کیا ہم بزدل ہو چکے ہیں ؟
Posted: Sun Jul 14, 2013 9:15 pm
کیا ہم بزد ل ہوچکے ہیں ؟
گزشتہ سال جب ملالہ یوسف زئی پر دہشت گردوں کی جانب سے قاتلانہ حملہ ہوا تو میں نے ”ملالہ کا مشن۔۔ علم امن قدم قدم“ کے نام سے تحریر لکھی جس پہ ملک و ملت کی اس بہادر بیٹی کو خراج تحسین پیش کیا، مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ملالہ نے کیا لکھا، کس کی لکھی ہوئی تقریرکی، کس کس سفیر سے ملاقاتیں کیں، اور کس کس نے کیا کیا اعتراضات کیے،تمام اعتراضات کی گھٹیاں میں اٹھا کر کسی کوڑادان میں پھینکتا ہوں، کیونکہ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں، مجھے اتنا معلوم ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے، اور مذہب کے جھوٹے ٹھیکیداروں نے عورت سے تعلیم کا حق چھینا تو ایک معصوم بچی نے ان کیخلاف علم بغاوت بلند کردیا، مجھے اتنا یاد ہے کہ موت کو گلے سے لگا کر وہ معصوم بچی اپنی کلاس روزانہ اپنے سکول جاتی، ڈراوے، دھمکاوے اس کے قدم روک نہ سکے اور وہ قدم قدم علم و امن کے دئیے جلائے بڑھتی چلی گئی۔
ہر تصویر کے دورخ ہوتے ہیں، ہم صرف منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہم منفی سوچ کو پیدا کرنے اور فروغ دینے میں بہت تیز ہیں، جبکہ مثبت پہلو پہ نہ قدم اٹھاتے ہیں نہ مثبت راستے پہ چلنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں، ہمارے مزاج میں انتہاپسندی اور دل و دماغ پہ دہشت گردی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔اسلئے ہم دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے کسی بھی منفی پروپیگنڈا پر فوری طور پر یقین کرلیتے ہیں۔ہم بنیادی طور پر بزد ل ہوچکے ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ کسی وطن کی بیٹی کی عزت تار تار ہو تو ہم لوٹنے والے کو کچھ نہیں کہتے بلکہ لٹنے والی معصوم کونپل پر زبان درازی کرکے اسکے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔ہم ایمان کے سب سے نچلے درجے پر بھی پورے نہیں اترتے، کیونکہ ہم برائی کو ہاتھ سے روکنا تو درکناردل میں برا بھی نہیں جانتے، اچھے لوگوں کی حوصلہ شکنی اور برے لوگوں کی ہمت بڑھاتے ہیں۔
بدقسمتی سے فصیل ارض وطن 60سال سے تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔ نام نہاد جمہوریت کا جن، بار بار مارشل لاء، سسٹم تباہ، ادارے تباہ، میرا وطن مسلسل اندھیروں میں ہے۔ بھوک سے ناچار بدن، دہشت گردی سے لہولہان ہورہے ہیں۔ آئیے اپنا ایمان مضبوط کریں۔ ایمان کے اس درجے تک پہنچیں کہ ہم برائی کو ہاتھ سے روکیں۔ دہشت گرد کو برا کہیں، دہشت گردی کی ہر فورم پر حوصلہ شکنی کریں اور یہ بات ثابت کریں کہ ہم بزدل نہیں ہیں۔
رضی طاہر
گزشتہ سال جب ملالہ یوسف زئی پر دہشت گردوں کی جانب سے قاتلانہ حملہ ہوا تو میں نے ”ملالہ کا مشن۔۔ علم امن قدم قدم“ کے نام سے تحریر لکھی جس پہ ملک و ملت کی اس بہادر بیٹی کو خراج تحسین پیش کیا، مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ملالہ نے کیا لکھا، کس کی لکھی ہوئی تقریرکی، کس کس سفیر سے ملاقاتیں کیں، اور کس کس نے کیا کیا اعتراضات کیے،تمام اعتراضات کی گھٹیاں میں اٹھا کر کسی کوڑادان میں پھینکتا ہوں، کیونکہ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں، مجھے اتنا معلوم ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے، اور مذہب کے جھوٹے ٹھیکیداروں نے عورت سے تعلیم کا حق چھینا تو ایک معصوم بچی نے ان کیخلاف علم بغاوت بلند کردیا، مجھے اتنا یاد ہے کہ موت کو گلے سے لگا کر وہ معصوم بچی اپنی کلاس روزانہ اپنے سکول جاتی، ڈراوے، دھمکاوے اس کے قدم روک نہ سکے اور وہ قدم قدم علم و امن کے دئیے جلائے بڑھتی چلی گئی۔
ہر تصویر کے دورخ ہوتے ہیں، ہم صرف منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہم منفی سوچ کو پیدا کرنے اور فروغ دینے میں بہت تیز ہیں، جبکہ مثبت پہلو پہ نہ قدم اٹھاتے ہیں نہ مثبت راستے پہ چلنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں، ہمارے مزاج میں انتہاپسندی اور دل و دماغ پہ دہشت گردی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔اسلئے ہم دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے کسی بھی منفی پروپیگنڈا پر فوری طور پر یقین کرلیتے ہیں۔ہم بنیادی طور پر بزد ل ہوچکے ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ کسی وطن کی بیٹی کی عزت تار تار ہو تو ہم لوٹنے والے کو کچھ نہیں کہتے بلکہ لٹنے والی معصوم کونپل پر زبان درازی کرکے اسکے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔ہم ایمان کے سب سے نچلے درجے پر بھی پورے نہیں اترتے، کیونکہ ہم برائی کو ہاتھ سے روکنا تو درکناردل میں برا بھی نہیں جانتے، اچھے لوگوں کی حوصلہ شکنی اور برے لوگوں کی ہمت بڑھاتے ہیں۔
بدقسمتی سے فصیل ارض وطن 60سال سے تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔ نام نہاد جمہوریت کا جن، بار بار مارشل لاء، سسٹم تباہ، ادارے تباہ، میرا وطن مسلسل اندھیروں میں ہے۔ بھوک سے ناچار بدن، دہشت گردی سے لہولہان ہورہے ہیں۔ آئیے اپنا ایمان مضبوط کریں۔ ایمان کے اس درجے تک پہنچیں کہ ہم برائی کو ہاتھ سے روکیں۔ دہشت گرد کو برا کہیں، دہشت گردی کی ہر فورم پر حوصلہ شکنی کریں اور یہ بات ثابت کریں کہ ہم بزدل نہیں ہیں۔
رضی طاہر