن کی بات کا ماننا جہنم میں ڈالے گا۔ ۵۸…امت کے آخری لوگ پہلے وقت کے لوگوں کو طعن کریں گے اور خود کو ان سے دین کے اعتبار سے بہتر جانیں گے۔۵۹…یہود اور نصاریٰ کی قدم بقدم اتباع کی جائے گی۔ ۶۰…آدمی کا اکرام اس کے شرسے بچنے کے لئے ہوگا۔ ۶۱…شراب اور زنا کی کثرت ہوگی۔ ۶۲…گانا بجانا عام ہوگا۔۶۳…آلات موسیقی کو سنبھال کر رکھیں گے۔ ۶۴…سازباجوں کا دور ہوگا۔ ۶۵۔گانا بجانے والیوں کی تعظیم ہوگی۔۶۶…حکمران گھٹیااور نااہل لوگ ہوں۔۶۷…قوم کا رہنما گمراہ شخص ہوگا۔ ۶۸…کم عقل اور کم عمر لوگ (نوجوان) حکمران ہوں گے۔۶۹…سردار ظالم لوگ ہوں گے۔ ۷۰…امور سلطنت میں عورتیں شامل ہوں گی اور ان سے مشورے ہوں گے۔ ۷۱…عورتوں کی کثرت ہوگی۔ ۷۲…عورتیں سرکش ہوں گی۔ ۷۳…معاملات اور معاشرت میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ چلیں گی۔ ۷۴…عورتیں مردوں کی اور مرد عورتوں کی نقالی کریں گے۔ (اور دونوں پر اللہ اور رسول اللہ ا کی لعنت ہوگی)۔ ۷۶…طلاقوں کی کثرت ہوگی۔ ۷۷… اولاد سے کراہت کی جائے گی یعنی شرعی عذر کے بغیر خاندانی منصوبہ بندی کرائی جائے گی۔ ۷۸… ٹڈیاں (کیڑا) پیدانہ ہوں گی۔ ۷۹…بارشیں بے وقت ہوں گی۔ ۸۰…بارشوں کے ہونے کے باوجود گرمی ہوگی۔ ۸۱…وقت کے گذرنے میں تیزی آجائے گی۔ یعنی سال مہینے کے اور مہینہ ہفتے کے اور ہفتہ دن کے، اور دن گھڑی کے برابر ہوجائے گا۔ ۸۲… ہرآنے والا وقت گذشتہ وقت سے بدتر ہوگا۔ ۸۳… ناگہانی موت عام ہوگی کہ آدمی ٹھیک ٹھاک تھا اور حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے موت واقع ہوگی۔ ۸۴…بلند وبالا عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور تعمیرات کی کثرت ہوگی۔ ۸۵… غیر مسلم، مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے متحد ہوجائیں گے اور مسلمان باوجود کثرت کے سیلاب کے کوڑے کرکٹ کی طرح بے جان ہوجائیں گے، کیونکہ ان میں وھن پیدا ہوجائے گا یعنی موت سے کراہت اور دنیا سے محبت پیدا ہوجائے گی۔ ۸۶… عراق پر غیر مسلموں کا قبضہ ہوگا۔ ۸۷…اہل روم (مغرب والے) مسلم ممالک (عراق، شام اور مصر) کی معیشت کو تنگ کردیں گے۔ ۸۸…عرب کی ناکہ بندی کی جائے گی اور اہل مدینہ کا محاصرہ کردیا جائیگا۔ ۸۹… دریائے فرات پر سونے کے حصول کے لئے جنگ ہوگی تو ایسی صورت میں انتظار کیا جائے۔ ۹۰…تیز آندھیوں کا۔ ۹۱…زلزلوں کا۔ ۹۲…زمین میں دھنسنے کا۔ ۹۳…شکلوں کے مسخ ہونے کا۔ ۹۴…آسمان سے پتھروں کے برسنے کا ۔ ۹۵…یکے بعد دیگرے مسلسل آنے والی پریشانیوں اور مصائب کا،،۔(بخاری ومسلم، ابوداؤد، درمنثور:۶،مسند احمد، ج:۲، ترمذی ج:۲، جمع الفوائد، الاشاعة، الفتن نعیم بن حماد ج:۲،السنن الواردة، صحیح ابن حبان، جمع الفوائد)
جب کہ ان نشانیوں سے متعلق احادیث کی تشریحات اور تفاصیل اردو کی مترجم کتب: مظاہر حق ج:۴،۵ باب الفتن وعلامات القیامة معارف الحدیث ج:۸، باب الفتن، بکھرے موتی ج:۲ اور فضائل علم وعلماء (از مولانا محمد اسماعیل) میں دیکھی جاسکتی ہیں، اور یہ مذکورہ نشانیاں اب دنیا بھر میں اور ہمارے معاشرے میں عام نظر آرہی ہیں اور ابن حبان کی روایت میں بیان کی گئی مدت بھی مکمل ہوچکی ہے اور ایسی صورت ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد سے حضرت امام مہدی  کے ظہور تک دنیا ایسے مصائب اور پریشانیوں کا مسکن بن جائے گی ،جس سے دنیا کی رونقیں ختم ہوجائیں گی، گویا کہ قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ ہوگی، اور علماء نے لکھا ہے کہ لوگ عیش وعشرت کی زندگی کی وجہ سے ان نشانیوں کو بطور علامات قیامت ماننے سے انکار اس لئے کریں گے کہ یہ علامات پہلے بھی دنیا میں موجود تھیں، اب ان کا ہونا کونسی نئی بات ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ علامات پہلے بھی موجود تھیں مگر ان کی کثرت نہیں تھی، اب ان کی کثرت ہوچکی ہے اور ان کی کثرت ہی علامات قیامت بننے کا سبب ہے۔ (مظاہر حق: باب علامات القیامة)
روایت کے آخری الفاظ کہ انتظار کروایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے آنے والی ہیں۔ اس میں اشارہ ہے ان بڑی پریشانیوں کی طرف جو قیامت کے بالکل قریبی زمانہ میں ظاہر ہوں گی، جس میں ظلم وستم ، قتل وغارت کی انتہاء ہوجاے گی، دنیا میں تین بڑے خسوف (زمین میں دھنسنا) مشرق، مغرب اور عرب میں ہوں گے، جس سے دنیا کی آبادی سمٹ کررہ جائے گی ۔ ( مشکوٰة)
پھر اس کے ساتھ ساتھ حضرت امام مہدی کا ظہور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، دجال کا خروج، دھواں جو زمین پر چالیس دن تک رہے گا، سورج کا مغرب سے نکلنا، جس کے بعد توبہ کے دروازے بند ہوجائیں گے، دابة الارض کا نکلنا، ہوا کا آنا جو ہرایمان والے کی روح قبض کرلے گی اوراس کے بعد دنیا کے بدترین لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔ خلاصہ ان احوال کا یہ کہ ان حالات میں بھی ان لوگوں کو نجات ملے گی جو دین پر ثابت قدمی سے جمے رہیں اور نیک اعمال کرتے رہیں اور فتنوں سے دور رہیں اور مصائب پر صبر سے کام لیتے رہیں گے اور ان میں بھی وہ شخص افضل ہوگا جو خود بھی دین پر ثابت قدمی سے جما رہے اور لوگوں کو بھی دین کی طرف متوجہ کرتا رہے۔ (صحیح بخاری ومسلم ابوداؤد، ترمذی)
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ناامید ہونے کے بجائے دین کی اشاعت اور اس کی بقاء کے لئے کمربستہ ہوجائیں، جس طرح حضور ا اور صحابہ کرام نے تمام تر پریشانیوں اور مصائب کے باوجود دین کی نشونما اور آبیاری کے لئے اپنا سب کچھ لگادیا اور اپنی جانیں تک قربان کردیں اور ان کی اتباع میں ہم بھی بنی نوع انسان کے خیر خواہ بن کر اعلاء کلمة اللہ اور اشاعت دین متین کو اپنی زندگی کا مقصد اصلی بنائیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس پر لگا کر ”کنتم خیر امة،، کا مصداق بن جائیں۔

بشکریہ
جامعہ علوم اسلامیہ
علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
[center]والسلام طالب دعا آپکا بھائی
اسداللہ شاہ[/center]
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے!

Post by پپو »

جزاک اللہ
چلو تو پھر تیاری کرتے ہیں وقت قریب ہے
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے!

Post by اضواء »

جزاك الله كل خير
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
اسداللہ شاہ
مشاق
مشاق
Posts: 1577
Joined: Mon Jul 06, 2009 3:04 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین پر
Contact:

Re: دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے!

Post by اسداللہ شاہ »

پپو wrote:جزاک اللہ
چلو تو پھر تیاری کرتے ہیں وقت قریب ہے
بھائی خود بھی کرنی ہے اور امت مسلمہ کے ایک ایک فرد سے کروانی ہے.
جزاک اللہ فی الدارین
[center]والسلام طالب دعا آپکا بھائی
اسداللہ شاہ[/center]
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے!

Post by میاں محمد اشفاق »

اللہ تعالٰی ہمیں اس کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”