اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
پیارے دوستو یہ میری اپنی تحریر ہے آپ سے شئیر کر رہا ہوں
کس بات کا خوف ۔کس چیز کا خوف ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شائد آپ میں سے کیسی کے پاس ہو ۔
یہ خوف ہے کیامجھے آج تک سمجھ نہیں آیا اس دنیا کا ہر بندہ کیسی نا کیسی خوف میں مبتلا ہے ۔اگر کوئی امیر بندہ ہے تو اُسے دولت کے چھن جانے کا خوف ہے ۔اگر کوئی غریب بندہ ہے تو اُسے دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے گزارہ کیسے ہو گا اس بات کا خوف ہے ۔اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اُس کو اپنے جھوٹ کے پکڑے جانے کا خوف ہے ۔اگر چھوٹا بچہ ہے تو اُس کو جنوں اور بھوتوں کا خوف اگر سکول کا کام نہیں کیا تو ٹیچر کا خوف ہے اگر امتحان اچھے نہیں ہوۓ تو فیل ہو جانے کا خوف ۔اگر کوئی بندہ نماز پڑھتا ہے تو اُس کو اس بات کا خوف ہے کہ پتا نہیں اس کی عبادت قبول ہو گی یا نہیں یعنی دنیا کا ہر بندہ کسی نا کسی انداز میں خوف میں مبتلا ہے
اب میرا خوف کیا ہے یہ تو مجھے بھی نہیں پتا لیکن خوف ہے مجھے میں ایک نامکمل انسان ہوں دنیا میں کامیاب ہو پاوں گا یا نہیں اس بات کا خوف ہے مجھے۔ میں نے قرآن پڑھا لیکن سمجھ نا سکا اس بات کا خوف ہے مجھے۔ میں نے ہنر سیکھا لیکن وہ بھی نا مکمل ۔
ایک طویل عرصہ زندگی گرزای ہے ایک طویل خواب کی طرح جس دن صبح ہو گی آنکھ ضرور کھلے گی اور آنکھ کھلنے کے بعد میں قلاش ہوں گا ابوالحسن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوں گا ۔
لیکن میں تو ابولحسن کی مانند بھی نہیں ہوں گا وہ دیوانہ تو آزادی سے سڑکوں پر پھرتا تھا میرے لیے اس خوف کی رسی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا جو میری گردن کو طویل کر دے گی۔اور اس خوف کی وجہ سے میری آنکھیں اور زبان باہر آ جاے گی۔
میری جوانی کی حسین راتوں اور حسین واقعات کے بعد جب میری آنکھ کھلے گی ہمیشہ کے لیے بند ہونے کے لیے۔یہ خوفناک تصور جب بھی میرے زہین میں اُبھرتا ہے میرے مسامات پسینہ اُگل دیتے ہیں ۔ میں تو اپنے کیسی سے کہ بھی نہیں سکتا اپنا یہ خوف کیسی کے سامنے بیاں نہیں کرسکتا اگر کیسی کے سامنے بیاں کرتا تو وہ اس بے اعتمادی کو دیکھ کر ناراض ہوتا تھے۔
کیسی انوکھی بات ہے انسان سیدھا اور سچا رہنا چاہتا ہے ۔ دنیا اور اہلِ دینا کے ساتھ مصالحت اور محبت کی زندگی کا خواہش مند ہوتا لیکن بعض اوقات یہ دنیا والے اس کے پاس کچھ بھی نہیں دہنے دیتے ماسواۓ اس خوف کہ پھولوں کا بستر بھی کانٹوں کے ڈھر میں تبدیل نا ہو جاۓ۔کاش کے ایجادات کرنے والے؛چاند پر اترنے والے؛جہاز پر بنانےوالے نے جہاز بنانے سے پہلے اس خوف کا علاج کیا ہوتا ۔ بعض اوقات میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور جانے کیوں میری زہین میں ماضی کچھ تصویریں ابھرنے لگیں ۔ کیسی عجیب ہے زندگی میری ترددسے پاک ۔اضطراب سے بھرپور ۔ دونوں خیال ایک دوسرۓ کی نفی کرتے ہوۓ شائد احساس کو سکون نہ مل سکے شائد اس خوف سے نجات نا مل سکے۔یہ احساس میرے دل میں موجود ہے کہ میں وہ زندگی نہیں گزار رہا جو میرے آباواجداد گزارتے تھے ۔ اور وہ زندگی سکون کی زندگی مجھے سے کافی دور ہے ۔ سب کچھ ہونے کے بعد بھی میری زندگی میں خوف ہے بے بسی ہے لاچاری ہے میں خود سے تو چل ہی نہیں رہا کسی کے سہارے چل رہا ہوں اور کسی وقت بھی یہ سہارا میرے ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔
کہتے ہیں ضمیر اگر صاف ہو تو زندگی بوجھ نہیں بنتی جبکہ نگاہوں کے راستے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنی زندگی کو بے مقصد سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ اس خوف کی وجہ سے سوچتا ہے اب کیا ہو گا ۔اب کیا کرے گا اور پھر زندگی بوجھل اور عذاب لگنے لگتی ہے ۔ اس خوف کی وجہ سے ضمیر کی ہولناک چیخیں اُسے اضطرب میں رکھتی ہیں ۔
اب آپ سب بتائیں مجھے۔
بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کیا اس خوف سے نجات ممکن ہے؟
رازہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نا ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
میراخوف
Re: میراخوف
بہت خوبصورت اظہاریہ ہے
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ایک بات ہے کہ جس کو اللہ کا خوف ہے اسکے اگے باقی سب خوف بے معنی ہیں
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ایک بات ہے کہ جس کو اللہ کا خوف ہے اسکے اگے باقی سب خوف بے معنی ہیں
Re: میراخوف
بشک شازل بھائی شکریہ تحریر کو پسند کرنے کاشازل wrote:بہت خوبصورت اظہاریہ ہے
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ایک بات ہے کہ جس کو اللہ کا خوف ہے اسکے اگے باقی سب خوف بے معنی ہیں
شازل بھائی میری خیال میں جس مسلمان کو اللہ کا خوف نہیں وہ مسلمان نہیں ہے شازل بھائی میں تو بہت گنہگار سا بندہ ہوں اور ہمشیہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن میرا کیا ہو گا مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ میں نے کو ئی نیک کام کیا بھی ہے یاں نہیں
میری تو اُس ذات پاک سے یہی دعا ہوتی ہے کہ ائے اللہ تو میرے گناہوں کی طرف نہ دیکھ اپنی رحمت کی طرف دیکھ اور مجھے ناچیز سے بندے کو معاف فرما
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
- چاند بابو
- منتظم اعلٰی
- Posts: 22224
- Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
- جنس:: مرد
- Location: بوریوالا
- Contact:
Re: میراخوف
ارے واہ بوبی بھیا آپ تو زبردست قسم کی سوچ اور بہترین تحریر لکھنے کی خوبی سے لیس ہیں۔
بہت ہی خوبصورت پرائے میں آپ نے خوف پر لکھا ہے۔ میں آپ کے طرز تحریر کی داد دیتا ہوں۔
بہت ہی خوبصورت پرائے میں آپ نے خوف پر لکھا ہے۔ میں آپ کے طرز تحریر کی داد دیتا ہوں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Re: میراخوف
بہت بہت شکریہ پیارے بھائیچاند بابو wrote:ارے واہ بوبی بھیا آپ تو زبردست قسم کی سوچ اور بہترین تحریر لکھنے کی خوبی سے لیس ہیں۔
بہت ہی خوبصورت پرائے میں آپ نے خوف پر لکھا ہے۔ میں آپ کے طرز تحریر کی داد دیتا ہوں۔
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
Re: میراخوف
آُپ کی بات درست ہے کہ جسے اللہ کا خوف نہیںوہ کیا مسلمان ہے
لیکن آجکل کسی کو بھی اللہ کا خوف نہیںرہ گیا
اگر اللہ کا خوف ہوتا تو کیا یہ سب ہورہا ہوتا
ہم میںسے اکثر صرف نام کے مسلمان ہیں،بس مسلمان کے گھر میںپیدا ہو گئے تو اسی لیے مسلمان ہیں
ورنہ ہم میںمسلمانوں والی نشانیاں ہی نہیںہیں
اللہ خیر کرے ہم پر
لیکن آجکل کسی کو بھی اللہ کا خوف نہیںرہ گیا
اگر اللہ کا خوف ہوتا تو کیا یہ سب ہورہا ہوتا
ہم میںسے اکثر صرف نام کے مسلمان ہیں،بس مسلمان کے گھر میںپیدا ہو گئے تو اسی لیے مسلمان ہیں
ورنہ ہم میںمسلمانوں والی نشانیاں ہی نہیںہیں
اللہ خیر کرے ہم پر
Re: میراخوف
شازل بھائی ہماری یہ حالت صرف ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے یہ صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی یہ ہی حالت ہے ہر کوئی اپنے ہی انداز میں پریشان ہے اللہ ہم مسلمانوں کو ایمان کی مضبوط کریے آمین
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)
Re: میراخوف
بہت خوب بوبی بھائی۔بوبی wrote:اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
پیارے دوستو یہ میری اپنی تحریر ہے آپ سے شئیر کر رہا ہوں
کس بات کا خوف ۔کس چیز کا خوف ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شائد آپ میں سے کیسی کے پاس ہو ۔
یہ خوف ہے کیامجھے آج تک سمجھ نہیں آیا اس دنیا کا ہر بندہ کیسی نا کیسی خوف میں مبتلا ہے ۔اگر کوئی امیر بندہ ہے تو اُسے دولت کے چھن جانے کا خوف ہے ۔اگر کوئی غریب بندہ ہے تو اُسے دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے گزارہ کیسے ہو گا اس بات کا خوف ہے ۔اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اُس کو اپنے جھوٹ کے پکڑے جانے کا خوف ہے ۔اگر چھوٹا بچہ ہے تو اُس کو جنوں اور بھوتوں کا خوف اگر سکول کا کام نہیں کیا تو ٹیچر کا خوف ہے اگر امتحان اچھے نہیں ہوۓ تو فیل ہو جانے کا خوف ۔اگر کوئی بندہ نماز پڑھتا ہے تو اُس کو اس بات کا خوف ہے کہ پتا نہیں اس کی عبادت قبول ہو گی یا نہیں یعنی دنیا کا ہر بندہ کسی نا کسی انداز میں خوف میں مبتلا ہے
اب میرا خوف کیا ہے یہ تو مجھے بھی نہیں پتا لیکن خوف ہے مجھے میں ایک نامکمل انسان ہوں دنیا میں کامیاب ہو پاوں گا یا نہیں اس بات کا خوف ہے مجھے۔ میں نے قرآن پڑھا لیکن سمجھ نا سکا اس بات کا خوف ہے مجھے۔ میں نے ہنر سیکھا لیکن وہ بھی نا مکمل ۔
ایک طویل عرصہ زندگی گرزای ہے ایک طویل خواب کی طرح جس دن صبح ہو گی آنکھ ضرور کھلے گی اور آنکھ کھلنے کے بعد میں قلاش ہوں گا ابوالحسن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوں گا ۔
لیکن میں تو ابولحسن کی مانند بھی نہیں ہوں گا وہ دیوانہ تو آزادی سے سڑکوں پر پھرتا تھا میرے لیے اس خوف کی رسی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا جو میری گردن کو طویل کر دے گی۔اور اس خوف کی وجہ سے میری آنکھیں اور زبان باہر آ جاے گی۔
میری جوانی کی حسین راتوں اور حسین واقعات کے بعد جب میری آنکھ کھلے گی ہمیشہ کے لیے بند ہونے کے لیے۔یہ خوفناک تصور جب بھی میرے زہین میں اُبھرتا ہے میرے مسامات پسینہ اُگل دیتے ہیں ۔ میں تو اپنے کیسی سے کہ بھی نہیں سکتا اپنا یہ خوف کیسی کے سامنے بیاں نہیں کرسکتا اگر کیسی کے سامنے بیاں کرتا تو وہ اس بے اعتمادی کو دیکھ کر ناراض ہوتا تھے۔
کیسی انوکھی بات ہے انسان سیدھا اور سچا رہنا چاہتا ہے ۔ دنیا اور اہلِ دینا کے ساتھ مصالحت اور محبت کی زندگی کا خواہش مند ہوتا لیکن بعض اوقات یہ دنیا والے اس کے پاس کچھ بھی نہیں دہنے دیتے ماسواۓ اس خوف کہ پھولوں کا بستر بھی کانٹوں کے ڈھر میں تبدیل نا ہو جاۓ۔کاش کے ایجادات کرنے والے؛چاند پر اترنے والے؛جہاز پر بنانےوالے نے جہاز بنانے سے پہلے اس خوف کا علاج کیا ہوتا ۔ بعض اوقات میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور جانے کیوں میری زہین میں ماضی کچھ تصویریں ابھرنے لگیں ۔ کیسی عجیب ہے زندگی میری ترددسے پاک ۔اضطراب سے بھرپور ۔ دونوں خیال ایک دوسرۓ کی نفی کرتے ہوۓ شائد احساس کو سکون نہ مل سکے شائد اس خوف سے نجات نا مل سکے۔یہ احساس میرے دل میں موجود ہے کہ میں وہ زندگی نہیں گزار رہا جو میرے آباواجداد گزارتے تھے ۔ اور وہ زندگی سکون کی زندگی مجھے سے کافی دور ہے ۔ سب کچھ ہونے کے بعد بھی میری زندگی میں خوف ہے بے بسی ہے لاچاری ہے میں خود سے تو چل ہی نہیں رہا کسی کے سہارے چل رہا ہوں اور کسی وقت بھی یہ سہارا میرے ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔
کہتے ہیں ضمیر اگر صاف ہو تو زندگی بوجھ نہیں بنتی جبکہ نگاہوں کے راستے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنی زندگی کو بے مقصد سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ اس خوف کی وجہ سے سوچتا ہے اب کیا ہو گا ۔اب کیا کرے گا اور پھر زندگی بوجھل اور عذاب لگنے لگتی ہے ۔ اس خوف کی وجہ سے ضمیر کی ہولناک چیخیں اُسے اضطرب میں رکھتی ہیں ۔
اب آپ سب بتائیں مجھے۔
بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کیا اس خوف سے نجات ممکن ہے؟
رازہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نا ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
اچھی تحریر کے لیئے بہت شکریہ۔
جس بندہ کو اللہ کا خوف ہو، اس کے لیئے دینا کے تمام خوف کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
Re: میراخوف
تحریر کو پسند کرنے کا شکریہ پیاریے رضی الدین قاضی بھائی
میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات
اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات